سید زبیر
محفلین
کھپ کھپے
آج جب کہ میں زندگی کے انسٹھ سالوں کی گرمیاں سردیاں جھیل چکا ہوں مجھے بہار کی وہ صبح یاد ہے ،کہنے کو تو موسم بہار تھا مگر ایک انجانے اندیشے سے دل ڈوبتا جا رہا تھا طبیعت میں قنوطیت تو گزشتہ تین روز ہی سے طاری تھی وقفے وقفے سے والد صاحب کے الفاظ کانوں میں گونجتے کہ سوموار کو اشرف کو اسکول میں داخل کرانا ہے آج سوموار کا دن آ ہی گیا تھا پچھلے ہفتے کی بسنت کی رونقیں آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھیں کیا دوپہر تھی کہ سہ پہر اور شام کا احساس ہی نہ ہوتا مگر آج تو دل صرف رونے کو چاہ رہا تھا اور وہ بھی بھوں بھوں کرکے ۔خیر ناشتے سے فراغت کے بعد اماں نے مجھے صاف ستھرے کپڑے پہنائے ایک خوبصورت سا بستہ گلے میں ڈالا اور والد صاحب مجھے ہمراہ لے کر روانہ ہوئے والد صاحب کی معیت میں یہ میرا پہلا تنہا سفر تھا ایک ایک قدم بھاری لگ رہا تھا جی چاھتا تھا کہ والد صاحب کی انگلی چھڑا کر واپس گھر بھاگ جائوں اور اپنی اماں کی گود میں انکے ڈوپٹے میں چھپ جائوں مگر یہ نا ممکن تھا آج بھی جب وہ وقت یاد کرتا ہوں تو حضرت اسٰعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کے جذبہ پر قربان پونے کو دل چاہتا ہے خیر والد صاحب مجھے لے کر بھاٹی کے ایک اسکول میں داخل ہوئے یہاں تو بچے ہی بچے تھے کوئ لڑ رہا تھا کوئ گر ہا تھا گرنے والے کو کوئ اٹھا رہا تھا تو کوئ اس پر ہنس رہا تھا ایک ماسٹر صاحب ڈنڈے کو لہرا لہرا کر دہشت ناک عظمت بٹھانے کی سعی لا حاصل میں مصروف تھے غالباً یہ میرے والد صاحب کے شناسا تھا اس لئے تپاک سے ملے والد صاحب نے نہ جانے کیا رازونیاز کی باتیں کیں کہ مجھے بھی خبر نہ ہوئی والد صاحب مجھے ان کے حوالے کر کے رخصت ہوئے۔میں نے ڈبڈباتی نظروں سے انہیں دیکھا ابھی آنسو میرے گالوں ہی پر تھے کہ ماسٹر صاحب کی آواز آئی " کی کھپ اے " لفظ کھپ سے آشنائی کا یہ پہلا موقعہ تھا یہی وہ لفظ ہے جو ہمزاد کی طرح میرے ساتھ چمٹا ہوا ہے ۔ خدا خدا کر کے پانچویں درجے کا امتحان پاس کیا اب والد صاحب اکثر دوستوں سے میرے سکول کےانتخاب پر گفتگو کرتے دوست احباب جو اسکول بتاتے والد صاحب کہتے یار وہاں تو بہت کھپ ہے اب مجھے اپنے پانچ سالہ تجربے اور مشاہدے سے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ کھپ کوئی اچھی شے نہیں اس سے پرہیز لازمی ہے یہ ایک ایسا جراثیم ہے جو انسان کے دماغ کو نقصان پہونچاتا ہے اسکول منتخب ہو چکا تھا اور اس طرح میں ریلوے روڈ کے گورنمنٹ سکول پہنچ گیا۔اسکول میں ہر قسم کے لڑکے تھے چحوٹے بڑے،لمبے ٹھگنے،کالے گورے، شرارت سے بھرے ہوئے ،مسکین اور گربہ مسکین غرضیکہ ہر کوالٹی کا لڑکا تھا ۔ دوسرے ہی دن جب اردو کے استاد مرحوم بخاری صاحب کلاس میں آئے ،جماعت کے لڑکوں پر ایک طائرانہ نطر ڈالتے ہوئے بولے کہ کیا یہ ساری کھپ پڑھنے آئی ہے بچے پرائمری اسکول کے تجربہ کار تھے کورس کے انداز میں زور سے بولے جی پھر وہ گویا ہوئے دھوبی ،کنجڑے ، نائی ،قصائی سب پڑھنے آگئے بچوں نے سوال کو نہ سمجھتے ہوئے پھر کورس کے انداز میں کہا جی ، مگر مجھے اتنا یقین ہو گیا کہ میں کھپ ہوں جسے پڑھنے سنورنے کا کوئی حق نہیں، اسکول کا تو جو لطف تھا ہی تھا آتے جاتے ڈبل ڈیکر بس کا اپنا ہی مزہ تھا۔ چحٹی کا وقت ہوتا ،دفتروں سکولوں کالجوں کے لوگ بس میں سوار ہوتے کسی کو نچلی تو کسی کو بالائی منزل میں جگہ ملتی کوئی سیڑیوں سے لٹکا ہوتا اور بستہ ہواکےدوش پرہوتا کسی کا بستہ اندر ہوتا اور خود باہر ایسے حالات میں چیزیں بیچنے والے بھی صدا لگا لگا کر بس کے اند کھٹی مٹھی گولیاں اور یوسف زلیخا کے قصے بیچ رہے ہوتے جسم اور کپڑے پسینے میں شرابور مگر نہ جانے کیوں کسی کا پسینے کی بو سے دل متلی ہوتا اور نہ ہی کوئی ناک بھوں چڑھاتا غالباً انہیں اس حقیقت کا ادراک تھا کہ پسینہ بھی فطرت کا ایک رنگ ہے جو انسانی صحت کے لیے ہی نہیں معاشرے کی صحت کے لیے بھی ضروری ہے جو قویں پسینہ نہیں بہاتیں ان کا خون بہتا ہے ۔ اتنے بدبو دار ماحول میں بھی ہر طرف مسکراہٹیں اور شرارتیں ہوتیں جتنی بس کھپ سے کھچا کھچ بھری ہوتی اتنے ہی یقیناً زندگی کے رنگ ابھرتے ۔پھر جب میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پا س کر لیا تو مجھے احساس ہوا کہ اب میںیقیناًکھپ نہیں رہا پاکستان کی شرح خواندگی دیکھتے ہوئے اس وقت شاید بھاٹی میں گنتی کے ہی ایم اے پاس تھے ۔گھر والوں ،دوستوں نے مقابلے کے امتحان کے لئے اکسایا دل نے بھی کہا یہی موقعہ ہے کھپ کی جنس کو بدلنے کا ، ورنہ کہیں مدرس بن کر ایک نئی کھپ کا سامنا کرنا ہوگا اور کبھی کھپ سے باہر نکل نہ پائوگے۔اس جذبے کے تحت تیاری کی اور امتحان میں کامیاب ہو گیا ۔تربیت کے لئے اکیڈمی پہنچ گیا یہاں بھی جب اپنے سینئیرز اور اساتذہ کے مابین گفتگو میں جب کھپ کا لفظ سنتا تو سنتے ہی مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے میں نے کسی مسجد سے چوری کی ہوئی جوتی پہنی ہے اور مالک نے پہچان لی ہے ۔یا خدا میں نے تو اس کھپ کی جنس بدلنے کے لئے بہت محنت کی ہے دل چاہتا تھا کہ میں چیخ چیخ کر لوگوں سے کہوں کہ لوگو میں کھپ نہیں ہوں ،کسی دھوبی کنجڑے ،نائی قصائی کا بیٹا کھپ نہیں ہوتا مگر آواز گلے ہی میں دب کر رہ جاتی خدا خدا کر کے ٹریننگ کا مرحلہ ختم ہوا اور میں ہم میں بدل گیا جی ہم میں ، ایک بار کسی نے فیض احمد فیض سے پوچھا کہ آپ رہنے والے تو سیالکوٹ کہ ہیں پھر یہ لکھنئو کے انداز میں آپ اپنے لیے جمع متکلم کا صیغہ کیوں استعمال کرتے ہیں تو فیض نے لا جواب جواب دیا کہ ہمیں میں میں تکبر اور نخوت کی بو آتی ہے بڑے انسان اور بہروپیوں میں یہ بھی ایک فرق ہے اب ہم حاکم ہو گئے تھے ہمارا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سونا جاگنا اپنی روایات کے برعکس اپنے پرانے آقائوں کی مانند تھا ہماری سوچ بھی وہی تھی ۔