کھرل اور برکلے۔۔۔۔حصہ دوئم

ریل کی سیٹی
ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔​
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔​
تصویری خاکہ ۔ — ماہ جبیں منکانی / ڈان۔ کام

انگریز فوج نے احمد خان کھرل کی گرفتاری کے سلسلے میں جھامرے پہ حملہ کیا۔ سردار نہ ملا تو بستی کو آگ لگا دی اور بے گناہ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔
یہ خبر دریا کے اس پار احمد خان کو بھی پہنچی۔ عورتوں پہ حملہ جاٹ کو للکار تھی سو وٹوؤں نے سیدوالہ میں بنے نئے تھانے پہ حملے کا مشورہ دیا مگر احمد خان جانتا تھا کہ تھانے میں پیٹ کا دوزخ بھرنے والے غریب سپاہی ملیں گے اور ان کے بھی بچے اور عورتیں ہوں گی۔ بات گھر تک آ پہنچی تو مقامی سرداروں نے اکٹھ کیا۔ نورے کی ڈل نامی اس جگہ پہ ، راوی کے سب سردار اکٹھے ہوئے ۔ ان میں وٹو، قریشی، مخدوم اور گردیزی بھی شامل تھے۔ انگریزوں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں کچھ لوگ تو احمد خان کے ساتھ ہو گئے اور کچھ نے اس کو مشورہ دیا کہ سرکار سے جنگ نہیں کی جا سکتی ۔​
پنجاب کے مزاج میں ایک دو آتشہ ہے۔ یہاں بھائیوں کی محبت میں محبوب لٹانے والی صاحباں بھی ملتی ہے اور مادھو کی محبت میں دشنام کمانے والا شاہ حسین بھی۔ اکٹھ میں بڑھ بڑھ کر بولنے والے کمالیہ کے سردار سرفراز کھرل نے رات پڑتے ہی گھوڑیاں سیدھی کیں اور گوگیرے بنگلے جا پہنچا۔ رات کے دو بجے تھے جب برکلے صاحب کو جگا کر سب کچھ بتا دیا۔​
اگلی صبح ، بانگوں سے پہلے بگل بجے اور باغیوں کی بیخ کنی کے لئے کیپٹن بلیک کی کمان میں رسالے کا دستہ روانہ ہوا۔ دوسرے پہر مزید کمک کی صورت ایک اور انگریز افسر، گشکوری کے جنگل جا پہنچا اور آخر میں برکلے بھی آن ملا۔​
احمد خان سے منسوب تمام کہانیاں، کہیں نہ کہیں، موقع پہ موجود، دادے پھوگی سے ضرور جا ملتی ہیں۔ جنگ شروع ہونے سے ذرا پہلے جاٹ سردار نے اپنے ساتھیوں سے کچھ باتیں کیں۔ اب نہ تو احمد خان فاتح تھا اور نہ ہی انگریز، وگرنہ اس کی یہ تقریر محفوظ ہوتی اور سکولوں میں نصاب کے طور پڑھائی جاتی۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ ان لفطوں نے مٹھی بھر سواروں میں آگ بھر دی تھی۔ بار کے جاٹ ایسی بے جگری سے لڑے کہ توپخانے سے مسلح انگریزوں کے لشکر کو ڈیڑھ کوس پیچھے ہٹنا پڑا۔​
ظہر کے قریب، دھوئیں اور بادل کے ساتھ ساتھ انگریز فوج بھی چھٹ گئی۔ سردار نے وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ تین چار درخت پرے برکلے بھی اپنے پنجابی سپاہیوں کے ساتھ چھپا تھا۔ وہ دوسری رکعت تھی جب ایک سپاہی نے ہاتھ کا کلاوہ بنا کر برکلے صاحب کو درخت کی اوٹ سے رائے احمد خان دکھایا۔ صاحب نے ’’گولی مارو‘‘ کا آرڈر دیا اور دھاڑے سنگھ یا گلاب رائے بیدی میں سے کسی ایک نے گولی چلا دی۔​
یہاں پہنچ کر وار سنانے اور ڈھول گانے والوں کے گلے رندھ جاتے ہیں۔ دادا پھوگی بتاتا ہے کہ جس دن کھرل گرا، وہ محرم کا دسواں دن تھا۔ گولی لگتے ہی احمد خان سجدے میں گر گیا ۔ کہانی، لفظوں کی سیڑھی پہ صدیوں کا زینہ چڑھتے ہوئے 1857 عیسوی سے ۶1 ہجری میں جا رکتی ہے۔ آن کی آن میں نورے کی ڈل، کربلا کا میدان بن جاتی ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ اس بار حسین کی جگہ احمد خان کا سر نیزے پہ دھرا ہے۔ ’’باغیانہ سر‘‘، گوگیرہ کی جیل میں کڑے پہرے میں رکھا گیا۔​
روائت ہے کہ پہرے داروں میں ایک سپاہی جھامرے کا تھا۔ ایک رات اسے خواب میں احمد خان ملا اور کہنے لگا؛​
’’ میرا سر اس مٹی کی امانت ہے مگر انگریز اسے ولائت لے جا نا چاہ رہے ہیں‘‘۔
