پپو
محفلین
چہرے کی طرف ایک سوالیہ انداز سے دیکھا لیکن وہ چپ رہا۔ جاوید نے کہا کہ بالکل ٹھیک ہے اگر عظیم راضی ہے تو اسے کیا اعتراز ہو سکتا ہے۔ عالیہ نے اسے ایک کارڈ دیا جس پر اس کا ایڈریس اور فون نمبر درج تھا اور کہا کہ وہ اس سے کل شام کے وقت رابطہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں وہاں سے نکلے تو جاوید نے ڈرائیورسے کہا کہ وہ چلا جائے اور دوسری گاڑی گیراج میں لے جائے اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور اگلی سیٹ کا دروازہ عظیم کے لئے کھول دیا عظیم کو یہ سب خواب سا لگ رہا تھا جاوید نے گاڑی سٹارٹ کرکے آگے بڑھادی اے سی آن کرتے ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بدن سے اٹکلیاں کرنے لگے جاوید نے ہلکا سا میوزک آن کردیا اور جاوید کو ایسے لگنے لگا جیسے وہ اس دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہو
اچانک جاوید نے پوچھا عظیم تم کسی شکور صاحب سے ملنے کا کہہ رہے تھے تو عظیم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے بھاری آواز کے ساتھ کہا جاوید صاحب سچ تویہ ہے میں نے کسی شکور سے نہیں ملنا تھا میں تو گھر سے روز کسی نہ کسی شکور کی تلاش میں نکلتا ہوں اور شام تک ایسا کوئی شکور نہیں ملتا جس کا میں مشکور ہو سکوں نوکری کی تلاش میں ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور پھر وہاں سے تیسرے دفتر اور آخر کا ر تھک ہار کر گھر واپس ہو جاتا ہوں لیکن نوکری کہیں نہیں ملتی نہ کوئی سفارش ہے نہ رشوت دینے کے لئے پیسے اور نہ کوئی سیاسی تعلقات ہیں جن کے بل بوتے پر مجھے کوئی ملازمت دے میں پتہ نہیں کیوں اس سٹاپ پر آپ کے ساتھ اتر گیا ورنہ میرا ادھر کوئی جاننے والا نہیں ہے بلکہ اب تو جاننے والے بھی لا تعلق ہو چکے ہیں اگر اسی طرح کچھ دن اور چلتا رہا تو ہو سکتا ہے میں کسی ریل گاڑی کے سامنے کود جاؤں یا پنکھے کے ساتھ جھول جاؤں روز خالی ہاتھ گھر جانا اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا جاوید نے جلدی سے عظیم کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا نہیں یار یہ تم کیا کہہ رہے میرے ہوتے ہوئے تمہیں ایسا سوچنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے ایسا ہمدردی کا لفظ عظیم کے لئے اسقدر بوجھ ثابت ہو ا کہ ایک مدت سے رکا ہوا آنسوؤں کا سیلاب آنکھوں میں امڈ آیا اور عظیم نے پھوٹ پھوٹ رونا شروع کر دیا جاوید نے جلدی سے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کی اور عظیم کو گلے سے لگا لیا جب دل کی بھڑاس آنسو کے رستے نکل گئی تو جاوید نے عظیم کے بالوں میں بڑے پیار سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا ہاتھوں کے لمس سے عظیم کو عجیب اطمینان کا احساس ہوا جاوید نے ڈش بورڈ پر رکھے ٹشوپیپرز کے ڈبے سے ٹشو نکال کر عظیم کے آنسو خشک کیے اور بڑی پر عزم آواز میں کہا عظیم بھائی آج کے بعد میں تمہاری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دونگا بلکہ یہ آنسو اب ان کی آنکھوں سے بہیں گے جو اس نظام میں خرابیاں کرکے خود بڑے مزے کی زندگی بسر کر رہے ہیں