ہماری پہلی تقرری لاہور ہی کے قریب قصور میںہوئی ۔تحصیلدار مقرر ہوئے دفتر دیکھا تو طبیعت خوش ہوگئی دروازے کے باہر لٹکی ہوئی چق نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا اب ہم ہر قسم کی کھپ سے بالکل محفوظ ہو گئے اب کوئی دھوبی کنجڑے نائی قصائی کو میرے قریب آنے کی جرئت نہ ہوتی دفتر میں اکیلے کرسی پر جھولتے ہوئے کبھی ڈبل ڈیکر میں سفر کے وہ مناظر یاد بھی آتے تو شرمندگی اور خجالت سے انہیں جھٹک دیا کتے تھےتیس سالہ ملازمت کے دوران دیس دیس پھرے مگر وہاں کہیں کھپ نظر نہ آئی نہ جانے یہ ساری کھپ ہمارے ہی ملک میں کیوں ہے جب سندھ میں ہمارا تبادلہ ہوا تو نئے لفظ سے آشنائی ہوئی ہر طرف انتخابات کا شور و غو غا تھا ایس ماحول میں نعرے لگ رہے تھے پاکستان کھپے یہ کانوں کو بہت بھلا لگا ۔مطلب پوچھا بتایا گیا زندہ باد کھپے لگاتی ہوئی کھپ کو دیکھ کرہمارے لاشعور کی کھپ پھر زندہ ہونے لگی جس سے جان چھڑانے کے لیے نا جانے کتنی انمول چیزیں ہم مسلسل قربان کرتے آرہے تھے ۔بھاٹی کی ٹھنڈی ٹھنڈی گلیاں چھوڑ کرٹائون شپ اور پھر اسلام آباد منتقل ہو گئے تا کہ لاہور کی کھپ سے بچ سکیں ۔بسوں اور تانگوں کی رونقیں چھوڑ کر ٹیکسی اور کاروں کی تنہائی میں پناہ ڈھونڈی۔ بھاٹی کے سری پائے اور لوہاری کی نہاری جن کی خوشبوئیں آج بھی دماغ کے کسی گوشے میں رچی بسی ہیں اب اسلام آباد کے ایک مہنگے سیکٹر میں وسیع گھر بنایا ہے ۔یہاں گھر مختلف ڈبے نما ہیں جہاں سے یا تو کاریں نکلتی ہیں یا غلام گردشوں کے خدمت گار،یہاںنہ تو کوئی چھت کی الگنی پر کپڑے ڈالتی ہوئیں نازنین نظر آتی ہے اور نہ ہی گلی میں ریڑھی والے سے بچے چیزیں خریدتے ہوئے نظر آتے ہیں تمام بالکونیاں اداس ہی نظر آتی ہیں اور گلیاں ویران ،صرف دوڑتی ہوئی اور ڈبوں میں غائب ہوتی کاریں نظر آتی ہیں
اب جبکہ اگلے سال ہاقاعدہ طور پر ہمارے سٹھیانے کی رسم ادا کرتے ہوئے ہمیں سرکار کی نوکری اور عوام کی حاکمیت سے فارغ کردیا جائے گا تو ہم بھی اس کوٹھی نما قید خانے میں مقید ہو جائیں گے اور ہم پھر سے میں بن جائیں گے شائد کھپ بھی ۔ عمر کے اس حصے میں ماضی قریب کی بجائے ماضی بعید بہت یاد آتا ہے ماضی کے تمام بزرگ،دوست، پڑوسی ، ہم جماعت جن میں سے کچھ تو مر کھپ گئے او ر جو باقی بچے ہوں گے ان کی کھپ سے میں بہت دور نکل گیا اگرچہ دل بہت چاہتا ہے اب احساس ہوا کہ وہ کھپ ہی ہے جس میں زندگی کے تمام رنگ مکمل آب و تاب کے ساتھ جھلکتے ہیں اس کھپ میں سب کی خوشیاں اور غم ایک دوسرے کے ساتھ ہی جڑی ہوئی ہیں ۔کھپ کے بغیر زندگی قید تنہائی ہے ۔اب تو یہی خواہش ہے کہ وہ سارے دحوبی، کنجڑے ،نائی ،ۡصائی، جو کھپ تھے ، میرے ہمدرد ،ہمنوا،ہمراز تھے جس کھپ کو میں نے اپنے سے دور کردیا تھا وہی مجھے قبرستان چھوڑنے کے لیے آئیں حالی نے کتنا سچ کہا تھا
سبق پہلا ہے یہ کتاب ہدیٰ ک
کہ ساری خدائی ہے کنبہ خدا کا
اللہ کرے کھپ کھپے کھپے سدا کھپے
