کہانی : طوفان خان

قبل از عام انتخابات
21 مارچ ؁2013
خلیل ؔ الرّ حمٰن
نظم : طوفان خان
--------------
آؤ بچو سنو کہانی
رہ نہ جانا تم انجان

مدتوں پُرانی بات نہیں
قصہ ہے از ملکِ پاکستان

کھلاڑی تھا ایک زیرک
بَلّا تھا اُس کا نشان

کھیل کود سے تھک گیا جب
تو اک گوری سے باندھا پیمان

اب جو توبہ کرتے بنی تو
سیاست کی لی اُس نے ٹھان


پھر ایک سالار کی نیّت بدلی
حکومت پر وہ ہوا براجمان

اپنے پَر پھیلائے اُس نے
نیچے پہنچے سب بے ایمان

بندر بانٹ پہ ہوئی لڑائی
ناراض ہوا پھر یوں کپتان


خود کاغذاتِ نامزدگی پھاڑے
دے اوروں کو بہتان

بات بات کی رپٹ لکھائے
پھر کہہ مُکرے یہ بدگمان

منہ میں اُس کے ذاتیاتی جملے
اور دل میں باری کا ارمان

جنوب کی ناانصافی کا رونا دھونا
وڈیروں مخدوموں سے یک زبان


جناح کی تصویر کے نیچے
افکارِ مودودی کا اعلان

فرقے زبانیں نسلیں ذاتیں
دشمن ملک اور طالبان

فساد کے بارے نہیں سنجیدہ
ملک ہے سارا لہولہان

لٹھ بردار مُلّا سے پردہ
بدعنوانی کی پڑھے گردان


خواب فروشوں سے یاری
بیزار ِ سیاست سب یکجان

قریشی ہاشمی قصوری سواتی
پُرانا مال اور نئی دُوکان

گالیوں کے ماہر ، بے مُہار
الزام تراش سب کارکنان

چور اُچکّا چوہدری
گُنڈی رَن پردھان


روٹی نہیں تو کیا غم ہے
کھائیں عوام برگر اور نان

دیکھو دُنیا والو آیا
عمران خان عمران خان

====================
بعد از عام انتخابات
15 مئی ؁2013
خلیل ؔ الرّ حمٰن
نظم: تحریک
------------
تبدیلی کا اعلان
سونامی کا امکان
پھر "نیا پاکستان"
بذریعہ جذباتی ہیجان ؟
بد تمیزی کا طوفان؟
نعروں کی دوکان؟

ہدف کے شہ کمان
خطا ہوئے اوسان
شکست بنی پہچان
سُبکی کے چالان

میرے بھائی جان!
دنیا ہے پریشان
درکار ہے درمان
حقدار ہے دہقان

ہزیمت کا دارالامان
سوز کا سامان
قائد کا فرمان
تنظیم اتحاد ایمان
 
پی ٹی آئی کے نجومیوں کے لیے ایک واقعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داتا صاحب لاہور میں ہر سال عرس پر اایک بڑا میلہ لگتا ہے اور زائرین رات مینارِ پاکستان کے باغ میں بسر کرتے ہیں۔ یہاں مالشیے ، نجومی ، گنڈیری فروش اور فوری تصویر کھینچنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میلے کی رات ، میں وہاں سے اپنے دوستوں کے ساتھ گزر رہا تھا کہ ایک آدمی کو پھٹے کپڑوں میں روتے دیکھا۔

پوچھنے پر پتہ چلا کہ ہم سے پہلے وہاں پر پندرہ لڑکوں کا ایک گروہ گُذرا تھا جنہوں نے کوئی دو گھنٹے اُس سے مستقبل کا حال، بیویوں کی تعداد اور امریکی ویزہ کے بارے میں معلوم کیا۔ مگر ساری باتوں کی سچائی کی ضمانت اور معاوضہ کی ادائیگی ایک آخری سوال سے مشروط کر دی۔
وہ سوال یہ تھا : "ہم نے تمھیں پیسے دینے ہیں کہ نہیں۔"
نجومی کا جواب تھا : "ہاں جی ، بالکل دینے ہیں ، کیوں نہیں !"

بقول نجومی ، بس پھر کیا تھا لڑکوں نے کہا کہ تُو نے آخری سوال کا جواب غلط دیا ہے اور اِس سے پہلے بھی ضرور جھوٹ ہی بکا ہے اور اُنکے دو گھنٹے بھی ضائع کر دیے ہیں لہٰذا اُسے پیسے بھی نہیں دیے اور اُلٹا زدوکوب بھی کیا۔
 
Top