کچھ پھولوں کی کہانی

محمدعلم اللہ اصلاحی

’نمستے چاچا‘
نیرج کچھ جھجھکتا ہوا پھول والے کی دوکان پر کھڑا ہو گیا۔ بوڑھا دوکان دار نیرج کے محلے کا ہی تھا۔
’’آج مندر کے لیے پھول لینے کیسے آ گئے بیٹا ؟‘‘
اس نے کچھ جواب نہیں دیا۔ مندروں اور دیوی دیوتاؤں سے اسے نہ دل چسپی تھی نہ عقیدت۔ اس نے چپ چاپ پھولوں کا ایک گلدستہ اٹھا لیا اور بوڑھے کو دس کا نوٹ پکڑا دیا۔
وہ پھول مندر کے لیے نہیں سونیا کے لیے لینے آیا تھا لیکن اسے دوکاندار کو بتانے کی ضرورت؟ گلدستہ گاڑی میں رکھ کر اس نے اسے سٹارٹ کیا۔
اور خیالات کی بائک اس کے ذہن میں اتنی ہی رفتار سے بھاگ رہی تھی جتنی اسپیڈ سے وہ بائک چلا رہا تھا۔
کتنے ہی دنوں بعد ملاقات کا ایک بہانا بنا تھا۔
سونیا اس کی زندگی میں بہار بن کر آئی تھی۔وہ اس سے مل کر اتنا خوش ہوتا جیسے اسے پوری کائنات مل گئی ہو۔وہ اکثر چھٹیوں کے بعد اور پھر کلاس کے وقفہ کے درمیان دیر تک سونیا سے باتیں کرتا۔لیکن کورس مکمل ہوتے ہی دونوں کے درمیان دوریاں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھیں۔دونوں میں سے کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ حالات دونوں کو ایک دوسرے سے اتنا دور کر دیں گے۔دونوں کے لیےملاقات کا اب بس ایک ہی سہارا رہ گیا تھا۔۔۔ موبائل یا پھر انٹرنیٹ سے چیٹنگ۔اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں رہ گیا تھا اور پھر کالج کے بعد خاص کر سونیا کے پاس کوئی ایسا بہانا بھی نہیں تھا کہ وہ اس کا سہارا لےکر گھر سے باہر نکلتی اور دونوں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ڈھیر ساری باتیں۔
مگر آج دونوں کو ایک بہانا ملا تھا ۔بہت اچھا بہانا ۔جس سے دونوں ایک دوسرے سے مل سکتے تھے ،باتیں کر سکتے تھے جی بھر کے۔
آج جب فون میں بات کرتے کرتے سونیاپہلے ہی کی طرح ہنس دی، تو نیرج نے کہا ’’یار ہم دونوں کو ملے ہوئے کتنے دن ہو گئے۔اس اتوار کو کیوں نہ ملاقات ہو جائے۔‘‘
ملاقات کا پلان کئی مرتبہ بنا تھا مگر ہر مرتبہ کچھ نہ کچھ آڑے آ جاتا جب حکومت کی جانب سے سرکاری ٹیچر کے لیے ملازمت نکلی تھی اور دونوں نے اپلائی کیا تھا۔تب بھی ٹیچر ٹیسٹ کے دن ملنے کا پروگرام بنا تھا لیکن دونوں کا سینٹر الگ الگ پڑنے کی وجہ سے اس دن بھی ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔سونیا کو جب بھی کوئی کام ہوتا تو یا تو بھائی ساتھ میں ہوتے یا اسکے پتا جی ایسے میں ملنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔
چند مہینوں کے بعد رزلٹ آ یا تو دونوں ٹیچر کی حیثیت سے منتخب کر لیے گئے تھے۔یہ دونوں کے لیے بہت خوشی کی بات تھی مگر دونوں کی الگ الگ شہروں میں تعیناتی ہوئی تھی۔ پہلے جب وہ ایک ہی شہر میں تھے تب بھی ملاقات آسانی سے نہیں ہو پاتی تھی لیکن اب تو وہ دونوں دو الگ الگ شہروں میں تھے ۔
اب فون ہی ایک ملاقات کا ذریعہ رہ گیا تھا۔لیکن بات کرتے کرتے اچانک سونیا کبھی یہ کہہ کر فون کاٹ دیتی کہ پتا جی آ رہے ہیں یا اب بھیا کے آنے کا وقت ہو گیا ہے تو نیرج اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا۔
وہ بہت ناراض ہوتا وہ ،اور ابھی کچھ کہنے کے لیے سوچ ہی رہا ہوتا کہ فون کا سلسلہ منقطع ہو جاتا۔مگر اب کی جب وہ دہلی آیا تو یہ سوچ کر آیا کہ اب کی کسی حال میں بھی ملاقات کرنی ہی ہے۔
" بھاڑ میں جائے یہ سماج ، یہ معاشرہ" وہ دل ہی دل میں بڑ بڑایا ۔
وہ اکثر کالج کے دنوں کو یاد کرتا اور سوچتا تھا کتنے خوبصورت تھے وہ دن جب ہم پنچھی کی طرح آزاد تھے۔نہ کسی قسم کی ذمہ داری تھی نہ گھر والوں کی کوئی پوچھ گچھ
کلاس کرو یا نہ کرو حاضری لگ ہی جاتی تھی
مگر حالات کیسے بدلتے ہیں یہ سوچ کر وہ دُکھی ہو جاتا تھا۔