اس کے بعد جاوید نے عظیم کو بڑے شاندار ہوٹل میں کھانا کھلایا اور کل شام میڈیم عالیہ سے ملنے کی تقید کی اور کہا کہ میں خود میڈیم سے فون پر بات کرکے اسے ساری حقیقت آگاہ کر دونگا تم یہ سمجھو تمہاری نوکری پکی اور عظیم کو چھوڑنے اس کے گھر کی طرف گاڑی کا رخ کر لیا حالانکہ عظیم بضد تھا کہ وہ وین میں چلا جائے گا لیکن جاوید نے اس کی ایک نہ سنی اور گاڑی کو عظیم کے بتائے ہوئے راستے کی طرف بڑھا دیا عظیم کا گھر ایک پوش علاقے سے ملحقہ آبادی میں تھا عظیم اپنے گھر کی بدحالی ابھی جاوید پر واضح نہیں کرنا چاہتا تھا مگر وہ جاوید کی بات کے آگے بے بس ہو گیا گاڑی کے گلی میں مڑتے ہی عظیم کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی سارے محلے والے عظیم کو اتنی شاندار گاڑی میں دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال جواب کرنے لگے عظیم کے کہنے پر جاوید نے گاڑی کو ایک گھر کے سامنے روک دیا اور جلدی سے دو ہزار روپے نکال کر عظیم کی سامنے والی جیب میں ٹھونس دیئے اور اشارے سے چپ رہنے کا کہا عظیم نے کہا جاوید بھائی لیکن جاوید نے عظیم کا منہ ہاتھ رکھ کر بند کر دیا اور کہا یہ قرض ہے جب پہلی تنخواہ ملے تو لوٹا دینا اتنی دیر میں گاڑی رکنے کی آواز سن کر فرزانہ دروازہ کھول چکی تھی فرزانہ کی پہلی نظر جاوید پر پڑی اور جاوید نے بھی اسی وقت مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا شائد وہ کچھ دیر اور وہ اسی مست نظارے میں کھویا رہتا لیکن عظیم کی آوا ز نے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا جاوید بھائی آئیں چائے پی کر جائیں نین نہیں جاوید نے معذرت کی اور کہا ابھی مجھے ایک دو ضروری کام نپٹانے ہیں پھر کبھی سہی اور کن آکھیوں سے دروازے کی طرف دیکھا مگر فرزانہ تب تک دروازے سے ہٹ گئی تھی عظیم کے اترنے کے بعد جاوید نے گاڑی آگے بڑھا دی اور وہ ابھی تک فرزانہ ہی کے بارے میں سوچ رہا تھا فرازنہ کا حسن جاوید کے دل میں گھر کرگیا شائد اس کے چہرے کی معصومیت تھی یا اس کا قدرتی حسن تھا جو کبھی بھی بناؤ سنگار کی مشق سے نہیں گزرا تھا کچھ تھا جو ابھی جاوید کی سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا حالانکہ جاوید کی زندگی جس ڈگر پر تھی اس میں لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں تھی مگر وہ سب کچھ مصنوعی تھا جاوید نے کبھی اسطرح سے نہیں سوچا تھا گاڑی پوری رفتار سے چلی جارہی تھی اس سے بھی تیز رفتاری سے جاوید کے دماغ میں فرزانہ گھوم رہی تھی
گھر میں داخل ہوتے ہی ماں اور بہن نے خوشی اورخوف کے ملے جلے تاثرات سے عظیم کا استقبال کیا اور پوچھا آج اتنی جلدی گھر لوٹ آئے ۔کیونکہ جب سے عظیم نے نوکری کی تلاش شروع کی تھی اسے گھر آتے آتے رات ہو جاتی تھی فرزانہ نے بھی محتاط انداز میں جاوید کے بارے میں پوچھا فرزانہ کے دل میں جاوید کے دیکھنے کا انداز چھب سا گیا تھا تاہم وہ جس کلاس کی لڑکی تھی اس میں ایسی کسی بات کی گنجائش نہیں تھی اس کلاس کی لڑکیاں شہزادوں کے خواب تو دیکھ سکتی تھیں مگر وہ پورے کبھی نہیں ہو سکتے تھے عظیم نے ماں کو اپنی ہونے والی جاب کے متعلق مبہم سے انداز