جاسمن
لائبریرین
دیوتا میں نے بہت پڑھی لیکن ایک وقت آیا کہ چھوڑ دی۔ میری دلچسپی بھی نہ رہی۔ محی الدین نواب کا وہ انداز جو کبھی اچھا لگتا تھا، برا لگنے لگا۔
پھر پورا ڈائجسٹ پڑھ لیتی تھی، دیوتا چھوڑ دیتی تھی۔
پھر پورا ڈائجسٹ پڑھ لیتی تھی، دیوتا چھوڑ دیتی تھی۔
محی الدین نواب نے دیوتا لکھی ۔۔۔ کہا کرتے تھے کوئی 100 صفحے پڑھ لے تو اسے چھوڑ نہیں پائے گا۔ میں نے سیکڑوں صفحات پڑھ ڈالے، لیکن چھوڑنی پڑی۔ لیکن اس میں لکھنے والے کا قصور نہیں تھا۔ آج بھی جہاں سے وہ کہانی پڑھو، آپ کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ دیوتا ہی کیا، محی الدین نواب کی تمام ہی کہانیاں دلچسپ رہیں۔ بہت سے لوگوں کو ان سے فحش نگاری کا شکوہ بھی رہا، لیکن ہر انسان کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ وہ ناقدین کے کہنے پر اس سے ہٹنا گوارا نہیں کرتے تھے۔