علی ذاکر
محفلین
پاکستان ایسا ملک جس کی ساٹھ فیصد آبادی آج بھی دیہاتوں میں رہتی ہے پچھلے کئ سالوں سے ہم اپنا ملک یورپ و آمریکہ کے رحم و کرم پر چلا رہے ہیں پہلے قرض لیتے تھے آج کل حملے کر واکے لے رہے ہیںلیکن کیا وجہ ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی کشکول بھرتے بھرتے آمریکن بینک تک کنگال ہو گئے لیکن پاکستان ٹس سے مس نہیں ہوا کتنی حکومتیں آیئں اور چلی گئیں لیکن کیا غلطی صرف سیاستدانوں کی ہے پاکستان کی بربادی کے پیچھے صرف سیاستدان ہی نہیں کچھ ایسے عناصر بھی ہیں جو منظرِ عام تک نہیںآتے اس وقت میں جس ادارے کی بات کر رہا ہوںوہ این جی اوز ہیں جو ہمدرد بن کے عوام کے دلوں پر راج بھی کرتے ہیں اور اُن کے حق پر بھی ویسے تو ادارے پورے پامستان میں موجود ہیں لیکن سیالکوٹ ڈسکہ نارووال اور اس کے ارد گرد کے دیہات آج کل بین الاقوامی سطح پر بیت مشہور ہیں چانکہ یہ علاقے سپورٹس کڈز اور سرجیکل انسٹومنٹس تیار کرتے ہیں لیکن وجہ شہرت سپورٹس گڈز ہی ہے اس میں بھی فٹ بال پورے پورے یورپ اور آمریکہ میں استومال ہونے والا (اسی) فیصد فٹ بال اسی علاقے سے آتا ہے لیکن یہ فٹ بال (ایڈیداس) کی اسٹیمپ کساتھ پوری دنیا میں سپلائ کر دیا جاتا ہے یہ سارے فٹ بال فیکٹریز میں تیار نہیں کیئے جاتے (ساٹھ) فیصد وہاں کے دیہی ولاقے میں تیار کیا جاتاہے عورتیں خاص طور پر بچے تیار کرتے ہیں وہاں سے پھر یہ فیکٹریز میں جاتا ہے اس فٹ بال کی اسٹیچنگ (آٹھ) روپے میں ہوتی ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے اس علاقی میں جاپانی فیکٹری لگ گئ جو عورتیںاور بچے وہان گھروں میں کام کرتے تھے اُنہیں باقاعدہ فیکٹری تک لانا شروع کیا گیا پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دی اور جس فٹ بال کی اسٹیچنگ وہ (آٹھ )روپے میں کرتے تھے اُس کی قیمت (گیارہ)روپے کردی نتیجہ جو فٹ بال یورپین ملک کے نام سے بک رہا تھا وہ جاپانی کمپنی کے نام سے فروخت ہونے لگا اس صورت حال پر قابو پانے کے لیئے ہر ایک نے اپنے ہتھکنڈے استعمال کیئے اور ہتھیار کے طور پر یورپ نے این جی اوز کو آگے لانے کا فیصلہ کیا جوابا آمریکہ نے بھی این جی اوز کا مقابلہ این جی اوز سے کیا طے یہ کیا گیا اس انڈسٹری کے حوالے سے چائلڈ لیبر کا ایشو اگلے چند سالوں میں اُٹھ جائے گا اس وقت دنیا کا سب سے اچھا فٹ بال اُس کو سمجھا جاتا ہے جس کی اسٹیچنگ بچے کرتے ہیں کیونکہ بچوں کی انگلیاں باریک اور نرم ہوتی ہیں جس سے اسٹیچنگ میں ایک خاص قسم کی نفاست آ جاتی ہے اور اس علاقے میں غاربت کے باعث لوگوں نے اپنے بچوں کو اس کام میں لگایا ہوا ہے این جی اوز اس علاقے سے صرف فیلڈ فورث کے لیئے لوگ لیتی ہے ایڈمنسٹریشن کے سارے لوگ لاہور کراچی اور دیگر بڑے شہروں سے آتے ہیں اور وہی ہوتے ہیں جو کئ کئ سال سے ان کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں ان کا کچا چٹھا چھپانے کی رقم یہ ڈالرز اور پاونڈوں میں وصول کرتے ہیں کیونکہ یہ پیسہ سن کو آلہ ایجنسیوں سے ملتا ہے اور یہ لوگ حکومت پر پریشر ڈالی رکھتے ہیں این جی اوز بھی صرف اسی معاملے میں ہاتھ ڈالے گی جو بہت طول پکڑ گیا ہو جس سے اُن کی پبلسٹی ہو ایسا ملک جہاں ہر کوئ ایک دوسرے کو کھانے میں لگا ہو وہاں رحمتیں نہیں صرف بم ہی برستے ہیںہم لوگوں کو باہر کے سانپوں سے زیادہ اندر کے سانپوں نے زیادہ ڈنگ مارے ہیں۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئ بندہ رہا نی بندہ نواز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئ بندہ رہا نی بندہ نواز