آج جب کہ میں زندگی کے انسٹھ سالوں کی گرمیاں سردیاں جھیل چکا ہوں مجھے بہار کی وہ صبح یاد ہے ،کہنے کو تو موسم بہار تھا مگر ایک انجانے اندیشے سے دل ڈوبتا جا رہا تھا طبیعت میں قنوطیت تو گزشتہ تین روز ہی سے طاری تھی وقفے وقفے سے والد صاحب کے الفاظ کانوں میں گونجتے کہ سوموار کو اشرف کو اسکول میں داخل کرانا ہے آج سوموار کا دن آ ہی گیا تھا پچھلے ہفتے کی بسنت کی رونقیں آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھیں کیا دوپہر تھی کہ سہ پہر اور شام کا احساس ہی نہ ہوتا مگر آج تو دل صرف رونے کو چاہ رہا تھا اور وہ بھی بھوں بھوں کرکے ۔خیر ناشتے سے فراغت کے بعد اماں نے مجھے صاف ستھرے کپڑے پہنائے ایک خوبصورت سا بستہ گلے میں ڈالا اور والد صاحب مجھے ہمراہ لے کر روانہ ہوئے والد صاحب کی معیت میں یہ میرا پہلا تنہا سفر تھا ایک ایک قدم بھاری لگ رہا تھا جی چاھتا تھا کہ والد صاحب کی انگلی چھڑا کر واپس گھر بھاگ جائوں اور اپنی اماں کی گود میں انکے ڈوپٹے میں چھپ جائوں مگر یہ نا ممکن تھا آج بھی جب وہ وقت یاد کرتا ہوں تو حضرت اسٰعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کے جذبہ پر قربان پونے کو دل چاہتا ہے خیر والد صاحب مجھے لے کر بھاٹی کے ایک اسکول میں داخل ہوئے یہاں تو بچے ہی بچے تھے کوئ لڑ رہا تھا کوئ گر ہا تھا گرنے والے کو کوئ اٹھا رہا تھا تو کوئ اس پر ہنس رہا تھا ایک ماسٹر صاحب ڈنڈے کو لہرا لہرا کر دہشت ناک عظمت بٹھانے کی سعی لا حاصل میں مصروف تھے غالباً یہ میرے والد صاحب کے شناسا تھا اس لئے تپاک سے ملے والد صاحب نے نہ جانے کیا رازونیاز کی باتیں کیں کہ مجھے بھی خبر نہ ہوئی والد صاحب مجھے ان کے حوالے کر کے رخصت ہوئے۔میں نے ڈبڈباتی نظروں سے انہیں دیکھا ابھی آنسو میرے گالوں ہی پر تھے کہ ماسٹر صاحب کی آواز آئی " کی کھپ اے " لفظ کھپ سے آشنائی کا یہ پہلا موقعہ تھا یہی وہ لفظ ہے جو ہمزاد کی طرح میرے ساتھ چمٹا ہوا ہے ۔ خدا خدا کر کے پانچویں درجے کا امتحان پاس کیا اب والد صاحب اکثر دوستوں سے میرے سکول کےانتخاب پر گفتگو کرتے دوست احباب جو اسکول بتاتے والد صاحب کہتے یار وہاں تو بہت کھپ ہے اب مجھے اپنے پانچ سالہ تجربے اور مشاہدے سے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ کھپ کوئی اچھی شے نہیں اس سے پرہیز لازمی ہے یہ ایک ایسا جراثیم ہے جو انسان کے دماغ کو نقصان پہونچاتا ہے اسکول منتخب ہو چکا تھا اور اس طرح میں ریلوے روڈ کے گورنمنٹ سکول پہنچ گیا۔اسکول میں ہر قسم کے لڑکے تھے چحوٹے بڑے،لمبے ٹھگنے،کالے گورے، شرارت سے بھرے ہوئے ،مسکین اور گربہ مسکین غرضیکہ ہر کوالٹی کا لڑکا تھا ۔ دوسرے ہی دن جب اردو کے استاد مرحوم بخاری صاحب کلاس میں آئے ،جماعت کے لڑکوں پر ایک طائرانہ نطر ڈالتے ہوئے بولے کہ کیا یہ ساری کھپ پڑھنے آئی ہے بچے پرائمری اسکول کے تجربہ کار تھے کورس کے انداز میں زور سے بولے جی پھر وہ گویا ہوئے دھوبی ،کنجڑے ، نائی ،قصائی سب پڑھنے آگئے بچوں نے سوال کو نہ سمجھتے ہوئے پھر کورس کے انداز میں کہا جی ، مگر مجھے اتنا یقین ہو گیا کہ میں کھپ ہوں جسے پڑھنے سنورنے کا کوئی حق نہیں، اسکول کا تو جو لطف تھا ہی تھا آتے جاتے ڈبل ڈیکر بس کا اپنا ہی مزہ تھا۔ چحٹی کا وقت ہوتا ،دفتروں سکولوں کالجوں کے لوگ بس میں سوار ہوتے کسی کو نچلی تو کسی کو بالائی منزل میں جگہ ملتی کوئی سیڑیوں سے لٹکا ہوتا اور بستہ ہواکےدوش پرہوتا کسی کا بستہ اندر ہوتا اور خود باہر ایسے حالات میں چیزیں بیچنے والے بھی صدا لگا لگا کر بس کے اند کھٹی مٹھی گولیاں اور یوسف زلیخا کے قصے بیچ رہے ہوتے جسم اور کپڑے پسینے میں شرابور مگر نہ جانے کیوں کسی کا پسینے کی بو سے دل متلی ہوتا اور نہ ہی کوئی ناک بھوں چڑھاتا غالباً انہیں اس حقیقت کا ادراک تھا کہ پسینہ بھی فطرت کا ایک رنگ ہے جو انسانی صحت کے لیے ہی نہیں معاشرے کی صحت کے لیے بھی ضروری ہے جو قویں پسینہ نہیں بہاتیں ان کا خون بہتا ہے ۔ اتنے بدبو دار ماحول میں بھی ہر طرف مسکراہٹیں اور شرارتیں ہوتیں جتنی بس کھپ سے کھچا کھچ بھری ہوتی اتنے ہی یقیناً زندگی کے رنگ ابھرتے ۔پھر جب میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پا س کر لیا تو مجھے احساس ہوا کہ اب میںیقیناًکھپ نہیں رہا پاکستان کی شرح خواندگی دیکھتے ہوئے اس وقت شاید بھاٹی میں گنتی کے ہی ایم اے پاس تھے ۔گھر والوں ،دوستوں نے مقابلے کے امتحان کے لئے اکسایا دل نے بھی کہا یہی موقعہ ہے کھپ کی جنس کو بدلنے کا ، ورنہ کہیں مدرس بن کر ایک نئی کھپ کا سامنا کرنا ہوگا اور کبھی کھپ سے باہر نکل نہ پائوگے۔اس جذبے کے تحت تیاری کی اور امتحان میں کامیاب ہو گیا ۔تربیت کے لئے اکیڈمی پہنچ گیا یہاں بھی جب اپنے سینئیرز اور اساتذہ کے مابین گفتگو میں جب کھپ کا لفظ سنتا تو سنتے ہی مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے میں نے کسی مسجد سے چوری کی ہوئی جوتی پہنی ہے اور مالک نے پہچان لی ہے ۔یا خدا میں نے تو اس کھپ کی جنس بدلنے کے لئے بہت محنت کی ہے دل چاہتا تھا کہ میں چیخ چیخ کر لوگوں سے کہوں کہ لوگو میں کھپ نہیں ہوں ،کسی دھوبی کنجڑے ،نائی قصائی کا بیٹا کھپ نہیں ہوتا مگر آواز گلے ہی میں دب کر رہ جاتی خدا خدا کر کے ٹریننگ کا مرحلہ ختم ہوا اور میں ہم میں بدل گیا جی ہم میں ، ایک بار کسی نے فیض احمد فیض سے پوچھا کہ آپ رہنے والے تو سیالکوٹ کہ ہیں پھر یہ لکھنئو کے انداز میں آپ اپنے لیے جمع متکلم کا صیغہ کیوں استعمال کرتے ہیں تو فیض نے لا جواب جواب دیا کہ ہمیں میں میں تکبر اور نخوت کی بو آتی ہے بڑے انسان اور بہروپیوں میں یہ بھی ایک فرق ہے اب ہم حاکم ہو گئے تھے ہمارا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سونا جاگنا اپنی روایات کے برعکس اپنے پرانے آقائوں کی مانند تھا ہماری سوچ بھی وہی تھی ۔