کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ

کوئی ضبط دے نہ جلال دے مجھے صرف اتنا کمال دے
مجھے اپنی راہ پہ ڈال دے کہ زمانہ میری مثال دے
تیری رحمتوں کا نزول ہو مجھے محنتوں کا صلہ ملے
مجھے مال وزر کی ہوس نہ ہو مجھے بس رزق حلال دے
میرے ذہن میں تیری فکر ہو میری سانس میں تیر ذکر ہو
تیر خوف میری نجات ہو سبھی خوف دل سے نکال دے
تیری بارگاہ میں اے خدا میری روزوشب ہے یہی دعا
تو رحیم ہے تو کریم ہے مجھے مشکلوں سے نکال دے
 
“دہشت گردوں کے نام”
اے مرے دشمن ء جاں،
چلو،
اب دوستی،
کر لیں،
یا پھر اس دوستی کے نام پر،
کچھ اکتفا کر لیں،
تیاری تم بھی کر رکھو،
کہ جب کہہ دو گے ہم تیار ہوں گے سر جھکانے کو،
ہماری قوم تو تیار ہے جانیں لٹانے کو،
ہمیں پیسہ اکٹھا کر کے باہر بھاگ جانے دو،
تیاری تم بھی کر رکھو،
پھر اسکے بعد تم ہو،
آرمی ہو،
اور یہ مفلس،
مظالم پر بھی اب کرتے نہیں ہیں شور،
یہ مفلس،
انہیں تم مار ہی ڈالو،
مگر پہلے،
ذرا سا،
اکتفا کر لو،
ذرا ان مفلسوں کو ہم بھی دیکھیں،
ہم بھی خوں چوسیں،
ذرا قومی اداروں کو ہم اپنے ہاتھ میں کرلیں،
کہ ہم سرمایہ داروں کا،
کہ ہم جاگیرداروں کا،
یہی شیوہ ہے صدیوں سے،
ادارے بیچ لینے دو،
عیاشی مار لینے دو،
کوئی کچھ بھی نا بولے گا،
ذرا سا اکتفا کر لو،
ذرا سا . . . اکتفا کر لو.
 
شجر کے ساتھ رہوں اُس کی ہمسری نہ کروں
میں خاک زاد ہوائوں سے دوستی نہ کروں
کہیں سے لفظ بھی رنگوں میں دستیاب تو ہوں
میں تجھ کو پینٹ کروں اور شاعری نہ کروں
جو اشک بن کے رہوں سنگ کی نگاہوں میں
تمام عمر روانی میں ، میں کمی نہ کروں
مرے مزاج میں دریا سی وسعتیں ہیں جناب
جو مجھ پہ ظلم کرے اس سے دشمنی نہ کروں
یہی تو عیب ہے مجھ میں ، سو ہار جاتا ہوں
میں دوستی میں کبھی جرمِ کافری نہ کروں
میں تیرے ساتھ رہوں ، جیسے جرم کا احساس
میں تجھ سے ترکِ تعلق روایتی نہ کروں
 
حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے

ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکن
نظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے

نظر آتا ہے سجدے میں جو اکثر شیخ صاحب کو
وہ جلوہ ، جلوۂ جانانہ بن جائے تو کیا کیجے

ترے ملنے سے جو مجھ کو ہمیشہ منع کرتا ہے
اگر وہ بھی ترا دیوانہ بن جائے تو کیا کیجے

خدا کا گھر سمجھ رکّھا ہے اب تک ہم نے جس دل کوقتیلؔ
اس میں بھی اک بُتخانہ بن جائے تو کیا کیجے

قتیل شفائیؔ
 
اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی

مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی

ہم خاک نشینوں سے ہی کیوں کرتے ہو نفرت
کیا پردہ نشینوں میں غلاظت نہیں ہوتی

یہ بات نئی نسل کو سمجھانی پڑے گی
عریانی کبھی بھی ثقافت نہیں ہوتی

سر آنکھوں پہ ہم اس کو بٹھالیتے ہیں اکثر
جس کے کسی وعدے میں صداقت نہیں ہوتی

پہنچا ہے اگرچہ بڑا نقصان ہمیشہ
پھر بھی کسی بندے کی اطاعت نہیں ہوتی

ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی
نامعلوم شاعر
 
محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
بڑا ہی جوگ ہے جاناں
بڑے بوڑھے بتاتے تھے
کئی قصے سناتے تھے
مگر ہم مانتے کب تھے
یہ سب جانتے کب تھے
یہ باتیں ذکر کے قابل
بھلا گردانتے کب تھے

انا کے تخت پر بیٹھے
ہمیں معلوم ہی کب تھا
انا کے تخت سے اوپر
بہت بلندی پر
کہیں پریوں کے جھرمٹ میں
تیری پائل وہ پاؤں میں
تیری زلفوں کی چھاؤں میں
تیرے چھوٹے سے گاؤں میں
ستارے، چاند، سورج
والہانہ رقص کرتے ہیں

