فرخ منظور
لائبریرین
کھُل جائے ہم پہ بھید جو اس کائنات کا
ہوجائے ختم دہر میں مقصد حیات کا
کیا ڈھونڈتے ہیں جا کے ستاروں کے شہر میں
خود جن پہ انکشاف نہیں اپنی ذات کا
دیکھیں تو ہر ثواب پہ لالچ کا پیرہن
سوچیں تو ہر گناہ میں پہلو نجات کا
شبنم ہے توُ تو پھیل اسی وقت پھول پر
اب کون انتظار کرے آدھی رات کا
اِنساں ہیں ساری دنیا کے سب ایک سے ندیم
قائل نہیں میں نام و نسب، ذات پات کا
ہوجائے ختم دہر میں مقصد حیات کا
کیا ڈھونڈتے ہیں جا کے ستاروں کے شہر میں
خود جن پہ انکشاف نہیں اپنی ذات کا
دیکھیں تو ہر ثواب پہ لالچ کا پیرہن
سوچیں تو ہر گناہ میں پہلو نجات کا
شبنم ہے توُ تو پھیل اسی وقت پھول پر
اب کون انتظار کرے آدھی رات کا
اِنساں ہیں ساری دنیا کے سب ایک سے ندیم
قائل نہیں میں نام و نسب، ذات پات کا