محسن وقار علی
محفلین
اس الیکشن میں ایک ہی خاندان کے افراد کی اسمبلیوں میں تعداد کے حوالے سے شریف فیملی پہلے نمبر پر آگئی ہے۔ —. فوٹو اے ایف پی
اسلام آباد: نئی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں حلف اُٹھانے والے باپ، بیٹوں، بھائیوں اور بیٹیوں، شوہروں و بیویوں اور بھتیجوں و بھتیجیوں کی موجودگی سے بہت سے طاقتور سیاسی گھرانوں نے اپنی روایتی قوت کو برقرار رکھا ہے۔
ملکی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ جمہوری طور پر منتخب حکومت، دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کررہی ہے، گیارہ مئی کے انتخابات کے نتائج کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ روایتی سیاسی گھرانوں نے قانون ساز اداروں پر اپنی گرفت پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط کرلی ہے۔
سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں روایتی سیاسی گھرانے مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔
سندھ میں مہر، مخدوموں، جتوئیوں، مگسیوں، بجارانی اور تالپروں اور پنجاب میں شریفوں، لغاریوں اور کھوسہ گھرانے سیاسی منظرنامے پر کئی دہائیوں سے چھائے ہوئے ہیں، اور اب ایک مرتبہ پھر یہی گھرانے اسمبلیوں میں دیکھے جائیں گے۔
ہالہ کا مخدوم گھرانہ سندھ کی سیاست پر قیام پاکستان سے اپنی گرفت قائم کیے ہوئے ہے۔ اس وقت اس گھرانے کے تین افراد قومی اور سندھ اسمبلی میں پہنچے ہیں، جن میں مخدوم امین فہیم کا نام نمایاں ہے، جنہیں پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر مقرر کیا ہے۔ ان کے بیٹے مخدوم جمیل الزماں اور بھائی مخدوم رفیق الزماں صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
گھوٹکی کے مہر گھرانے کے علی گوہر مہر اور ان کے بھائی علی محمد مہر نے اس ضلع سے اپنی قومی اسمبلی کی نشستیں محفوظ رکھی ہیں۔ ان کے بھائی علی نواز مہر اور کزن محمد بخش خان مہر نے سندھ کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
مہر قبیلے کا شکارپور میں اثرورسوخ موجود ہے۔ سابق وزیر غوث بخش مہر نے قومی اسمبلی کے لیے اپنی خاندانی نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے بیٹے شہریار مہر نے سندھ اسمبلی کے نشست پر۔
مگسیوں نے شہداد کوٹ اور بلوچستان کی سرحد سے جُڑے علاقوں میں اپنی سیاسی قوت برقرار رکھی ہے، جہاں سے تین بھائیوں میر عامر مگسی، میر خالد مگسی اور میر نادر مگسی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
پیپلزپارٹی کے تجربہ کار رہنما نواب یوسف تالپر نے ایک بار پھر عمرکوٹ سے قومی اسمبلی کے لیے اپنی روایتی نشست جیت لی ہے، اور ان کے بیٹے تیمور تالپر دوبارہ سندھ اسمبلی میں پہنچے ہیں۔
جیکب آباد سے پیپلزپارٹی کے ایک اور لیڈر میر ہزار خان بجارانی اس مرتبہ اگلے پانچ سالوں کے لیے سندھ کے وزیراعلیٰ بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے صوبائی اسمبلی کی نشست سے مقابلہ جیتا۔ ان کی قومی اسمبلی کی روایتی نشست پر اُن کے بیٹے میر شبیر بجارانی کو ملی۔ پیرپگارا کے بھائی پیر صدرالدین شاہ نے قومی اسمبلی کی دو نشستیں حاصل کیں، اور پگارا کے بیٹے سید راشد شاہ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
قومی اسمبلی کی اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بدین سے اپنی قومی اسمبلی کی نشست برقرار رکھی اور ان کے بیٹے حسنین مرزا دوبارہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔ اس سے قبل انہوں نے اپنے والد اور سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے استعفے کے بعد ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔
نوشہروفیروز کے جتوئیوں کا سندھ کی سیاست میں عملی کردار کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ اس مرتبہ غلام مرتضیٰ جتوئی قومی اسمبلی کی نشست جیت چکے ہیں، اور ان کے بھائی مسرور جتوئی دوبارہ صوبائی اسمبلی کے رکن بنے ہیں۔
فریال تالپر اور ڈاکٹر عذرا افضل صدر آصف علی زرداری کی بہنیں ہیں، انہوں نے نوابشاہ اور لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، جبکہ فریال تالپر کے شوہر منور تالپر میرپورخاص سے قومی اسمبلی کے رکنیت حاصل کی ہے۔
پیپلزپارٹی ہی کے ایک اور رہنما منظور وسان نے پچھلے انتخابات میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، انہوں نے اس مرتبہ سندھ اسمبلی کی رکنیت کو ترجیح دی جبکہ ان کے بھتیجے نواب وسان قومی اسمبلی میں پارٹی کی نمائندگی کریں گے۔
سینٹ میں پیپلزپارٹی کے چیف وہپ اسلام الدین شیخ کے بیٹے نعمان اسلام شیخ نے سکھر سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی ہے۔
اس کے علاوہ صوبہ پنجاب میں معروف سیاسی گھرانوں شریف، کھوسہ، لغاریوں اور مخدوموں کی مختلف علاقوں میں گرفت مضبوط ہے۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کے تین بیٹے اور ایک بھائی کی انتخابات میں شکست کے بعد ایک ہی خاندان کے افراد کی اسمبلیوں میں تعداد کے حوالے سے شریف فیملی پہلے نمبر پر آگئی ہے۔
نواز شریف جون کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم کا حلف اُٹھائیں گے، اور اُن کے بھائی شہباز شریف تیسری مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بنیں گے۔ شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز نے اپنی قومی اسمبلی کی نشست برقرار رکھی ہے، جبکہ نواز شریف کے داماد ریٹائرڈ کیپٹن محمد صفدر قومی اسمبلی میں مانسہرہ کے لوگوں کی نمائندگی کریں گے۔
گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود نے بیٹوں مصطفیٰ محمود اور مجتبیٰ محمود نے رحیم یار خان سے پنجاب اسمبلی کی سیٹیں جیتی ہیں۔ اسی طرح سابق صدر سردار فاروق لغاری کے بیٹوں اویس لغاری اور جمال لغاری نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو برقرار رکھا ہے،اور ان کے چچا جعفر لغاری پنجاب اسمبلی کی رکنیت حاصل کی ہے۔
خیبر پختونخوا میں جے یو آئی-ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی میں پہنچنے ہیں اور ان کے بھائی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
توقع کی جارہی ہے کہ مولانا کے تیسرے بھائی سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عطاء الرحمان مولانا کی دو نشستوں میں سے خالی چھوڑی جانے والی ایک نشست پر ضمنی انتخاب میں حصہ لیں گے۔
سابق وزیراعلیٰ آفتاب شیرپاؤ رکن قومی اسمبلی جبکہ ان کے بیٹے سکندر شیرپاؤ صوبائی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اُٹھائیں گے۔ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے نتیجے میں ایک ہی گھرانے کے بہت سے سیاستدان اسمبلی کی رکنیت حاصل کررہے ہیں۔ جن میں سابق وزیراعلیٰ سندھ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ، مسلم لیگ نون کے سینٹر مشاہداللہ خان کی بیٹی ردا خان اور مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی پرویز ملک کی بیگم شائستہ پرویز قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کریں گی۔
بہ شکریہ ڈان اردو