ہماری پہلی تقرری لاہور ہی کے قریب قصور میںہوئی ۔تحصیلدار مقرر ہوئے دفتر دیکھا تو طبیعت خوش ہوگئی دروازے کے باہر لٹکی ہوئی چق نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا اب ہم ہر قسم کی کھپ سے بالکل محفوظ ہو گئے اب کوئی دھوبی کنجڑے نائی قصائی کو میرے قریب آنے کی جرئت نہ ہوتی دفتر میں اکیلے کرسی پر جھولتے ہوئے کبھی ڈبل ڈیکر میں سفر کے وہ مناظر یاد بھی آتے تو شرمندگی اور خجالت سے انہیں جھٹک دیا کتے تھےتیس سالہ ملازمت کے دوران دیس دیس پھرے مگر وہاں کہیں کھپ نظر نہ آئی نہ جانے یہ ساری کھپ ہمارے ہی ملک میں کیوں ہے جب سندھ میں ہمارا تبادلہ ہوا تو نئے لفظ سے آشنائی ہوئی ہر طرف انتخابات کا شور و غو غا تھا ایس ماحول میں نعرے لگ رہے تھے پاکستان کھپے یہ کانوں کو بہت بھلا لگا ۔مطلب پوچھا بتایا گیا زندہ باد کھپے لگاتی ہوئی کھپ کو دیکھ کرہمارے لاشعور کی کھپ پھر زندہ ہونے لگی جس سے جان چھڑانے کے لیے نا جانے کتنی انمول چیزیں ہم مسلسل قربان کرتے آرہے تھے ۔بھاٹی کی ٹھنڈی ٹھنڈی گلیاں چھوڑ کرٹائون شپ اور پھر اسلام آباد منتقل ہو گئے تا کہ لاہور کی کھپ سے بچ سکیں ۔بسوں اور تانگوں کی رونقیں چھوڑ کر ٹیکسی اور کاروں کی تنہائی میں پناہ ڈھونڈی۔ بھاٹی کے سری پائے اور لوہاری کی نہاری جن کی خوشبوئیں آج بھی دماغ کے کسی گوشے میں رچی بسی ہیں اب اسلام آباد کے ایک مہنگے سیکٹر میں وسیع گھر بنایا ہے ۔یہاں گھر مختلف ڈبے نما ہیں جہاں سے یا تو کاریں نکلتی ہیں یا غلام گردشوں کے خدمت گار،یہاںنہ تو کوئی چھت کی الگنی پر کپڑے ڈالتی ہوئیں نازنین نظر آتی ہے اور نہ ہی گلی میں ریڑھی والے سے بچے چیزیں خریدتے ہوئے نظر آتے ہیں تمام بالکونیاں اداس ہی نظر آتی ہیں اور گلیاں ویران ،صرف دوڑتی ہوئی اور ڈبوں میں غائب ہوتی کاریں نظر آتی ہیں
اب جبکہ اگلے سال ہاقاعدہ طور پر ہمارے سٹھیانے کی رسم ادا کرتے ہوئے ہمیں سرکار کی نوکری اور عوام کی حاکمیت سے فارغ کردیا جائے گا تو ہم بھی اس کوٹھی نما قید خانے میں مقید ہو جائیں گے اور ہم پھر سے میں بن جائیں گے شائد کھپ بھی ۔ عمر کے اس حصے میں ماضی قریب کی بجائے ماضی بعید بہت یاد آتا ہے ماضی کے تمام بزرگ،دوست، پڑوسی ، ہم جماعت جن میں سے کچھ تو مر کھپ گئے او ر جو باقی بچے ہوں گے ان کی کھپ سے میں بہت دور نکل گیا اگرچہ دل بہت چاہتا ہے اب احساس ہوا کہ وہ کھپ ہی ہے جس میں زندگی کے تمام رنگ مکمل آب و تاب کے ساتھ جھلکتے ہیں اس کھپ میں سب کی خوشیاں اور غم ایک دوسرے کے ساتھ ہی جڑی ہوئی ہیں ۔کھپ کے بغیر زندگی قید تنہائی ہے ۔اب تو یہی خواہش ہے کہ وہ سارے دحوبی، کنجڑے ،نائی ،ۡصائی، جو کھپ تھے ، میرے ہمدرد ،ہمنوا،ہمراز تھے جس کھپ کو میں نے اپنے سے دور کردیا تھا وہی مجھے قبرستان چھوڑنے کے لیے آئیں حالی نے کتنا سچ کہا تھا
سبق پہلا ہے یہ کتاب ہدیٰ ک
کہ ساری خدائی ہے کنبہ خدا کا
اللہ کرے کھپ کھپے کھپے سدا کھپے