کبھی وہ خود کو کوستا اور کبھی سونیا کو فون کر کے اپنی کم مائیگی اور بے بسی کا اظہار کرتا۔
’’یار، ہم لوگ اس صدی میں جینے کے باوجود اتنے بے بس ہیں کہ ایک دوسرے سے مل بھی نہیں سکتے!! تف ہو ایسے سماج پر!!‘‘
وہ کہتا۔ لیکن وہ کر تو کچھ بھی نہیں سکتا تھا۔ اگر وہ کچھ کرنا بھی چاہتا تو سونیا اسے روک دیتی تھی۔
کئی مرتبہ اس نے سونیا سے کہیں بھاگ لینے کا کہا بھی کہ دونوں کسی تیسرے شہر جا بسیں گے، لو میرج کر لیں گے اور دونوں ایک نیا آشیانہ ،بن لیں گے۔لیکن سونیا گھبرا سی جاتی تھی۔
خوف سے کبھی کبھی تو وہ رو بھی دیتی تھی۔پھر وہ دیر تک اسے سمجھاتا۔
’’نہیں پگلی۔میں تو بس مذاق کر رہا تھا۔تم نے سیر یس کیسے لے لیا ؟ نہیں یار ہم لوگ شادی کریں گے تو سب کی خوشی شامل ہوگی اس میں۔‘‘
اور تھوڑی دیر میں وہ ہنس دیتی۔
نیرج اس سے کہتا " یار تم بہت بھولی ہو،بہت جلدی مان جاتی ہو" ۔
گرم لوہے پر ہتھوڑا رکھنا سونیا بھی جانتی تھی وہ کہتی "پھر تم شادی کیوں نہیں کرتے ؟جلدی کرو نا۔نہیں تو پتا جی کہیں اور لڑکا ڈھونڈ رہے ہیں" ۔
سچ مچ سونیا کے لئے رشتہ کی تلاش جاری بھی تھی۔
نیرج کہتا " یار بس چھوٹی بہن کی شادی ہو جانے دے لو۔پھر بہت جلد ہماری بھی شادی ہو جائے گی بابو جی اور ماں ابھی کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہو نگے۔پھر ہمارے بارے میں بڑی دیدی کو سب کچھ پتہ بھی تو ہے۔میں نے سب بتا دیا ہے انھیں۔وہ خود بھی تم سے ملنا چاہتی ہیں۔مل کر بہت خوشی ہوگی انھیں۔لیکن ابھی کچھ اور دن ہم لوگوں کو انتظار کرنا پڑے گا"
بولتے بولتے جیسے وہ بھول ہی جاتا کہ وہ کہنا کیا چاہ رہا ہے ۔
لیکن سونیا اس کی مجبوری کو سمجھتی تھی
" ہاں جب ہمیں کسی اور کے ساتھ باندھ دیا جائے گا تب آنا"
" جھے پتہ ہے یہ سب نہیں ہوگا۔میں نہیں ہونے دوں گا۔سونیا تم یہ سب سوچ کیسے لیتی ہو۔یار میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔اگر کسی نے تمہارے اوپر قبضہ جمانے کی کوشش کی نا تو میں چھین لوں گا اس سے تمہیں میں کبھی بھی تمہیں کسی کے ساتھ نہیں جانے دوں گا" نیرج کہتا۔
سونیامسکرا دیتی اور مذاق کرتے ہوئے کہتی " اگر میں خود چلی گئی کہیں تو ؟"
" ایسا نہیں ہو سکتا ، کبھی نہیں" ۔نیرج کو یقین تھا
" نیرج ایسا ہو جائے گا۔میں لڑکی ذات کچھ نہیں کر سکوں گی" ۔
اور ابھی جب کل ہی فون پر بات ہوئی تو سونیا نے یہی بات نکالی۔
" دیکھو آج بھی رشتہ دیکھنے کے لیےلکشمی نگر سے کچھ لوگ آئے تھے۔میں نے سوچا ایک مرتبہ کہہ ہی دوں کہ مجھے نہیں منظور یہ رشتہ، لیکن پھر پتہ نہیں میں کیوں چپ رہی۔میں کچھ نہیں کہہ سکی نیرج۔کچھ بھی نہیں " اور پھر رونے لگی۔
پھر نیرج اسے منانے لگا ’’ہم لوگ بہت جلد رشتہ کے لیے آئیں گے‘‘ وہ دلاسا دیتا
مگر اس دلاساے نے اسے سکون نہیں پہنچا یاتھا ، اسے تو ساری باتیں پتہ تھیں اس کے والدین نے زبردستی اس کا رشتہ کہیں اور کر دیا تھا۔ اس کی مرضی کے خلاف، اس لیے آج وہ نیرج سے کترا رہی تھی۔
لیکن اب جب نیرج نے کچھ زیادہ ہی ضد کی، تو اس نے اسکول چھٹی ہونے کے بعد ملاقات کا پلان بنا لیا۔
دونوں نے کل ملنا ہےکہہ کر جلد ہی فون بھی کاٹ دیا۔
نیرج پوری رات سو نہیں سکا تھا۔
اسے ایک ایک پل صدیوں جیسا معلوم ہوتا تھا۔کبھی وہ رضائی کے اندر منہ چھپائے گھڑی دیکھتا تو کبھی کھڑکی سے باہر۔اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت آج تھم سا گیاہے۔قریب ہی مندر کے گھنٹہ کی آواز آئی تو اسے معلوم ہوا کہ صبح ہو چکی ہے۔
وہ رضائی بستر سے پھینک کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ ماں نے اس سے کہا " چلو ذرا مندر تک چھوڑ دو "
اس نے بہانا بنا دیا
" میں ایک دوست سے ملنے جا رہا ہوں "
اسے مندر سے بے حد چڑ تھی۔
