کچھ غزلیں

فاخر رضا

محفلین
ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
ﻣﮕﺮ ﺍﺣﺘﯿﺎﻃﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

ﺑﺮﮮ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮﮞ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﺳﺐ ﺭﺷﺘﮯ ﯾﮩﯿﮟ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﯿﺎ ﺁﮔﺌﯽ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﮧ ﺍﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

ﮐﮭﻠﮯ ﺗﮭﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺩﺭ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﺣﺪ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ
ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻟﻮﭦ ﮐﮯ ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ

ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺁﻧﺴﻮﮞ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﺷﺮﯾﻔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ
( ﻭﺳﯿﻢ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ )


WASEEM BARELVI
  • 1940
  • Delhi

wo mere ghar nahin aata main uske ghar nahin jata
Roman





light.png
Click on any word for its meaning

Add / Improve meaning

vo mere ghar nahīñ aatā maiñ us ke ghar nahīñ jaatā


magar in ehtiyātoñ se ta.alluq mar nahīñ jaatā

bure achchhe hoñ jaise bhī hoñ sab rishte yahīñ ke haiñ


kisī ko saath duniyā se koī le kar nahīñ jaatā

gharoñ kī tarbiyat kyā aa ga.ī T.V ke hāthoñ meñ


koī bachcha ab apne baap ke uupar nahīñ jaatā

khule the shahr meñ sau dar magar ik had ke andar hī


kahāñ jaatā agar maiñ lauT ke phir ghar nahīñ jaatā

mohabbat ke ye aañsū haiñ unheñ āñkhoñ meñ rahne do


sharīfoñ ke gharoñ kā mas.ala bāhar nahīñ jaatā

'vasīm' us se kaho duniyā bahut mahdūd hai merī


kisī dar kā jo ho jaa.e vo phir dar dar nahīñ jaatā
 

فاخر رضا

محفلین

magar in ehtiyātoñ se ta.alluq mar nahīñ jaatā


kahāñ jaatā agar maiñ lauT ke phir ghar nahīñ


اگر میرے بھائی آپ کسی اچھی ویب سائٹ سے مدد لیں تو صحیح ٹائپ کیا ہوا کلام مل جائے گا. یو ٹیوب وغیرہ پر پڑھی گئی شاعری جو شوقیہ افراد پڑھتے ہیں ان کا یہی حال ہونا ہے. انکاآپ طلعت حسین یا غلام محی الدین سے موازنہ تو نہیں کرسکتے.
کراچی والا ہونے کا یہی فائدہ ہے کہ شاعری کا وزن سمجھنے کے لئے تعلیم حاصل نہیں کرنی پڑتی، گھر پر ہی دادا دادی سب سکھا دیتے ہیں.
 

مخلص انسان

محفلین
چلو اچھا ہی ہوا بھول گئے تم مجھ کو
ورنہ الزام تمہارے میں کہاں تک سہتا
اپنی خود داری الفت کا جنازہ لے کر
بے وفا تم کو نہ کہتا تو بھلا کیا کہتا
درمیاں فاصلے کچھ کم نہیں ہونے پائے
زخم بڑھتے گئے کچھ کم نہیں ہونے پائے
خون کرنا ہی تھا گر عہد وفا کا تم کو
ڈھونگ الفت کا رچانے کی ضرورت کیا تھی
اپنے احساس گرانبار کی تسکیں کے لیئے
مجھ کو دیوانہ بنانے کی ضرورت کیا تھی
دشت غربت میں کسی دن مجھے آرام نہ تھا
جز دل آزاری کے تم کو بھی کوئی کام نہ تھا
جو بھی ہونا تھا ہوا ، بھول ہی جاؤ سب کچھ
داستان گل و بلبل نہ سناؤ مجھ کو
تم سے کہتی ہے یہ بیداری چشم پرنم
پھر خدارا نہ کوئی خواب دکھاؤ مجھ کو
خوب واقف ہوں جہاں میں غم و آلام سے میں
مر نہ جاؤں گا محبت کے اس انجام سے میں
( عبد اللہ ناظر )
 

مخلص انسان

محفلین
گل جسم و جاں کو جلائے گی
کوئی آگ رنگ دکھائے گی

لب و لہجہ اور ہے آنکھ کا
جو کہے گی اسی کو چھپائے گی

میرے گائوں گھر سے اڑی ہے جو
وہی خاک شہر پہ چھائے گی

میں جہاں جہاں بھی قدم رکھوں
وہ زمین ہاتھ نہ آئے گی

میں کتاب رکھ بھی دوں ہاجرہ
مجھے نیند پھر بھی نہ آئے گی
( ہاجرہ رحمان )
 