پہرے کی باری آ ئی تو سپاہی نے سر اتار کر گھڑے میں رکھا اور جھامرے لے آیا۔ یہ گرفتاریوں کا دور تھا اور سائے سے بھی مخبری کا خطرہ رہتا تھا سو سپاہی نے رات کے اندھیرے میں احمد خان کی قبر ڈھونڈھی اور کسی کو بتائے بغیر سر دفنا کر لوٹ گیا۔​
رائے احمد خان کو گولی مار نے کے بعد برکلے نے مشیروں کے کہنے پہ اس کے زن بچہ کو بھی مروانے کا حکم دے دیا۔ سردار کی بیگم نے بچوں کو مراد فتیانہ کے گاؤں روانہ کیا اور ساتھ پیغام بھجوایا کہ تیرا بھائی مارا گیا ہے۔ مراد فتیانہ نے بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھا اور گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ جاتے جاتے اپنی بیگم کو کہا کہ لوٹ آیا تو انہیں خود پالوں گا اور نہ آ سکا تو جہاں چار کا چوگا اکٹھا کرو گی، وہاں ان دو کا بھی کر لینا۔​
فتح کی نشانی کے طور پہ انگریز افسروں نے پہلے جھامرے کو آگ دکھائی، پھر وٹوؤں کے کئی گاؤں نذر آتش کئے اور آخر کار پنڈی شیخ موسیٰ تک پہنچ گئے۔ دریا پار کرنے کی نوبت آ ئی تو دور جاٹوں کے بلارے سنائی دیتے تھے۔ برکلے نے خیال کیا کہ احمد خان کے بعد اسے روکنے والا کوئی نہیں لہٰذا اس نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ تھوڑا آگے چل کر گھوڑا ذرا ٹھٹھکا اور پھر الف ہو گیا۔ پانیوں سے فتیانے کے مراد نے اٹھ کر برکلے کو پہلا نیزہ مارا ۔ پے در پے وار ہوئے تو صاحب گھوڑے سمیت دریا برد ہو گیا اور انگریز سپاہ تتر بتتر ہونا شروع ہو گئی۔ سرکاری تاریخ اسے دلدل کی موت مانتی ہے جب کہ دادا کہتا ہے راوی سدا کا بے اعتبارا ہے۔​
احمد خان کے بعد ملتان تک انگریزوں کے سامنے کوئی کھڑا نہ ہوا۔ کچھ عرصہ بعد برکلے کا بھائی، بڑا انگریز افسر ہو کر گوگیرہ آیا اور احمد خان کے بیٹے کو طلب کیا۔ پیش ہونے پہ برکلے کے بھائی نے محمد خان سے باپ کا خون بخشنے کو کہا۔ محمد خان نے جواب دیا کہ وہ بیٹا ہو کر باپ کا خون نہیں بخش سکتا۔ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا اور انگریز مزاج میں بھی مصلحت عود آئی تھی۔ لاٹ صاحب نے اٹھتے ہوئے بات یوں ختم کی؛​
’’ٹھیک ہے! تمہارا باپ مرا اور مرا بھائی، حساب برابر!! مگر اب راوی آباد رہنی چاہیئے‘‘
سو راوی دوبارہ بس گئی۔کئی دہائیوں بعد جب دوسری نسل جوان ہوئی تو ملک آزاد ہو چکا تھا۔ پوتے کو دادے احمد خان کی قبر پکی کروانے کی سوجھی۔ قبر کے ارد گرد بنیادیں کھودی جا رہی تھیں کہ ایک کدال گھڑے کو لگی۔ مزدوروں نے گھڑا توڑ ا تو اندر سر تھا ۔ ایک سو دس سال پرانی وجاہت میں ذرا فرق نہیں پڑا تھا۔ داڑھی کے بال ویسے ہی باریک تھے اور آنکھیں ویسی ہی سالم تھیں۔ البتہ، جہاں نیزہ گاڑا گیا تھا وہاں ذرا ذرا نمی محسوس ہوتی تھی۔ عقیدت مندوں کو تو رستا ہوا خون تک دکھائی دے رہا تھا۔ رائے احمد خان کے پوتے نواب احمد علی خان نے جنازہ پڑھایا ۔ سر تو جسم کے ساتھ دفن ہو گیا مگر کہانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھاٹوں کے لب و لہجے میں محفوظ ہو گئی۔ اب اسے حب حسین کہئے یا بغض معاویہ کہ کارل مارکس بھی ’’ساہیوال کے ان شہیدوں‘‘ کا تذکرہ کرنے سے نہیں چوکتا۔​
انگریزوں نے زمین کے ان بیٹوں کا لہو بہا نے کا معاوضہ بھی زمین کی صورت ہی چکایا۔ پنجاب کی بغاوت کی رپورٹیں پڑھی جائیں تو ملتان کے گردیزیوں سے بار کے سیدوں تک تمام نام، پٹڑی کے ساتھ ساتھ سر سبز زمینوں کے مالکان کے ہیں۔ مراد فتیانہ کے بھائی نے بہاولپور کے نواب کو خط لکھا کہ مجھے اسلحے اور ہتھیاروں کی مد میں کچھ مالی امداد درکار ہے۔ نواب صاحب نے مدد تو خیر کیا کرنا تھی، الٹا چٹھی لے کر انگریز سرکار کے پاس چلے گئے۔ یہ چٹھی آج بھی پنجاب کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پڑی حکمران مزاجوں کا مزاق اڑاتی ہے۔​
اوھنوں انکھی نہیں سمجھدی
جیہڑا احمد خان دا دکھ وسارے
تحریر:محمد حسن معراج​
بہ شکریہ ڈان اردو
 
Top