کچھ غزلیں

مخلص انسان

محفلین
ایک دیوانے سے بھرے شہر کو جا لگتی ہے
یہ محبت تو مجھے کوئی وبا لگتی ہے
روز آتی ہے میرے پاس تسلی دینے
شب تنہائی ! بتا ، تو میری کیا لگتی ہے
ایک فقط تو ہے جو بدلا ہے دنوں میں ورنہ
لگتے لگتے ہی زمانے کی ہوا لگتی ہے
آنکھ سے اشک گرا ہے سو میاں ! ہاتھ اٹھا
تارہ ٹوٹے پہ جو کی جائے دعا ، لگتی ہے
تیری آنکھوں کے ستاروں کے طفیل اے میرے دوست
دشت پر ہول کی ظلمت بھی ضیا لگتی ہے
وہ جو ملتی ہی نہیں عالم بیداری میں
آنکھ لگتے ہی میرے سینے سے آ لگتی ہے
بات جتنی بھی ہو بے جا مگر اے شیریں سخن !
جب تیرے لب سے ادا ہو تو بجا لگتی ہے
خوش گمانی کا یہ عالم ہے کہ فارس اکثر
یار کرتے ہیں جفا ، ہم کو وفا لگتی ہے !!
( بشکریہ : رحمان فارس )
 

مخلص انسان

محفلین
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
یہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوئے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں‌ کے سائے ہیں
تعارف روگ ہو جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے تکمیل تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ‌ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
ساحر لدھیانوی
 

فاخر رضا

محفلین
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
یہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوئے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں‌ کے سائے ہیں
تعارف روگ ہو جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے تکمیل تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ‌ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
ساحر لدھیانوی
ہے تو بہت اچھی مگر غزل نہیں لگتی
 

مخلص انسان

محفلین
میں خزاں رسیدہ گلاب ہوں مجھے چاہتوں کی بہار دے
میرے ہم نفس میرے پاس آ ، مجھے چند سانسیں ادھار دے

میں محبتوں کی کتاب ہوں مجھے اپنے دل کی نظر سے پڑھ
میرا حرف حرف اجال دے ، میرا لفظ لفظ نکھار دے

مجھے آنکھ بھرکے تو دیکھ لے ، میرے واسطے ہے تو آئینہ
میری سادگی میں بھی حسن ہو ، میرا روپ ایسا نکھار دے

تیری کشتی پر میں سوار ہوں ، تیری مرضی اب میرے نا خدا
تو جدھر سے چاہے گزار دے ، تو جہاں بھی چاہے اتار دے

جسے تو لکھے اسے میں پڑھوں جسے میں لکھوں اسے تو پڑھے
میں تیری غزل کو سنوار دوں تو میری غزل کو سنوار دے

مجھے گلستانوں سے کیا غرض ، مجھے دشت و صحرا کا خوف کیا
اسی راستے پہ میں چل پڑوں تو جہاں سے مجھ کو پکار دے

میں کروں گی دل سے قبول اسے ، مجھے نذر جو بھی کرے گا تو
مجھے دے سکے نہ تو پھول اگر تیرے پاس خار ہے خار دے

میرا ظرف تو نہ یوں آزما ، میرا غم ہے نغمہ جاوداں
میرے ضبط کی کوئی حد نہیں ، مجھے زخم چاہے ہزار دے
( بشکریہ : نغمہ نور )
 

مخلص انسان

محفلین
غلط معانی دیے جاتے ہیں زیر لب تبسم کو
سمجھ پائے نہ اب تک لوگ اس خاموش قلزم کو

بڑا دھوکہ دیا ہم کو ہماری خوش خیالی نے
نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے نگاہوں کے تصادم کو

محبت میں خطائیں ایک جانب سے نہیں ہوتیں
نہ تم الزام دو ہم کو ، نہ ہم الزام دیں تم کو

زباں خاموش ، ماتھے پر شکن ، آنکھوں میں افسانے
کوئی سمجھائے کیا کہتے ہیں اس طرز تکلم کو

تمھیں ناراض ہونے کا سلیقہ بھی نہیں آتا
شکن ماتھے پی ڈالو ، اور روکو اس تبسم کو

زمانہ ہو گیا اقبال ہم ایک ساتھ رہتے ہیں
تعجب ہے سمجھ پائے نہ تم ہم کو ، نہ ہم تم کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( اقبال عظیم )
 

مخلص انسان

محفلین
رہ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے
شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے
نہ دے سکے گا میرے عشق بے مقام کا ساتھ
فروغ حسن کہ اب تک اسیر محفل ہے
خطا پہ ناز سزا پر غور کیا کیجئے
کوئی دلیل نہ منطق عجیب شئے دل ہے
جہاں سے رکھتے ہیں ربط نیاز رکھتے ہیں
جبیں جھکائیں ہر ایک آستاں پہ مشکل ہے
نہ سیکھ پائے جو آداب بے سوالی کے
وہ ہاتھ کب تیرے دست کرم کے قابل ہے
خود اپنے شوق پہ ہے انحصار مرگ و حیات
ہمارا کوئی مسیحا نہ کوئی قاتل ہے
چھٹے کشاکش امید و بیم سے تاباں
سواد عشق میں بے حاصلی بھی حاصل ہے
( غلام ربانی تابا )
 

مخلص انسان

محفلین
اے رات
آ اور میرے گلے لگ جا
آ میں تمھاری آنکھیں ، تمہارے ہونٹ
تمہارے رخسار اور تمہاری پیشانی چوموں
تمہاری ٹھوڑی پہ بوسہ دوں
تمھیں کاجل لگاؤں
تمھارے بال سنواروں
اور تمہاری مانگ میں ستارے بھر دوں
اور تمہارے شانوں پہ سر رکھ کے
بچھڑے ہوئے لوگوں
اور بیتے ہوئے لمحوں کو یاد کروں
اور ٹوٹ کے چاروں طرف بکھر ے ہوئے آئینوں کی کرچیاں
چن چن کے
تمہیں اپنی زخمی پوریں دکھاؤں
اے رات
آ اور میرے وجود میں اتر
آ اور میری ہتھیلیوں پہ آہستہ آہستہ
اپنا تمام روپ پھیلا دے
( فرحت عباس شاہ )
 

مخلص انسان

محفلین
زندگی تجھ کو یہ سوجھی ہے شرارت کیسی
دیکھ گزری ہے میرے دل پہ قیامت کیسی

اپنے پتوں سے درختوں کو شکایت کیسی
ساتھ جب چھوڑ دیا ہے تو وضاحت کیسی

مجھ سے مت پوچھ میری جان میرے دل سے پوچھ
میں نے فرقت میں اٹھائی ہے اذیت کیسی

کوئی کب تک کرے برداشت ، زباں بند رکھے
ہو گئی ہے گل و گل زار کی حالت کیسی

درد خوشبو سے معطر ہے میری دل دنیا
تیری الفت نے بدل دی میری قسمت کیسی

دوڑتے پھرتے ہیں صحرا میں بگولوں کی طرح
کیا بتائیں کہ ہماری ہے طبیعت کیسی

لوگ ظاہر پہ بھی کر لیں گے بھروسا پھر بھی
دیکھ لیں آپ کہ ہے آپ کی نیت کیسی

میں نے کب مانگا ہے تجھ سے تیری چاہت کا ثبوت
گر محبت نہیں مجھ سے تو شکایت کیسی

جی رہا ہوں تیری یادوں کے سہارے لیکن
رفتہ رفتہ میری اب ہوگئی حالت کیسی

ہوتی ہی رہتی ہے اشعار کی بارش راغب
موسم ہجر کی مجھ پر ہے عنایت کیسی
( افتخار راغب )
 

مخلص انسان

محفلین
ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ ﭼﭗ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮧ ﺳﻨﻮ ﻣﺎﺟﺮﺍﺋﮯ ﺩﻝ
ﻣﯿﮟ ﺣﺎﻝ ﺩﻝ ﮐﮩﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﻨﮧ ﮐﻮ ﺁﺋﮯ ﺩﻝ
ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮐﻮﻥ ﮐﺲ ﺳﮯ ﮐﮩﻮﮞ ﺭﺍﺯ ﮨﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﺩﻝ ﮨﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﺎﺟﺮﺍﺋﮯ ﺩﻝ
ﮐﺐ ﺗﮏ ﯾﮧ ﮨﺎﺋﮯ ﮨﺎﺋﮯ ﺟﮕﺮ ﮨﺎﺋﮯ ﮨﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﮐﺮ ﺭﺣﻢ ﺍﮮ ﺧﺪﺍﺋﮯ ﺟﮕﺮ ، ﺍﮮ ﺧﺪﺍﺋﮯ ﺩﻝ
ﺩﻭ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺪﯾﺎ ﺳﺐ ﻣﺎﺟﺮﺍﺋﮯ ﺩﻝ
ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮩﮧ ﮐﮯ ﮨﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﺁﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺳﻨﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﻧﺎﻟﮩﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﺳﻨﺴﺎﻥ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﮍﯼ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﺎﺗﻢ ﺳﺮﺍﺋﮯ ﺩﻝ
ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﺤﻮ ﻟﺬﺕ ﺩﯾﺪ ﻗﻀﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﺑﺎﻍ ﻭ ﺑﮩﺎﺭ ﺯﯾﺴﺖ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺩﺍﻍ ﮨﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﺍﺏ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺟﺮﻡ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﺳﺰﺍﺋﮯ ﺩﻝ
ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ ﺑﺲ ﻣﻌﺎﻑ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﻭ ﺧﻄﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﮨﺮ ﮨﺮ ﺍﺩﺍ ﺑﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﮨﮯ ﻗﺎﺗﻞ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﺩﻝ
ﺁﺧﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﺑﭽﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮﮔﺎ ﻧﮧ ﺻﺒﺮ ﺁﺯﻣﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﺳﺐ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﺍیﮎ ﺳﯿﻞ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﮨﮯ ﮨﺮ ﺍﻗﺘﻀﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﺎﺋﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﻮ ﭘﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﻣﺠﺬﻭﺏ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﻏﯿﺮ ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺩﻝ
ﻋﺸﻖ ﺑﺘﺎﮞ ﮨﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺣﻖ ﻧﺎﺳﺰﺍﺋﮯ ﺩﻝ
( بشکریہ : علی حیدر )
 

