محسن احمد محسن
محفلین
کڑی ہے دھوپ، سایہ بھی نہیں ہے
کہیں پہ سر چھپایا بھی نہیں ہے
-
لگی ہے تو جلا ہے آشیانہ
لگی کو پھر بجھایا بھی نہیں ہے
-
پرندہ آسماں کو چھُو رہا ہے
ابھی میں نے اڑایا بھی نہیں ہے
-
رقیبوں کو کہانی تک سنائی
ہمیں تو کچھ بتایا بھی نہیں ہے
-
سنا ہے راگِ ہستی جس کسی نے
اسے پھر ہوش آیا بھی نہیں ہے
-
مرا دامن کہ خالی ہو گیا ہے
اگر چہ کچھ لٹایا بھی نہیں ہے
-
یہ مستی بزمِ حیراں کی عجب ہے
کسی کو کچھ پلایا بھی نہیں ہے
-
نہیں ہے خاک بینی سود آور
سفر ہم نے گنوایا بھی نہیں ہے
-
ہوا ہے قتل نظروں سے تری جو
لہو اُس نے بہایا بھی نہیں ہے
-
چراغاں ہو گیا ہے آج محسؔن
ابھی پردہ ہٹایا بھی نہیں ہے
-
محسؔن احمد
کہیں پہ سر چھپایا بھی نہیں ہے
-
لگی ہے تو جلا ہے آشیانہ
لگی کو پھر بجھایا بھی نہیں ہے
-
پرندہ آسماں کو چھُو رہا ہے
ابھی میں نے اڑایا بھی نہیں ہے
-
رقیبوں کو کہانی تک سنائی
ہمیں تو کچھ بتایا بھی نہیں ہے
-
سنا ہے راگِ ہستی جس کسی نے
اسے پھر ہوش آیا بھی نہیں ہے
-
مرا دامن کہ خالی ہو گیا ہے
اگر چہ کچھ لٹایا بھی نہیں ہے
-
یہ مستی بزمِ حیراں کی عجب ہے
کسی کو کچھ پلایا بھی نہیں ہے
-
نہیں ہے خاک بینی سود آور
سفر ہم نے گنوایا بھی نہیں ہے
-
ہوا ہے قتل نظروں سے تری جو
لہو اُس نے بہایا بھی نہیں ہے
-
چراغاں ہو گیا ہے آج محسؔن
ابھی پردہ ہٹایا بھی نہیں ہے
-
محسؔن احمد