ہمیں کب علم تھا جاناں
تیرے قدموں کی آہٹ پر
گلابی مسکراہٹ پر
تیرے ابرو کی جنبش پر
تیرے سر کے اشارے پر
صدائے دلبرانہ پر
نگاہِ قاتلانہ پر
ادائے قریضانہ پر
جفائے مجرمانہ پر
چمن کے پھول سارے
اس طرح دھیان دیتے ہیں

ذرا سے وصل کے جھانسے میں
اپنی جان دیتے ہیں
ہمیں ادراک ہی کب تھا جاناں
تیرے پیکر میں ڈھل کر
چاندنی ہر سو بکھرتی ہے
شبِ مہتاب کی درشندگی
کیسے نکھرتی ہے
ہمیں کب علم تھا جاناں
ہمیں کامل بھروسہ تھا۔۔۔
کہ۔۔۔

ہمارے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوگا
دلِ دانا کبھی قابو سے
بے قابو نہیں ہوگا
یہ دنیا در دنیا دار سے
سادھو نہیں ہوگا
مگر پھر یوں ہوا جاناں
نجانے کیوں ہوا جاناں
بڑا افسوس ہوا جاناں
جگر کا خون ہوا جاناں

تیری ابرو کی جنبش کے
قائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بے ملتفت پھرتے تھے
مائل ہو گئے ہم بھی
سخاوت کرنے آئے تھے
اور سائل ہو گئے ہم بھی
بڑے بوڑھوں کی ان باتوں کے
قائل ہوگئے ہم بھی
کہ۔۔۔
محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
 
ہم نے محبوب جو بدلا تو تعجب کیسا
لوگ کافر سے مسلمان بھی ہو جاتے ہیں

یوں تو اک درد کا رشتہ ہے زمانے بھر سے
لوگ کچھ زیست کا عنوان بھی ہو جاتے ہیں

شہر بھر کو میں محبت تو سکھا دوں لیکن
خود تراشے ہوئے بھگوان بھی ہو جاتے ہیں

ہم پرکھوں کی روایت کو نبھانے کے لئے
حرمت عشق پہ قربان بھی ہو جاتے ہیں
 
حسن کاظمی

روکھی سُوکھی کھا کر یوں تو کُنبہ بنتا ہے
ماں رہتی ہے جب تک گھر میں برکت رہتی ہے
ماں کی دعائیں لیتے رہنا ، ِان ہی دعائوں سے
دنیا سے ٹکر لینے کی ہمت رہتی ہے
-------
باسی روٹی سینک کر جب ناشتے میں ماں نے دی
ہر امیری سے ہمیں یہ ُمفلسی اچھی لگی

واہ واہ بہت خوب
 
کوئی بن گیا رونق اکھیاں دی
کوئی چھوڑ کے شیش محل چلیا
کوئی پلیا ناز تے نخریاں وچ
کوئی ریت گرم تے تھل چلیا
کوئی بھل گیا مقصد آون دا
کوئی کرکے مقصد حل چلیا
اتھے ھرکوئی "فرید" مسافر اے
کوئی اج چلیا کوئی كل چليا
 
مہ جبینوں کی اداؤں سے الجھ بیٹھاہوں
اس کا مطلب ہے بلاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

بابِ تاثیر سے ناکام پلٹ آئی ہیں
اسلئے اپنی دعاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
تیری دہلیز پہ جھکنے کا سوال آیا تھا
میں زمانے کی اناؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
جو مسافر کیلئے باعثِ تسکین نہیں
ایسے اشجار کی چھاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
جو غریبوں کا دیا پھونک کے تھم جاتی ہیں
ایسی کم ظرف هواؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
عرش والے میری توقیر سلامت رکھنا
فرش کے سارے خداؤں سےالجھ بیٹھا ہوں
ايک كم ظرف کی بے ربط جفا كی
خاطرشہر والوں كی وفاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

بہت اچھے اشعار ہیں۔ مجھے دلی طور پر بھی پسند آئے۔
آخری شعر ۔۔ پہلے مصرعے کا لفظ ’’خاطر‘‘ ٹائپنگ کے مرحلے میں دوسرے مصرعے سے جا ملا ہے۔ اس کو واپس لے آئیے گا۔
 
بہت اچھے اشعار ہیں۔ مجھے دلی طور پر بھی پسند آئے۔
آخری شعر ۔۔ پہلے مصرعے کا لفظ ’’خاطر‘‘ ٹائپنگ کے مرحلے میں دوسرے مصرعے سے جا ملا ہے۔ اس کو واپس لے آئیے گا۔

جزاک اللہ محترم، آپ کی توجہ کا بہت مشکور ہوں، اب تو اس مراسلہ کو تدوین نہیں کر سکتا
 