میں بتانا شروع کیا کیونکہ زیادہ تو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اس لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں وہاں سے نکلے تو جاوید نے ڈرائیورسے کہا کہ وہ چلا جائے اور دوسری گاڑی گیراج میں لے جائے اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور اگلی سیٹ کا دروازہ عظیم کے لئے کھول دیا عظیم کو یہ سب خواب سا لگ رہا تھا جاوید نے گاڑی سٹارٹ کرکے آگے بڑھادی اے سی آن کرتے ہی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بدن سے اٹکلیاں کرنے لگے جاوید نے ہلکا سا میوزک آن کردیا اور جاوید کو ایسے لگنے لگا جیسے وہ اس دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہو
اچانک جاوید نے پوچھا عظیم تم کسی شکور صاحب سے ملنے کا کہہ رہے تھے تو عظیم کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے بھاری آواز کے ساتھ کہا جاوید صاحب سچ تویہ ہے میں نے کسی شکور سے نہیں ملنا تھا میں تو گھر سے روز کسی نہ کسی شکور کی تلاش میں نکلتا ہوں اور شام تک ایسا کوئی شکور نہیں ملتا جس کا میں مشکور ہو سکوں نوکری کی تلاش میں ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور پھر وہاں سے تیسرے دفتر اور آخر کا ر تھک ہار کر گھر واپس ہو جاتا ہوں لیکن نوکری کہیں نہیں ملتی نہ کوئی سفارش ہے نہ رشوت دینے کے لئے پیسے اور نہ کوئی سیاسی تعلقات ہیں جن کے بل بوتے پر مجھے کوئی ملازمت دے میں پتہ نہیں کیوں اس سٹاپ پر آپ کے ساتھ اتر گیا ورنہ میرا ادھر کوئی جاننے والا نہیں ہے بلکہ اب تو جاننے والے بھی لا تعلق ہو چکے ہیں اگر اسی طرح کچھ دن اور چلتا رہا تو ہو سکتا ہے میں کسی ریل گاڑی کے سامنے کود جاؤں یا پنکھے کے ساتھ جھول جاؤں روز خالی ہاتھ گھر جانا اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا جاوید نے جلدی سے عظیم کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا نہیں یار یہ تم کیا کہہ رہے میرے ہوتے ہوئے تمہیں ایسا سوچنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے ایسا ہمدردی کا لفظ عظیم کے لئے اسقدر بوجھ ثابت ہو ا کہ ایک مدت سے رکا ہوا آنسوؤں کا سیلاب آنکھوں میں امڈ آیا اور عظیم نے پھوٹ پھوٹ رونا شروع کر دیا جاوید نے جلدی سے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کی اور عظیم کو گلے سے لگا لیا جب دل کی بھڑاس آنسو کے رستے نکل گئی تو جاوید نے عظیم کے بالوں میں بڑے پیار سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا ہاتھوں کے لمس سے عظیم کو عجیب اطمینان کا احساس ہوا جاوید نے ڈش بورڈ پر رکھے ٹشوپیپرز کے ڈبے سے ٹشو نکال کر عظیم کے آنسو خشک کیے اور بڑی پر عزم آواز میں کہا عظیم بھائی آج کے بعد میں تمہاری آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں آنے دونگا بلکہ یہ آنسو اب ان کی آنکھوں سے بہیں گے جو اس نظام میں خرابیاں کرکے خود بڑے مزے کی زندگی بسر کر رہے ہیں
