"کڑی ہے دھوپ، سایہ بھی نہیں ہے" اساتذہ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے، شکریہ :)

کڑی ہے دھوپ، سایہ بھی نہیں ہے
کہیں پہ سر چھپایا بھی نہیں ہے

-

لگی ہے تو جلا ہے آشیانہ
لگی کو پھر بجھایا بھی نہیں ہے

-

پرندہ آسماں کو چھُو رہا ہے
ابھی میں نے اڑایا بھی نہیں ہے

-

رقیبوں کو کہانی تک سنائی
ہمیں تو کچھ بتایا بھی نہیں ہے

-

سنا ہے راگِ ہستی جس کسی نے
اسے پھر ہوش آیا بھی نہیں ہے

-

مرا دامن کہ خالی ہو گیا ہے
اگر چہ کچھ لٹایا بھی نہیں ہے

-

یہ مستی بزمِ حیراں کی عجب ہے
کسی کو کچھ پلایا بھی نہیں ہے

-

نہیں ہے خاک بینی سود آور
سفر ہم نے گنوایا بھی نہیں ہے

-

ہوا ہے قتل نظروں سے تری جو
لہو اُس نے بہایا بھی نہیں ہے

-

چراغاں ہو گیا ہے آج محسؔن
ابھی پردہ ہٹایا بھی نہیں ہے

-

محسؔن احمد
 
خوب ہے جناب۔
سنا ہے راگِ ہستی جس کسی نے
راگِ ہستی کی ترکیب درست نہیں۔ راگ سنسکرت سے ماخوذ لفظ ہے اسے فارسی اضافت کے ساتھ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
یہ مستی بزمِ حیراں کی عجب ہے
بزمِ حیراں سمجھ نہیں آیا۔
نہیں ہے خاک بینی سود آور
نہیں گر خاک بینی سود آور
شاید بہتر رہے۔
 
دوسرا شعر بہترین ہے۔

شکریہ سر۔ جن جن باتوں کی آپ نے نشاندہی کی اُن کے بعد غزل کا روپ کچھ ایسا نکلا ہے۔

کڑی ہے دھوپ، سایہ بھی نہیں ہے
کہیں پہ سر چھپایا بھی نہیں ہے
-
لگی ہے تو جلا ہے آشیانہ
لگی کو پھر بجھایا بھی نہیں ہے
-
پرندہ آسماں کو چھُو رہا ہے
ابھی میں نے اڑایا بھی نہیں ہے
-
رقیبوں کو کہانی تک سنائی
ہمیں تو کچھ بتایا بھی نہیں ہے
-
سنا ہے سازِ ہستی جس کسی نے
اسے پھر ہوش آیا بھی نہیں ہے
-
مرا دامن کہ خالی ہو گیا ہے
اگر چہ کچھ لٹایا بھی نہیں ہے
-
ترے آنے پہ جھومے جا رہے ہیں
ابھی تُو نے پلایا بھی نہیں ہے
-
نہیں گر خاک بینی سود آور
سفر ہم نے گنوایا بھی نہیں ہے
-
ہوا ہے قتل نظروں سے تری جو
لہو اُس نے بہایا بھی نہیں ہے
-
چراغاں ہو گیا ہے آج محسؔن
ابھی پردہ ہٹایا بھی نہیں ہے
-
محسؔن احمد​
 
دوسرا شعر بہترین ہے۔

شکریہ سر۔ جن جن باتوں کی آپ نے نشاندہی کی اُن کے بعد غزل کا روپ کچھ ایسا نکلا ہے۔

کڑی ہے دھوپ، سایہ بھی نہیں ہے
کہیں پہ سر چھپایا بھی نہیں ہے
-
لگی ہے تو جلا ہے آشیانہ
لگی کو پھر بجھایا بھی نہیں ہے
-
پرندہ آسماں کو چھُو رہا ہے
ابھی میں نے اڑایا بھی نہیں ہے
-
رقیبوں کو کہانی تک سنائی
ہمیں تو کچھ بتایا بھی نہیں ہے
-
سنا ہے سازِ ہستی جس کسی نے
اسے پھر ہوش آیا بھی نہیں ہے
-
مرا دامن کہ خالی ہو گیا ہے
اگر چہ کچھ لٹایا بھی نہیں ہے
-
ترے آنے پہ جھومے جا رہے ہیں
ابھی تُو نے پلایا بھی نہیں ہے
-
نہیں گر خاک بینی سود آور
سفر ہم نے گنوایا بھی نہیں ہے
-
ہوا ہے قتل نظروں سے تری جو
لہو اُس نے بہایا بھی نہیں ہے
-
چراغاں ہو گیا ہے آج محسؔن
ابھی پردہ ہٹایا بھی نہیں ہے
-
محسؔن احمد​
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ۔ اچھی غزل ہو گئی ہے۔
بس اک بات۔ ردیف میں بھی ’ہے‘ شامل ہے تو جن پہلے مصرعوں میں بھی ’ہے‘ ہے، ان کو بدل دیں تو بہتر ہو۔
جیسے
پرندہ آسماں کو چھُو رہا ہے
کو
پرندہ چھُو رہا ہے آسماں کو

مرا دامن کہ خالی ہو گیا ہے
کو
تہی دامن میں پھر سے ہو گیا ہوں
 
ماشاء اللہ۔ اچھی غزل ہو گئی ہے۔
بس اک بات۔ ردیف میں بھی ’ہے‘ شامل ہے تو جن پہلے مصرعوں میں بھی ’ہے‘ ہے، ان کو بدل دیں تو بہتر ہو۔
جیسے
پرندہ آسماں کو چھُو رہا ہے
کو
پرندہ چھُو رہا ہے آسماں کو

مرا دامن کہ خالی ہو گیا ہے
کو
تہی دامن میں پھر سے ہو گیا ہوں

سر بس آپ ہی کا انتظار تھا مجھے۔ آپ نے کہا، سو بدل دیا۔ بے حد شکریہ، سلامت رہیں :) :)
 
Top