مخلص انسان

محفلین
کاجل تیری آنکھوں کا میری آنکھوں میں در آئے
میں بات کروں تجھ سے اور شام اتر آئے

کچھ روز تلک آنگن بھیگا ہوا رہتا ہے
بادل کی سی شال اوڑھے جب تو میرے گھر آئے

ہم دیکھتے ہیں تجھ کو بارش کے مہینوں میں
بھیگے ہوئے بالوں میں تو اور نکھر آئے

یہ لوگ میرے دل کو پیارے ہیں بہت لیکن
اس شہر سے کچھ پہلے تو مجھ کو نظر آئے

جس ہاتھ پہ دھرنا تھی قندیل حنا ہم کو
ہم اپنی سیاہی بھی اس ہاتھ پہ دھر آئے

سر پھوڑتی پھرتی تھی رخصت کی ہوا ہر سو
سو ہم تیرے کوچے سے چپ چاپ گزر آئے

سرسبز شجر تجھ کو گھیرے ہوئے رہتے ہیں
ہاں یاد یہ پیلا سا دل تجھ کو اگر آئے
 

مخلص انسان

محفلین
اس چمن کو بہار دی ہم نے
پتی پتی نکھار دی ہم نے
اپنے خون جگر کے چھینٹوں سے
زینت لالہ زار دی ہم نے
یہاں کسے ذوق چاک دامانی
داد فصل بہار دی ہم نے
نہ گئیں بے قراریاں نہ گئیں
دل کو تسکیں ہزار دی ہم نے
بارہا ان کو بھی شب فرقت
رحمت انتظار دی ہم نے
حسن کے بس کی بات کب تھی یہ
زلف گیتی سنوار دی ہم نے
جسے کہتے ہیں کائنات سرور
ان کی آنکھوں پہ وار دی ہم نے
زندگی کی سیہ پہاڑ سی رات
مہ رخوں میں گزار دی ہم نے
خون ناحق بھی کام آہی گیا
خاک مستقبل نکھار دی ہم نے
اپنے ہی گھر میں اجنبی ہو کر
شام غربت گذار دی ہم نے
قیس و فرہاد کو بھی حسرت ہو
آج تک عاشقی روایت تھی
اب حقیقت قرار دی ہم نے
ہم سے پہلے کہاں تھا یہ عالم
تیری دنیا سنوار دی ہم نے
زندگی دور جام تھی ساغر
گردشوں میں گزار دی ہم نے
( ساغر نظامی )
 

مخلص انسان

محفلین
سلگتی شاخ سے خوشبو کو مہکانا نہیں اچھا
اگر خود بھی تڑپتے ہو تو تڑپانا نہیں اچھا

یہاں پستہ قدوں کی بھیڑ ہے لیکن ذرا ٹھہرو
قدو قامت کا نظروں میں یہ پیمانہ نہیں اچھا

اگر ترک تعلق میں یہ دنیا چھوڑ دی وشمہ
محبت کے نگر پھر سے پلٹ آنا نہیں اچھا

خوشی کا ایک لمحہ بھی کئی صدیوں پہ بھاری ہے
مگر تیرا یہاں سے روٹھ کر جانا نہیں اچھا

سروں پہ دھوپ رہتی ہے مگر سایہ ہی دیتے ہیں
یہاں اشجار کی راہوں میں ویرانہ نہیں اچھا

فسردہ شہر میں ہر آدمی خوف وبا میں ہے
کسی کی بے بسی پہ اتنا مسکانا نہیں اچھا

یقیں کی حد میں رہ کر ہی خدا کے آدمی ہیں ہم
زمیں کے عشق میں جنت کو ٹھکرانا نہیں اچھا

نگاہوں میں اداسی ہے لبوں پہ گہری خاموشی
سکوت ذات کو اتنا بھی تڑپانا نہیں اچھا

چلے جانے پہ اس کے رو رہی ہوں آج لاحاصل
غموں کو دل کی وادی میں یوں ٹھہرانا نہیں اچھا
( وشمہ خان وشمہ )
 

مخلص انسان

محفلین
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کیلئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

اے دل کی خلش چل یوں ہی سہی چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے

