سید شہزاد ناصر
محفلین
غیر کے پاس یہ اپنا ہی گماں ہے کہ نہیں
جلوہ گر یاد مرا ورنہ کہاں ہے کہ نہیں
دل کے پرزوں کو بغل بیچ لئے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں
مہر ہر ذرہ میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے
تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں
جرم ہے اس کی جفا کا کہ وفا کی تقصیر
کوئی تو بولو میاں منھ میں زباں ہے کہ نہیں
پاس ناموس مجھے عشق کا ہے اے بلبل
ورنہ یاں کون سا انداز فغاں ہے کہ نہیں
آگے شمشیر تمھاری کے بھلا یہ گردن
مُو سے باریک تر اے خوش کمراں ہے کہ نہیں
پوچھا سودا سے میں اک روز کہ اے آوارہ
تیرے رہنے کا معین بھی مکاں ہے کہ نہیں
یک بیک ہو کے بر آشفتہ لگا وہ کہنے
کچھ تجھے عقل سے بہرہ بھی میاں ہے کہ نہیں
دیکھا میں قصر فریدوں کے اوپر اک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں
جلوہ گر یاد مرا ورنہ کہاں ہے کہ نہیں
دل کے پرزوں کو بغل بیچ لئے پھرتا ہوں
کچھ علاج ان کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں
مہر ہر ذرہ میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے
تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں
جرم ہے اس کی جفا کا کہ وفا کی تقصیر
کوئی تو بولو میاں منھ میں زباں ہے کہ نہیں
پاس ناموس مجھے عشق کا ہے اے بلبل
ورنہ یاں کون سا انداز فغاں ہے کہ نہیں
آگے شمشیر تمھاری کے بھلا یہ گردن
مُو سے باریک تر اے خوش کمراں ہے کہ نہیں
پوچھا سودا سے میں اک روز کہ اے آوارہ
تیرے رہنے کا معین بھی مکاں ہے کہ نہیں
یک بیک ہو کے بر آشفتہ لگا وہ کہنے
کچھ تجھے عقل سے بہرہ بھی میاں ہے کہ نہیں
دیکھا میں قصر فریدوں کے اوپر اک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں