فرخ منظور
لائبریرین
کچھ مضطرب سی عشق کی دنیا ہے آج تک
جیسے کہ حسن کو نہیں دیکھا ہے آج تک
بس اِک جھلک دکھا کے جسے تو گزر گیا
وہ چشمِ شوق محوِ تماشا ہے آج تک
یوں تو اداس غمکدہء عشق ہے مگر
اس گھر میں اِک چراغ سا جلتا ہے آج تک
جس کے خلوصِ عشق کے افسانے بن گئے
تجھ کو اُسی سے رنجشِ بے جا ہے آج تک
پرچھائیاں نشاط و الم کی ہیں درمیاں
یعنی وصال و ہجر کا پردا ہے آج تک
ویرانیاں جہان کی آباد ہوچکیں
جز اِک دیارِ عشق کہ سُونا ہے آج تک
ساری دلوں میں ہیں غمِ پنہاں کی کاوشیں
جاری کشاکشِ غم دنیا ہے آج تک
ہم بیخودانِ عشق بہت شادماں سہی
لیکن دلوں میں درد سا اُٹھتا ہے آج تک
پورا بھی ہوکے جو کبھی پورا نہ ہوسکا
تیری نگاہ کا وہ تقاضا ہے آج تک
تُو نے کبھی کیا تھا جدائی کا تذکرہ
دل کو وہی لگا ہوا کھٹکا ہے آج تک
تاعمر یہ فراق بجا دل گرفتگی
پہلو میں کیا وہ درد بھی رکھا ہے آج تک؟
------- رگھوپتی سہائے فراق گھورکھپوری
جیسے کہ حسن کو نہیں دیکھا ہے آج تک
بس اِک جھلک دکھا کے جسے تو گزر گیا
وہ چشمِ شوق محوِ تماشا ہے آج تک
یوں تو اداس غمکدہء عشق ہے مگر
اس گھر میں اِک چراغ سا جلتا ہے آج تک
جس کے خلوصِ عشق کے افسانے بن گئے
تجھ کو اُسی سے رنجشِ بے جا ہے آج تک
پرچھائیاں نشاط و الم کی ہیں درمیاں
یعنی وصال و ہجر کا پردا ہے آج تک
ویرانیاں جہان کی آباد ہوچکیں
جز اِک دیارِ عشق کہ سُونا ہے آج تک
ساری دلوں میں ہیں غمِ پنہاں کی کاوشیں
جاری کشاکشِ غم دنیا ہے آج تک
ہم بیخودانِ عشق بہت شادماں سہی
لیکن دلوں میں درد سا اُٹھتا ہے آج تک
پورا بھی ہوکے جو کبھی پورا نہ ہوسکا
تیری نگاہ کا وہ تقاضا ہے آج تک
تُو نے کبھی کیا تھا جدائی کا تذکرہ
دل کو وہی لگا ہوا کھٹکا ہے آج تک
تاعمر یہ فراق بجا دل گرفتگی
پہلو میں کیا وہ درد بھی رکھا ہے آج تک؟
------- رگھوپتی سہائے فراق گھورکھپوری