آتا ہے جو طوفاں آنے دے کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے

اس عشق میں جان کو کھونا ہے ماتم کرنا ہے رونا ہے
میں جانتا ہوں جو ہونا ہے پر کیا کروں جب دل آ جائے

اے راہبر کامل چلنے کو تیار تو ہوں پر یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے

ہاں یاد مجھے تم کر لینا آواز مجھے تم دے لینا
اس راہ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے

اب کیا ڈھونڈوں گا چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہوں اے جذبہ غم کہ مشکل پس مشکل آ جائے
( بھزاد لکھنوی )
 

مخلص انسان

محفلین
ﺟﮭﺠﮭﮑﺘﮯ ﺭہنا ﻧﮩﯿﮟ ہے ﺍﺩﺍ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ
ﺳﻮ ﮈﺭﺗﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﯽ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ

ﻣﯿﺎﮞ ! ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﮐﺮﻧﺎ ﺧﻄﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ
ﺷﮑﺴﺖ ﺩﻝ ہے ﮐﻢ ﺍﺯﮐﻢ ﺳﺰﺍ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ

ﮔﻨﮯ ﭼﻨﮯ ہوئے ﺳﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﺎ ہے ﯾﮧ ﻧﻮﺭ
ہر ﺍﯾﮏ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ہوﺗﯽ ﻋﻄﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ

تمھاﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮭﯽ ہیں ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﺍہیں ﺩﻭ
ﺳﻮ ﺍﯾﮏ ﭼﻦ ﻟﻮ ، ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﯾﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ؟

ﺑﮩﺖ ﺣﺴﯿﻦ ہے ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﻣﮑﻤﻞ ہے
ﺳﻮ ﺩﮮ ﺭہا ہوﮞ ﺗﺠﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ

ﺗﺠﮭﮯ ﻣﻼ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺍﻋﺘﺪﺍﻝ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﯿﺎ
ﺳﻮ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﺳﮯ ہی ﺑﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ

ﻭﮦ ﭘﺘﮭﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ، ﻟﻮﮒ ﭘﺘﮭﺮ ﺗﮭﮯ
ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ہوﺋﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ

ﻧﺌﮯ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻼ
ﺳﻮ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ نے ﺑﺎﺭہا ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ

ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ہاﺭ ﮐﮯ ﻣﻠﺘﯽ ہے ﺟﯿﺖ ، ﺟﯿﺖ ﮐﮯ ہاﺭ
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﺑﺎﺯﯼ ﻟﮕﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ

ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺣﺴﻦ ﭘﮧ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻ ﮐﮯ ﮐﮩﺘﺎ ہوﮞ
ﮐﺒﮭﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻧﮧ ہوﮔﯽ ﻗﻀﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ

ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﻠﮯ ﮐﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻼﺵ ﻣﺠﮭﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺁﭖ ہے ﻓﺎﺭﺱ ﺟﺰﺍ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ
‏( ﺭﺣﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺱ )
 

مخلص انسان

محفلین
دل میں چبھے نہ جن کو کبھی خار زیست کے
کیا ان پہ آشکار ہوں اسرار زیست کے
سیکھا نہیں جنھوں نے سلیقہ کلام کا
تعلیم کرنے آئے ہیں اطوار زیست کے
زیبا تھی جن کو زیست جہاں سے گزر گئے
ہم مفت میں ہوئے ہیں سزاوار زیست کے
کیوں ہم پہ ہی تمام ہوئیں غم کی نعمتیں ؟
کیا ایک ہمی ہوئے تھے گنہگار زیست کے ؟
دیکھی ہے ہم نے رونق نیرنگی حیات
منظر بدل چکے ہیں کئی بار زیست کے
چکھی ہے ہم نے موت کی ّلذت ہزار بار
گزرے ہیں ہم پہ حادثے دوچار زیست کے
کار حیات ریشمی دھاگوں کا کھیل تھا
الجھے تو پھر سلجھ نہ سکے تار زیست کے
ایک ایک سانس کے لیے کاسہ لیے پھریں
ایسے بھی ہم نہیں ہیں طلب گار زیست کے
رنگین ہے ہمارے لہو سے نصاب زیست
عنواں رقم کیے ہیں ، سردار زیست کے
اب آس ہے نہ کوئی تمنا نہ جستجو
باقی نہیں ہیں زیست میں آثار زیست کے
کیا زندگی کا رنگ ہو جانے ہمارے بعد
ہم آخری امیں ہیں ، طرحدار زیست کے
( مشتاق عزیز )
 
Top