محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
کچھ کھلونے کبھی آنگن میں دکھائی دیتے
کاش ہم بھی کسی بچے کو مٹھائی دیتے
سونے پنگھٹ کا کوئی درد بھرا گیت تھے ہم
شہر کے شور میں کیا تجھ کو سنائی دیتے
کہیں بے نور نہ ہو جائیں وہ بوڑھی آنکھیں
گھر میں ڈرتے تھے خبر بھی مرے بھائی دیتے
ساتھ رہنے سے بھی کھل جاتے ہیں رشتوں کے کنول
بندشیں رونے لگیں مجھ کو رہائی دیتے
ان سسکتے ہوئے رشتوں کے کہاں تھے قائل
ورنہ ہم اور تجھے داغ جدائی دیتے
سسکیاں اس کی نہ دیکھی گئیں مجھ سے رعناؔ
رو پڑا میں بھی اسے پہلی کمائی دیتے
کاش ہم بھی کسی بچے کو مٹھائی دیتے
سونے پنگھٹ کا کوئی درد بھرا گیت تھے ہم
شہر کے شور میں کیا تجھ کو سنائی دیتے
کہیں بے نور نہ ہو جائیں وہ بوڑھی آنکھیں
گھر میں ڈرتے تھے خبر بھی مرے بھائی دیتے
ساتھ رہنے سے بھی کھل جاتے ہیں رشتوں کے کنول
بندشیں رونے لگیں مجھ کو رہائی دیتے
ان سسکتے ہوئے رشتوں کے کہاں تھے قائل
ورنہ ہم اور تجھے داغ جدائی دیتے
سسکیاں اس کی نہ دیکھی گئیں مجھ سے رعناؔ
رو پڑا میں بھی اسے پہلی کمائی دیتے