گرو جی
محفلین
السلام و علیکم جناب
کھانے پر ایک اور مختصر تحریر، امید کرتا ہوں کہ پسند آئے گی
ہمارے ہان کھانے کا رواج بہت چلتا ہے۔ یعنی یہ وہ سدابہار ذریعہ معاش ہے ۔ کہ اس سے منسلک افراد کا کبھی بھی پیٹ اور تجوری خالی نہیںریتیں
خیر شادی اور بیاہ پر مہمانوںکی تفصیل دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے ایدھی صاحب کا لنگر تقسیم ہونا ہے اور اوپر سے مہمان حضرات کھانے کھاتے نہیں ٹھونستے ہیں۔
اور ان کی اس پریکٹس کو دیکھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ہم کھانے کے لئے زندہ ہیں۔
آپ کسی بھی مہمان سے ملیںشادی والے دن تو مبارکباد کے بعد پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ حضرت کھانے میںکیا ہے۔
جیسے کھانا نہ ہوا کوئی سیریل ہو گیا جس کی روداد سننا فرض ہے۔
مہمان کھانے پر ایسا ٹوٹتے ہیں جیسے ہلاکو خان کی فوجیںدشمنوں پر۔ اگر ہلاکو خان بھی ہم لوگوں کو کھانا کھاتا ہوا دیکھ لیتا تو وہ بھی ایک تربیتی دورہ ضرور رکھتا تا کہ اس کی فوج میںمذید مستعدی آ جاتی۔
اور تو اور کھانا کھانے کے بعد اس پر تبصرہ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور تبصرہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر میزبان کے سامنے ہو رہا ہو تو میزبان ابھی سارا کھانا منہ کے راستے باہر نکال دے مہمان کا۔
ایک ایسی ہی تقریب میںایک بچہ لبِ شیریں تناول فرما رہا تھا کہ اس کے والد صاحب نے بصدِ شوق یہ پوچھ لیا کہ بیٹا کیا کھا رہے ہو تو بیٹے نہ جواب دیا کہ لبِ شیریں۔ جب ان کے والد صاحب نے اس کو چکھا تو برا سا منہ بنا کر کہنے لگے کہ کیا بیٹا ڈبل روٹی ڈال کے نام لبِ شیریںرکھ دیا۔ اب ان کو بندہ کیا سمجھائے کہ کھانے کے لازمی جز وہی ہوں گے جو ہم اپنی زندگی میںاستعمال کرتے ہیں اب لبِ شیریں میں سونا چاندی تو ڈالنے سے رہے
مجھے لگ رہا ہے کہ آپ لوگ بور ہونا شروع ہو گئے ہیںلہذا اجازت
اللہ نگہبان
کھانے پر ایک اور مختصر تحریر، امید کرتا ہوں کہ پسند آئے گی
ہمارے ہان کھانے کا رواج بہت چلتا ہے۔ یعنی یہ وہ سدابہار ذریعہ معاش ہے ۔ کہ اس سے منسلک افراد کا کبھی بھی پیٹ اور تجوری خالی نہیںریتیں
خیر شادی اور بیاہ پر مہمانوںکی تفصیل دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے ایدھی صاحب کا لنگر تقسیم ہونا ہے اور اوپر سے مہمان حضرات کھانے کھاتے نہیں ٹھونستے ہیں۔
اور ان کی اس پریکٹس کو دیکھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ہم کھانے کے لئے زندہ ہیں۔
آپ کسی بھی مہمان سے ملیںشادی والے دن تو مبارکباد کے بعد پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ حضرت کھانے میںکیا ہے۔
جیسے کھانا نہ ہوا کوئی سیریل ہو گیا جس کی روداد سننا فرض ہے۔
مہمان کھانے پر ایسا ٹوٹتے ہیں جیسے ہلاکو خان کی فوجیںدشمنوں پر۔ اگر ہلاکو خان بھی ہم لوگوں کو کھانا کھاتا ہوا دیکھ لیتا تو وہ بھی ایک تربیتی دورہ ضرور رکھتا تا کہ اس کی فوج میںمذید مستعدی آ جاتی۔
اور تو اور کھانا کھانے کے بعد اس پر تبصرہ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور تبصرہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر میزبان کے سامنے ہو رہا ہو تو میزبان ابھی سارا کھانا منہ کے راستے باہر نکال دے مہمان کا۔
ایک ایسی ہی تقریب میںایک بچہ لبِ شیریں تناول فرما رہا تھا کہ اس کے والد صاحب نے بصدِ شوق یہ پوچھ لیا کہ بیٹا کیا کھا رہے ہو تو بیٹے نہ جواب دیا کہ لبِ شیریں۔ جب ان کے والد صاحب نے اس کو چکھا تو برا سا منہ بنا کر کہنے لگے کہ کیا بیٹا ڈبل روٹی ڈال کے نام لبِ شیریںرکھ دیا۔ اب ان کو بندہ کیا سمجھائے کہ کھانے کے لازمی جز وہی ہوں گے جو ہم اپنی زندگی میںاستعمال کرتے ہیں اب لبِ شیریں میں سونا چاندی تو ڈالنے سے رہے
مجھے لگ رہا ہے کہ آپ لوگ بور ہونا شروع ہو گئے ہیںلہذا اجازت
اللہ نگہبان