آج اس نے خلاف معمول بائک صاف کی۔اپناشیو بنایا۔اور نیلا والاکوٹ جو سونیا کو بے حد پسند تھا دھوبی کو پریس کے لئے دے آیا۔اسکول میں چھٹی دو بجے ہوتی ہے۔اور اب دو بجے تک کے لئے وقت کاٹنا اسے دنیا کا مشکل ترین کام معلوم ہورہا تھا۔
اور اب وہ بائک لیکر وہ سب سے پہلے پھول والے کی دوکان پر آیا تھا۔
اب اس نے بائک سیدھے اسکول کی جانب موڑ دی۔
ابھی دو بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔اس درمیان اس نے اسکول کے کئی چکر بھی لگائے۔کلپ سی میسج کی آواز سے وہ تھوڑی دیر کے لئے ہل سا گیا تھا۔
میسیج سونیا کا تھا اس نے لکھا تھا " آج مت آنا اب کسی اوردن ملیں گے۔آج مجھے ماماکے ساتھ جانا پڑے گا"۔
نیرج نے جلدی سے میسیج کیا " مذاق مت کیا کرو،ہمیشہ مذاق اچھا نہیں لگتا۔جلدی باہر نکلو میں اسکو ل کے باہر تمہارا انتظار کر رہا ہوں" ۔
سونیا نے پھر میسیج کیا "سچی ! میں مذاق نہیں کر رہی ہوں بھگوان قسم !جھوٹ نہیں بول رہی ماما کے ساتھ جانا پڑ رہا ہے تو کیسے ملوں گی۔اگر ملی تو ماما ساری بات گھر میں بتا دیں گے وہ بھی اسکول کے باہر ہی انتظار کر رہے ہیں"۔
تھوڑی دیر کے بعد نیرج نے بیک کال کیا ۔
"میں سچ بتا رہی ہوں ۔ماما یہیں قریب میں رہتے ہیں اور اتفاق سے آج انھیں بھی گھر جانا ہے ابھی ابھی انھوں نے فون کیا کہ میں گھر جا رہا ہوں تو تم بھی ساتھ ہی چلنا میں چھٹی کے بعد اسکو ل سے تمہیں پک کر لوں گا"۔ یہ سونیا کی آواز تھی ۔
نیرج کچھ بول نہیں سکا، بس اتنا کہا " تو پھر کبھی سہی"۔
" لیکن تم اپنی ایک جھلک تو دکھلا دو ،تھوڑی دیر کے لیے بات تو کر سکتی ہو" ۔اس سے برداشت نہیں ہو سکا ۔
" نہیں نا ماما کو پتہ چل جائے گا تو پورا گھر سر پر اٹھا لیں گے سب"۔سونیا کہہ رہی تھی ۔
’’اچھا چلو تم ایک مرتبہ دیکھ کر مسکرا دینا میرے لیے یہی کافی ہے" مجبور نیرج اور کہہ بھی کیا سکتا تھا ۔
"اگر تمہاری طرف دیکھوں گی اور ماما کو پتہ چل گیا تب" ۔سونیا اب بھی ڈری ہوئی تھی ۔
" ارے نہیں پتہ چلے گا۔میں پیچھے پیچھے بائک سے ہونگا"۔نیرج اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
اسکول کی چھٹی ہوئی اور سونیا باہر نکلی۔سونیا کی آنکھوں میں بے زاری تھی جسے نیرج صاف محسوس کر سکتا تھا۔
سونیا نیرج کے جذبات کو محسوس کر رہی تھی لیکن مجبور تھی۔دونوں ہی ایک دوسرے سے ملنا چاہتے تھے لیکن چاہ کر بھی نہیں مل سکتے تھے۔سونیا کس کے ساتھ بائک میں بیٹھی تھی ،نیرج کو پتہ نہیں تھا۔
" سونیا نے کہا تو تھا کہ وہ اس کے ماما کے ساتھ جا رہی ہے، کیا واقعی یہ سونیا کے ماما ہیں" ؟ وہ سوچ رہا تھا " ماما کا قتل کر دے اور چھین لے اس سے سونیا کو" ۔
ٹریفک لائٹ کے سرخ سگنل پر جب وہ رکا تو اس نے سونیا کو میسیج کیا ’’میں تمہارے پیچھے والی بائک میں ہوں۔‘‘
سونیا پیچھے دیکھ کر مسکرائی تو اسے ایسا لگا جیسے ساری کائنات اسے مل گئی ہے۔ اس کا جی چاہا کہ " وہ اسے اپنی بانہوں میں لے لے۔لیکن وہ اس کے جواب میں ہلکا سا مسکرا ہی سکا۔اور ریڈ لائٹ کے بعد دونوں کی منزل ایک دوسرے سے جدا ہو گئی۔
تھوڑی دور جاکر اس نے مایوسی سے گاڑی پلٹائی، پھول کا گلدستہ لیے نیرج سوچ ہی رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ اسی وقت سونیا کا میسیج آیا، ’’ میں تم سے مل کر سب کچھ بتا دینا چاہتی تھی لیکن میں ہمت نہیں کر سکی۔مجھے معاف کرنا۔ میرا رشتہ میرے ماں باپ نے ماما کے دوست کے بیٹے کے ساتھ کر دیا ہے۔‘
نیرج کو ایسا لگا جیسے اس کے پاوں تلے سے زمین کھسک گئی ہو۔پھول کا وہ حسین گلدستہ اسے اب ناگ کا پھن محسوس ہو رہا تھا۔
اچانک اسے ایک مندر نظر آیا۔ اس نے اپنی بائک کا رخ مندر کی طرف کیا۔ اس کے باوجود کہ اسے دیوی - دیوتا پر بھروسا نہیں تھا، وہ پھول مندر میں چڑھا آیا۔شاید مندر کی دیوی اس کے اوپر مہربان ہو جائے۔