اس کے بعد جاوید نے عظیم کو بڑے شاندار ہوٹل میں کھانا کھلایا اور کل شام میڈیم عالیہ سے ملنے کی تقید کی اور کہا کہ میں خود میڈیم سے فون پر بات کرکے اسے ساری حقیقت آگاہ کر دونگا تم یہ سمجھو تمہاری نوکری پکی اور عظیم کو چھوڑنے اس کے گھر کی طرف گاڑی کا رخ کر لیا حالانکہ عظیم بضد تھا کہ وہ وین میں چلا جائے گا لیکن جاوید نے اس کی ایک نہ سنی اور گاڑی کو عظیم کے بتائے ہوئے راستے کی طرف بڑھا دیا عظیم کا گھر ایک پوش علاقے سے ملحقہ آبادی میں تھا عظیم اپنے گھر کی بدحالی ابھی جاوید پر واضح نہیں کرنا چاہتا تھا مگر وہ جاوید کی بات کے آگے بے بس ہو گیا گاڑی کے گلی میں مڑتے ہی عظیم کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی سارے محلے والے عظیم کو اتنی شاندار گاڑی میں دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال جواب کرنے لگے عظیم کے کہنے پر جاوید نے گاڑی کو ایک گھر کے سامنے روک دیا اور جلدی سے دو ہزار روپے نکال کر عظیم کی سامنے والی جیب میں ٹھونس دیئے اور اشارے سے چپ رہنے کا کہا عظیم نے کہا جاوید بھائی لیکن جاوید نے عظیم کا منہ ہاتھ رکھ کر بند کر دیا اور کہا یہ قرض ہے جب پہلی تنخواہ ملے تو لوٹا دینا اتنی دیر میں گاڑی رکنے کی آواز سن کر فرزانہ دروازہ کھول چکی تھی فرزانہ کی پہلی نظر جاوید پر پڑی اور جاوید نے بھی اسی وقت مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا شائد وہ کچھ دیر اور وہ اسی مست نظارے میں کھویا رہتا لیکن عظیم کی آوا ز نے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا جاوید بھائی آئیں چائے پی کر جائیں نین نہیں جاوید نے معذرت کی اور کہا ابھی مجھے ایک دو ضروری کام نپٹانے ہیں پھر کبھی سہی اور کن آکھیوں سے دروازے کی طرف دیکھا مگر فرزانہ تب تک دروازے سے ہٹ گئی تھی عظیم کے اترنے کے بعد جاوید نے گاڑی آگے بڑھا دی اور وہ ابھی تک فرزانہ ہی کے بارے میں سوچ رہا تھا فرازنہ کا حسن جاوید کے دل میں گھر کرگیا شائد اس کے چہرے کی معصومیت تھی یا اس کا قدرتی حسن تھا جو کبھی بھی بناؤ سنگار کی مشق سے نہیں گزرا تھا کچھ تھا جو ابھی جاوید کی سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا حالانکہ جاوید کی زندگی جس ڈگر پر تھی اس میں لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں تھی مگر وہ سب کچھ مصنوعی تھا جاوید نے کبھی اسطرح سے نہیں سوچا تھا گاڑی پوری رفتار سے چلی جارہی تھی اس سے بھی تیز رفتاری سے جاوید کے دماغ میں فرزانہ گھوم رہی تھی
گھر میں داخل ہوتے ہی ماں اور بہن نے خوشی اورخوف کے ملے جلے تاثرات سے عظیم کا استقبال کیا اور پوچھا آج اتنی جلدی گھر لوٹ آئے ۔کیونکہ جب سے عظیم نے نوکری کی تلاش شروع کی تھی اسے گھر آتے آتے رات ہو جاتی تھی فرزانہ نے بھی محتاط انداز میں جاوید کے بارے میں پوچھا فرزانہ کے دل میں جاوید کے دیکھنے کا انداز چھب سا گیا تھا تاہم وہ جس کلاس کی لڑکی تھی اس میں ایسی کسی بات کی گنجائش نہیں تھی اس کلاس کی لڑکیاں شہزادوں کے خواب تو دیکھ سکتی تھیں مگر وہ پورے کبھی نہیں ہو سکتے تھے عظیم نے ماں کو اپنی ہونے والی جاب کے متعلق مبہم سے انداز میں بتانا شروع کیا کیونکہ زیادہ تو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اس لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