آج ہیں خاموش وہ دشتِ جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلا رہی، لیلا کے دیوانے رہے
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے، آبادیاں بن ہوگئیں
سطوتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذرِ برھمن ہوگئیں ۔
خود تجلّی کو تمنّا جن کے نظاروں کی تھی
وہ نگاہیں ناامیدِ نورِ ایمن ہوگئیں
اڑتی پھرتی تھیں ھزاروں بلبلیں گلزار میں
دل میں کیا آئی کہ پابندِ نشیمن ہوگئیں؟
 
کھو چکے ہیں جس کو ، وہ جاگیر لے کر کیا کریں
اک پرائے شخص کی تصویر لے کر کیا کریں

ہم زمیں زادے ، ستاروں سے ہمیں کیا واسطہ ؟
دل میں ناحق خواہش تسخیر لے کر کیا کریں

عالموں سے زائچے بنوائیں کس اُمید پر
خواب ہی اچھے نہ تھے تعبیر لے کر کیا کریں

اعتبارِ حرف کافی ہے تسلی کیلے
پکے کاغذ پر کوئی تحریر لے کر کیا کریں

اپنا اک اسلوب ہے ، اچھا برا جیسا بھی ہے
لہجہ غالب ، زبان میر لے کر کیا کریں

شمع اپنی ہی بھلی لگتی ہے اپنے طاق پر
مانگے تانگے کی کوئی تنویر لے کر کیا کریں

شاعر ۔۔۔۔ نامعلوم
 
محبت دے دِل چوں بُھلیکے نئں جاندے
محبت دے مجبور ویکھے نئں جاندے

محبت نے مجنوں نوں کاسہ پھڑایا
محبت نے رانجھے نوں جوگی بنایا

محبت دی دنیا دے ہاسے نے وکھڑے
محبت دے چُڑکاں ، دلاسے نے وکھڑے

محبت نے کڈیاں نے دُدھ دیاں نہراں
محبت نئں منگدی کسے دیاں خیراں

محبت دے جِنے وی گائے ترانے
اے جِس تن نوں لگدی اے او تن جانے


مکيں اِدھر کے ہيں ، ليکن اُدھر کی سوچتے ہيں
جب آگ گھر ميں لگی ہو ، تو گھر کی سوچتے ہيں

کہ جب زمين ہی سيلِ بلا کی زد ميں ہو
تو پھر ثمر کی نہيں ، پھر شجر کی سوچتے ہيں

اُڑے تو طے ہی نہ کی ، حدِّ آشياں بندی
اب اُڑ چکے ہيں تو اب بال و پر کی سوچتے ہيں

تو ميرا دل تو پرَکھ ، ميرا انتخاب تو ديکھ
کہ اہلِ حُسن تو حُسنِ نظر کی سوچتے ہيں

يہ دشت ہے تو بگولوں سے کيا ہراسانی
سفر ميں کيا ، کبھی گردِ سفر کی سوچتے ہيں؟

ہميں تو فکر ، مکاں کی بھی ہے ، مکيں کی بھی
حضور ! آپ تو ديوار و در کی سوچتے ہيں

گلہ ہے غير سے کيا ، ہم نياز مندوں کو
وہ عيب سوچتے ہيں ، ہم ہنر کی سوچتے ہيں

عطا ! ميں اُن کو بھی دل سے دعائيں ديتا ہوں
جو اپنے نفع ميں ، ميرے ضرَر کی سوچتے ہيں

عطا شاد
ایم اے راجا بھائی نوازش کرم
 
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤگے،
خواب ہوجاؤگے افسانوں میں ڈھل جاؤگے،

اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا،
سرخ شعلوں سے جو کھیلوگے تو جل جاؤگے،

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو،
سنگِ مرمر پہ چلوگے تو پھسل جاؤگے۔۔
 
رہنماؤں کی بات کرتے ہو
پارساؤں کی بات کرتے ہو
جو اُڑا لیں سروں سے آنچل بھی
اُن ہواؤں کی بات کرتے ہو
جل رہی ہے زمیں کی کوکھ مگر
تم خلاؤں کی بات کرتے ہو
مجھ کو محنت کا بھی صلہ نہ ملا
تم دعاؤں کی بات کرتے ہو
پہلے انساں کو زہر دیتے ہو
پھر دواؤں کی بات کرتے ہو
میری بستی میں بھوک پلتی ہے
تم بلاؤں کی بات کرتے ہو
مار ڈالا وفا شعاروں نے
بے وفاؤں کی بات کرتے ہو
کتنے فرعون مٹ گئے آ کر
کن خداؤں کی بات کرتے ہو
 
حبیب خدا دے فقیراں تو صدقے
فقیراں دے روشن ضمیراں تو صدقے
نہ دولت تو صدقے نہ جنت تو صدقے
تری زلف دے جاں اسیراں تو صدقے
جنہاں رومی، جامی، تے سعدی نوں ڈنگیا
میں انا ں پیاری اکھیاں دے تیراں تو صدقے
 
Top