یوسف-2
محفلین
بلوچستان میں گورنر راج ایک اور ’’رحم دلانہ‘‘ مذاق ہے۔ ’’رحم دل‘‘ آپریشنوں میں نہائے ہوئے اس صوبے کی صورتحال پر سپریم کورٹ نے ایکشن لیا اور آئینی حل بتایا۔ عدالت کے الفاظ واضح تھے، ’’حکومت نااہل ہے۔ اسمبلی کے خلاف کوئی بات نہیں کی ‘‘ عدالت کی بات مان لی جاتی تو اسمبلی بھی رہتی اور کرپٹ، بے حس اور بے شرم رئیسانی سے نجات بھی مل جاتی لیکن حکومت نے عدالت کی بات نہیں مانی، دھرنے کا مطالبہ مان لیا۔ اور ثابت کر دیا کہ وہ لاتوں کی بھتنی ہے۔ ایسے گورنر راج کی آئین میں گنجائش نہیں۔ اس کے نتیجے میں حالات اور زیادہ خراب ہوں گے۔ ان لوگوں پر ’’ترس‘‘ کھانا چاہئے اور ان کی قابل رحم حالت پر چھوڑ دینا چاہئے جو یہ رائے دے رہے ہیں کہ گورنر راج سے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ بلوچستان میں جو گل کھل رہے ہیں، وہ ایجنسیاں کھلا رہی ہیں، گورنر ان کا کیا کر لے گا۔ سچ یہ ہے کہ بلوچستان کے بحران کو اب زیادہ خطرناک موڑ کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ علیحدگی کے راستے آسان کئے جا رہے ہیں۔ہمارے ’’ناخدا‘‘ زور آور ہیں، کوئی ان کا احتساب کر سکتا ہے نہ ان کا ہاتھ روک سکتا ہے۔ اور یہ رئیسانی اب کہہ رہے ہیں کہ ان کی حکومت پر شب خون مارا گیا۔ پانچ سال تک وہ صوبے پر شب خون ہی نہیں، دن خون بھی مارتے رہے، حد ہے ابھی تک دل بھرا نہیں۔ تاریخ نے بہت بے شرم دیکھے ہوں گے لیکن ایسا جیّد بے شرم نہیں۔ وہ تو کچھ ایسے کمال کے ہیں کہ ان کی حرکتوں کا سن کر روایتی بے شرم بھی پانی پانی ہو جائیں۔ لاہور ہائیکورٹ بار نے مطالبہ کیا ہے کہ رئیسانی کو گرفتار کیا جائے۔ کون کرے گا۔ اور پھر ایک ہی کو کیوں پکڑا جائے۔ وہ جو سب پر بھاری ہے، اس نے ہر جگہ اور ہر عہدے پر چن چن کر صرف ایسے لوگ لگائے ہیں جو بس ایک کام کر سکتے ہیں۔ وہ کام کیا ہے، بتانے کی ضرورت نہیں۔ حکومت سے لے کر بیورو کریسی تک اپنے کام میں دن رات جتے ایسے افراد کی گنتی کئی سوکی ہے۔ اور رئیسانی نام کا یہ نیم بے ہوش مسخرا ان میں سے محض ایک ہے۔ ایک کو پکڑنے کاکیا فائدہ، پکڑنا ہے تو ان سینکڑوں میں سے ہر ایک کو پکڑا جائے اور اب تک کی ’’ساری پیداگیری‘‘بھی وصول کی جائے۔
علامہ ناگہانی کہتے ہیں، وہ روحانی انقلاب برپا کر رہے ہیں۔ کس قسم کا روحانی انقلاب۔ یہ خبر ملاحظہ فرمائیے۔ ہیڈ سلیمانکی میں علامہ صاحب کے نوجوان اور ادھیڑ عمر روحانیین لانگ مارچ کے لئے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک65سالہ غازی محمد یار کو روک کر حکم دیا، لانگ مارچ میں چلو۔ یار محمد نے کہا کہ وہ بوڑھا اور بیمار ہے، اتنی دور نہیں جا سکتا۔ یہ سن کر روحانیین کا مقامی گرو غلام فخری طیش میں آگیا اور بزرگ کو ٹھڈے، مکے اور لاتیں مار مار کر بے ہوش کر دیا۔ روحانی لوگ وفورِ روحانیت سے اکثر بے خود ہو جاتے ہیں۔ لیکن دوسروں کو اس طرح بے خود کرنا پہلی بار سنا۔ بے خود کرنے کے لئے لاتوں ، ٹھڈوں اور گھونسوں کا استعمال علامہ صاحب کے روحانیین کی بالکل نئی ایجاد ہے۔ سچ ہے، موصوف روحانیت کے بھی مجدّد ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ پاکستان میں منصوبہ بندی کے تحت بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور بم دھماکے اسی کھیل کا حصہ ہیں اور اسی کے دوران طاہر القادری بھی اچانک سامنے آگئے اور دوسری طرف بھارت نے سرحد پر کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ اور یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومت کے آئینی خاتمے میں دو ماہ رہ گئے ہیں ۔اخبار نے لکھا ہے کہ یہ واقعات ایک لکھے گئے سکرپٹ کے تحت کئے جا رہے ہیں۔ ایک اور اخبارہٹنگٹن پوسٹ نے حیرت ظاہر کی ہے کہ علامہ موصوف آئینی تبدیلیوں کے لئے غیر آئینی مطالبات کیوں کر رہے ہیں۔ وہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور اتنے بھاری فنڈ انہیں کہاں سے مل رہے ہیں۔ بہت زیادہ درست تجزیئے کرنے والے برطانوی جریدہ اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ قادری کی خواہش ’’راولپنڈی‘‘ کی خواہش ہے اور وہ فوج کے گھوڑے پر سوار ہیں اور پاکستان کی تاریخ کی بھیانک ترین غلطی ہونے جا رہی ہے اور یہ پاکستان کا افسوسناک موڑ ہوگا۔ ممتاز دفاعی ماہر اور مبصر جنرل اسلم بیگ نے کہا ہے کہ امریکہ نے الیکشن روکنے کے لئے قادری کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن ہوئے تو نواز شریف حکومت میں آئیں گے اور امریکہ کو نواز شریف کا حکومت میں آنا گوارا نہیں کیونکہ وہ امریکہ کا حکم نہیں مانتا۔ کہانی صاف ہے۔ تشریح کی ضرورت نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مقتدر ادارے کرپشن پر پریشان ہیں حالانکہ کرپشن تو ’’زیر سرپرستی‘‘ ہے اور یہ کیسی پریشانی ہے جو الیکشن سے عین پہلے پیدا ہوگئی ہے۔ اصل بات وہی ہے یعنی یہ ڈر کہ امریکہ کا حکم نہ ماننے والے آجائیں گے۔افغان صورت حال اور کشمیر کے مسئلے کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو ایک ناکام، ٹوٹتی پھوٹتی ریاست بنا دیا جائے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے اور ’’پریشان‘‘ حضرات کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔ آخر یہ ’’تقاضا‘‘ ہی تو ہے کہ مشرف اور اس کے مرید بے صفا شیخ رشید سمیت سارے ’’پارسا اور متقی پرہیز گار‘‘لوگوں نے اچانک ہی علّامہ کی حمایت شروع کر دی ہے۔
لانگ مارچ کے نتیجے ابھی نہیں نکلیں گے تو بعد میں نکلیں گے۔ یہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے لیکن ایک نتیجہ تو نکلا، زبردست ’’اکنامک ایکٹویٹی‘‘ کی شکل میں۔ جلسے پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہوئے، لانگ مارچ پر5سے7ارب روپے کا خرچہ ہوا۔ یہ محتاط اندازہ ہے، صحیح تو زیادہ کا ہوگا۔پانچ پانچ کروڑ کی رقم تو چار اینکر پرسنوں کے پروگرام خریدنے پر لگی۔ فی اینکر نہیں، فی پروگرام۔ کل دس پروگرام ہوں گے۔ 50 کروڑ تو یہی لگے۔بیضوی پیٹ اور نیم بیضوی چہرے والے ’’خان‘‘ نے سب سے زیادہ ہاتھ رنگے۔ ملک ریاض کی سخاوت بھی اسی اینکر پر سب سے زیادہ برسی تھی۔ چنانچہ غور فرما لیجئے، کتنے لوگوں کا بھلا ہوا ہوگا۔ کتنے تشہیری اداروں نے اپنے ملازموں کو بونس دیئے ہوں گے۔ ہزاروں دیہاڑی داروں کی ہفتے بھر کی نہیں تو دو چار دن کے لئے چولہا گرم کرنے کی تدبیر تو ہوگئی۔ کچھ لوگ مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ لاہور سے تین لاکھ افراد لے کر نکلنے کا دعویٰ تھا، صرف سات ہزار کا ’’لانگ مارچ‘‘ کیوں نکلا اور اسلام آباد میں40لاکھ کا دعویٰ تھا، ایک لاکھ بھی نہیں آئے ۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سات آٹھ ارب روپے کی سرمایہ کاری تو ہوگئی۔اور یہ پوچھنا تو نادانی ہے کہ اتنے ارب در ارب کی دولت کہاں سے آئی۔ پہنچے ہوئے بزرگوں کو ’’دست غیب‘‘ تک غیبی رسائی ہوتی ہے۔ اور غریبوں کی بات آئی تو وہ دو غریب یاد آگئے جو ایک غریب پر ور ملک ریاض کا دامن پکڑ کر آستانہ انقلاب جا پہنچے تھے۔ انقلابِ دوراں نے فرمایا کہ ملک ریاض کی موجودگی میں بات نہیں کروں گا۔ (یہ سچ ہی تھا۔ اضافی بدنامی مول لینے سے کیا فائدہ) دونوں غریب بھائیوں نے انہیں بتایا کہ ملک ریاض غریبوں کو بہت کھلاتے ہیں‘‘ دونوں غریبوں کو ملک ریاض نے یقیناًپیٹ بھر کر کھلایا ہوگا اور دونوں غریبوں نے جھولیاں اٹھا اٹھاکر دعائیں بھی دی ہوں گی۔ جس طرح اب تک وہ زرداری کیلئے جھولیاں اٹھاتے رہے اور جس طرح اس سے پہلے مشرف کے لئے اٹھاتے رہے اور جس طرح اس سے بھی پہلے نواز شریف کے لئے اٹھاتے رہے۔ غریبوں کی اس سدا بہار جھولی بردارجوڑی کی خیر! (روزنامہ نئی بات 16 جنوری 2013 ء)
علامہ ناگہانی کہتے ہیں، وہ روحانی انقلاب برپا کر رہے ہیں۔ کس قسم کا روحانی انقلاب۔ یہ خبر ملاحظہ فرمائیے۔ ہیڈ سلیمانکی میں علامہ صاحب کے نوجوان اور ادھیڑ عمر روحانیین لانگ مارچ کے لئے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک65سالہ غازی محمد یار کو روک کر حکم دیا، لانگ مارچ میں چلو۔ یار محمد نے کہا کہ وہ بوڑھا اور بیمار ہے، اتنی دور نہیں جا سکتا۔ یہ سن کر روحانیین کا مقامی گرو غلام فخری طیش میں آگیا اور بزرگ کو ٹھڈے، مکے اور لاتیں مار مار کر بے ہوش کر دیا۔ روحانی لوگ وفورِ روحانیت سے اکثر بے خود ہو جاتے ہیں۔ لیکن دوسروں کو اس طرح بے خود کرنا پہلی بار سنا۔ بے خود کرنے کے لئے لاتوں ، ٹھڈوں اور گھونسوں کا استعمال علامہ صاحب کے روحانیین کی بالکل نئی ایجاد ہے۔ سچ ہے، موصوف روحانیت کے بھی مجدّد ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ پاکستان میں منصوبہ بندی کے تحت بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور بم دھماکے اسی کھیل کا حصہ ہیں اور اسی کے دوران طاہر القادری بھی اچانک سامنے آگئے اور دوسری طرف بھارت نے سرحد پر کشیدگی پیدا کر دی ہے۔ اور یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومت کے آئینی خاتمے میں دو ماہ رہ گئے ہیں ۔اخبار نے لکھا ہے کہ یہ واقعات ایک لکھے گئے سکرپٹ کے تحت کئے جا رہے ہیں۔ ایک اور اخبارہٹنگٹن پوسٹ نے حیرت ظاہر کی ہے کہ علامہ موصوف آئینی تبدیلیوں کے لئے غیر آئینی مطالبات کیوں کر رہے ہیں۔ وہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور اتنے بھاری فنڈ انہیں کہاں سے مل رہے ہیں۔ بہت زیادہ درست تجزیئے کرنے والے برطانوی جریدہ اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ قادری کی خواہش ’’راولپنڈی‘‘ کی خواہش ہے اور وہ فوج کے گھوڑے پر سوار ہیں اور پاکستان کی تاریخ کی بھیانک ترین غلطی ہونے جا رہی ہے اور یہ پاکستان کا افسوسناک موڑ ہوگا۔ ممتاز دفاعی ماہر اور مبصر جنرل اسلم بیگ نے کہا ہے کہ امریکہ نے الیکشن روکنے کے لئے قادری کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن ہوئے تو نواز شریف حکومت میں آئیں گے اور امریکہ کو نواز شریف کا حکومت میں آنا گوارا نہیں کیونکہ وہ امریکہ کا حکم نہیں مانتا۔ کہانی صاف ہے۔ تشریح کی ضرورت نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مقتدر ادارے کرپشن پر پریشان ہیں حالانکہ کرپشن تو ’’زیر سرپرستی‘‘ ہے اور یہ کیسی پریشانی ہے جو الیکشن سے عین پہلے پیدا ہوگئی ہے۔ اصل بات وہی ہے یعنی یہ ڈر کہ امریکہ کا حکم نہ ماننے والے آجائیں گے۔افغان صورت حال اور کشمیر کے مسئلے کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو ایک ناکام، ٹوٹتی پھوٹتی ریاست بنا دیا جائے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے اور ’’پریشان‘‘ حضرات کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔ آخر یہ ’’تقاضا‘‘ ہی تو ہے کہ مشرف اور اس کے مرید بے صفا شیخ رشید سمیت سارے ’’پارسا اور متقی پرہیز گار‘‘لوگوں نے اچانک ہی علّامہ کی حمایت شروع کر دی ہے۔
لانگ مارچ کے نتیجے ابھی نہیں نکلیں گے تو بعد میں نکلیں گے۔ یہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے لیکن ایک نتیجہ تو نکلا، زبردست ’’اکنامک ایکٹویٹی‘‘ کی شکل میں۔ جلسے پر ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہوئے، لانگ مارچ پر5سے7ارب روپے کا خرچہ ہوا۔ یہ محتاط اندازہ ہے، صحیح تو زیادہ کا ہوگا۔پانچ پانچ کروڑ کی رقم تو چار اینکر پرسنوں کے پروگرام خریدنے پر لگی۔ فی اینکر نہیں، فی پروگرام۔ کل دس پروگرام ہوں گے۔ 50 کروڑ تو یہی لگے۔بیضوی پیٹ اور نیم بیضوی چہرے والے ’’خان‘‘ نے سب سے زیادہ ہاتھ رنگے۔ ملک ریاض کی سخاوت بھی اسی اینکر پر سب سے زیادہ برسی تھی۔ چنانچہ غور فرما لیجئے، کتنے لوگوں کا بھلا ہوا ہوگا۔ کتنے تشہیری اداروں نے اپنے ملازموں کو بونس دیئے ہوں گے۔ ہزاروں دیہاڑی داروں کی ہفتے بھر کی نہیں تو دو چار دن کے لئے چولہا گرم کرنے کی تدبیر تو ہوگئی۔ کچھ لوگ مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ لاہور سے تین لاکھ افراد لے کر نکلنے کا دعویٰ تھا، صرف سات ہزار کا ’’لانگ مارچ‘‘ کیوں نکلا اور اسلام آباد میں40لاکھ کا دعویٰ تھا، ایک لاکھ بھی نہیں آئے ۔اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سات آٹھ ارب روپے کی سرمایہ کاری تو ہوگئی۔اور یہ پوچھنا تو نادانی ہے کہ اتنے ارب در ارب کی دولت کہاں سے آئی۔ پہنچے ہوئے بزرگوں کو ’’دست غیب‘‘ تک غیبی رسائی ہوتی ہے۔ اور غریبوں کی بات آئی تو وہ دو غریب یاد آگئے جو ایک غریب پر ور ملک ریاض کا دامن پکڑ کر آستانہ انقلاب جا پہنچے تھے۔ انقلابِ دوراں نے فرمایا کہ ملک ریاض کی موجودگی میں بات نہیں کروں گا۔ (یہ سچ ہی تھا۔ اضافی بدنامی مول لینے سے کیا فائدہ) دونوں غریب بھائیوں نے انہیں بتایا کہ ملک ریاض غریبوں کو بہت کھلاتے ہیں‘‘ دونوں غریبوں کو ملک ریاض نے یقیناًپیٹ بھر کر کھلایا ہوگا اور دونوں غریبوں نے جھولیاں اٹھا اٹھاکر دعائیں بھی دی ہوں گی۔ جس طرح اب تک وہ زرداری کیلئے جھولیاں اٹھاتے رہے اور جس طرح اس سے پہلے مشرف کے لئے اٹھاتے رہے اور جس طرح اس سے بھی پہلے نواز شریف کے لئے اٹھاتے رہے۔ غریبوں کی اس سدا بہار جھولی بردارجوڑی کی خیر! (روزنامہ نئی بات 16 جنوری 2013 ء)