مخلص انسان

محفلین
وہ کون ہیں جو غم کا مزا جانتے نہیں
بس دوسروں کے درد کو پہچانتے نہیں

اس جبر مصلحت سے تو رسوائیاں بھلی
جیسے کے ہم انہیں ، وہ ہمیں جانتے نہیں

کم بخت آنکھ اٹھتی نہ کبھی ان کے رو برو
ہم ان کو جانتے تو ہیں ، پہچانتے نہیں

واعظ خلوص ہے تیرے انداز فکر میں
ہم تیری گفتگو کا برا مانتے نہیں

حد سے بڑھے تو علم بھی ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں

رہتے ہیں عافیت سے وہی لوگ اے خمار
جو زندگی میں دل کا کہا مانتے نہیں
( خمار بارہ بنکوی )
 

مخلص انسان

محفلین
ظلمت ہے بے پناہ مگر جانتے ہیں ہم
اس رات کی بھی ہوگی سحر جانتے ہیں ہم
لفظوں سے کھیلنے کا ہنر جانتے ہیں ہم
پر شاعری ہے کار دگر جانتے ہیں ہم
حصے میں جب سے آیا ہے سوز غم حیات
ہوتا ہے کیسا درد جگر جانتے ہیں ہم
چلنے لگے تو ماں کی دعا لے لی اپنے ساتھ
ہر سمت پرخطر ہے ڈگر جانتے ہیں ہم
مانا تیری نگاہ میں قیمت نہیں مگر
اشکوں کو اپنے لعل و گہر جانتے ہیں ہم
قائم ہے دوستوں سے محبت کا سلسلہ
انجام دوستی کا مگر جانتے ہیں ہم
طالب ! نہیں ہے کوئی ٹھکانہ تو کیا ہوا
ٹھہرے ہیں جس جگہ ، اسے گھر جانتے ہیں ہم
( طالب صدیقی )
 

مخلص انسان

محفلین
ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
ﻣﮕﺮ ﺍﺣﺘﯿﺎﻃﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

ﺑﺮﮮ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮﮞ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﺳﺐ ﺭﺷﺘﮯ ﯾﮩﯿﮟ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﯿﺎ ﺁﮔﺌﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﮧ ﺍﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

ﮐﮭﻠﮯ ﺗﮭﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺩﺭ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﺣﺪ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ
ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻟﻮﭦ ﮐﮯ ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺁﻧﺴﻮﮞ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﺷﺮﯾﻔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
( ﻭﺳﯿﻢ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ )
 

فاخر رضا

محفلین
ﻣﮕﺮ ﺍﺣﺘﯿﺎﻃﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻟﻮﭦ ﮐﮯ ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
ان دو مصرعوں میں کوئی کمی بیشی ہوگئی ہے ٹائپنگ کے دوران. پلیز چیک کرلیں
 

مخلص انسان

محفلین
شعلہ بن کر لہک رہا ہے کوئی
کتنا اندر سے پک رہا ہے کوئی
پھر صدا آرہی ہے " شوخ صفت "
دل کے اندر چہک رہا ہے کوئی
خوشبوؤں سے مہک رہا ہے بدن
عرق گل چھڑک رہا ہے کوئی
چاندنی موج زن ہے آنکھوں میں
چاند بن کر چمک رہا ہے کوئی
جسم کندن سا ہوتا جاتا ہے
دل میں گویا دہک رہا ہے کوئی
بے خبر دل مچل اٹھا اختر
بے تحاشہ لپک رہا ہے کوئی
( کلیم اختر )
 

مخلص انسان

محفلین
ﻣﮕﺮ ﺍﺣﺘﯿﺎﻃﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻟﻮﭦ ﮐﮯ ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
ان دو مصرعوں میں کوئی کمی بیشی ہوگئی ہے ٹائپنگ کے دوران. پلیز چیک کرلیں
یہ ہی الفاظ درج ہیں
 
Top