عائشہ صدیقہ
محفلین
حیرت کی بات ہے کہ پطرس بخاری نے چند مزاحیہ مضامین لکھے اور باب علم و فن نے ان کو اردو ادب کی تاریخ مزاح نگاری میں ایک اہم اور موثر مقام دیا۔
یہی بات اس امر کی دلیل ہے کہ پطرس کی مزاح نگاری میں عظمت اور گہرائی کے عناصر ہیں، گویا کہ ان کی مزاح نگاری میں ایک نئی چیز بھی ہے اور ناقابل تقلید بھی!
پطرس کی ظرافت میں ایک چیز نمایاں نظرآتی ہے اور وہ ہے ان کی طبیعت کی شوخی اور چلبلا پن۔اسی سے وہ اپنی مزاح نگاری کو نکھارتے اور سنوارتے ہیں۔
ماجد مشتاق رائے لکھتے ہیں کہ
"پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان صاحب کو تقریر کے لئے بلایا تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔
بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا۔ ’’ پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔‘‘ پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے۔ ’’مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی؟‘‘ اس پر مولانا گڑ بڑا گئے اور بولے۔ ’’بھئی یہی کوئی پچھتر سال ہو گی۔‘‘ پطرس کہنے لگے۔ ’’ مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گذار دئے تو دو چار سال اور گذار لیجئے۔ ‘‘
یہی بات اس امر کی دلیل ہے کہ پطرس کی مزاح نگاری میں عظمت اور گہرائی کے عناصر ہیں، گویا کہ ان کی مزاح نگاری میں ایک نئی چیز بھی ہے اور ناقابل تقلید بھی!
پطرس کی ظرافت میں ایک چیز نمایاں نظرآتی ہے اور وہ ہے ان کی طبیعت کی شوخی اور چلبلا پن۔اسی سے وہ اپنی مزاح نگاری کو نکھارتے اور سنوارتے ہیں۔
ماجد مشتاق رائے لکھتے ہیں کہ
"پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان صاحب کو تقریر کے لئے بلایا تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔
بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا۔ ’’ پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔‘‘ پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے۔ ’’مولانا آپ کی عمر کیا ہو گی؟‘‘ اس پر مولانا گڑ بڑا گئے اور بولے۔ ’’بھئی یہی کوئی پچھتر سال ہو گی۔‘‘ پطرس کہنے لگے۔ ’’ مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گذار دئے تو دو چار سال اور گذار لیجئے۔ ‘‘