××××
 

قیصرانی

لائبریرین
خوب، اچھا لکھا۔ ایک جگہ بات کچھ الجھ جاتی ہے کہ کہیں گاڑی اور کہیں بائک۔ گاڑی میں پھر پھول رکھنا اور پھر بائک کی بات، سمجھ نہیں آتی
؟ گلدستہ گاڑی میں رکھ کر اس نے اسے سٹارٹ کیا۔
اور خیالات کی بائک اس کے ذہن میں اتنی ہی رفتار سے بھاگ رہی تھی جتنی اسپیڈ سے وہ بائک چلا رہا تھا۔
 
خوب، اچھا لکھا۔ ایک جگہ بات کچھ الجھ جاتی ہے کہ کہیں گاڑی اور کہیں بائک۔ گاڑی میں پھر پھول رکھنا اور پھر بائک کی بات، سمجھ نہیں آتی
اور لوگوں کے کمنٹ آئیں تو پھر فائنلی ترتیب دیتا ہوں بھائی جان ۔آپ کا بے حد شکریہ ۔اس قدر توجہ سے پڑھنے کا ۔ کوئی اور کمیاں ہوتو بتائیے گا ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اور لوگوں کے کمنٹ آئیں تو پھر فائنلی ترتیب دیتا ہوں بھائی جان ۔آپ کا بے حد شکریہ ۔اس قدر توجہ سے پڑھنے کا ۔ کوئی اور کمیاں ہوتو بتائیے گا ۔
املاء کی اغلاط ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی طرف عام طور سے کم ہی توجہ دیتا ہوں کہ پروف ریڈنگ میں وہ درست ہو جاتی ہیں :)
 
املاء کی اغلاط ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی طرف عام طور سے کم ہی توجہ دیتا ہوں کہ پروف ریڈنگ میں وہ درست ہو جاتی ہیں :)
بھائی جان بتا دیا کیجئے ۔یا اسے نشان زد کر دیا کیجئے ۔ اپنی غلطی نظر ایسے بھی نہیں آتی انسان کو ۔
 
Top