نیرنگ خیال
لائبریرین
چونکہ یہ کوئی باقاعدہ تحریر نہیں ہے۔ اس لیے اس سے مایوس ہوا جا سکتا ہے۔ فلک شیر بھائی کے ایک کیفیت نامے پر میرا تبصرہ
ہمارے روز مرہ میں جو کچھ بھی ہوتا ہے جو کچھ بھی چلتا ہے، اس میں بقاء صرف کہانی کی ہے۔ وہ واقعات، وہ حادثے، وہ قصے جو کہانیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں زندہ رہتے ہیں۔ باقی سب پر وقت دھول ڈال دیتا ہے۔ کہانی میں اہمیت کہانی سنانے والے کی ہے۔ ایک جنگ کی کہانی ہر سپہ سالار نہیں سنا سکتا۔ وہ کوئی کہانی سنانے والا ہی سنا سکتا ہے۔ قصہ گوئی فن ہے، حافظہ ہے، یادداشت ہے، نوٹ بک ہے ۔ ان رمزوں کی جو کسی نہ کسی طرح زندگی کے کئی پہلوؤں سے جڑی ہیں۔ اور کہانی ہے کیا۔ ایک تنقید ہےبیتے زمانے پر۔ ایک تعریف ہے گزرے لوگوں کی۔ ایک رہنما ہے موجودہ زمانوں کی۔ ہم نے بحثیت انسان جو چیز صدہا سال کے تجربات سے حاصل کی ہے وہ یہی ہے کہ غم کی عمر طویل ہے۔ ایک ہی لطیفہ بار بار نہیں سنایا جا سکتا۔ ایک ہی خوشی کئی بار نہیں منائی جا سکتی۔ لیکن ایک ہی غم کئی بار سنا جا سکتا ہے۔ سنا جاتا ہے۔ اور ہر بار یہ پیوستہ کہانی کے غم میں شامل ہو کر ایک نئی شدت اختیار کرتا ہے اور چلتا رہتا ہے۔بات اداس نسلوں کی نہیں ہے۔ بات خدا کی بستی کی نہیں ہے۔ بات ہے کہانی کی۔ اس کہانی کی جو آپ کو ایسے سنائی جائے کہ آپ کسی تار کو چھیڑ دے۔ آپ خود کو اس سے مربوط سمجھیں۔ ایسی کہانیاں صدیوں سنائی اور سنی جا سکتی ہیں۔ گاہ انسان ایسی کہانیوں سے خود کو جڑا نہیں سمجھتا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کہانی کی اثر انگیزی کم ہے۔ اس کی کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کبھی آپ اس کیفیت سے نہیں گزرے ہوتے جہاں قصہ آپ کو لے جاتا ہے اور آپ کو یہ کسی گزری دنیا کی داستاں لگتی ہے۔ اور کبھی آپ ذہنی طور پر اس قدر زرخیز نہیں ہوتے کہ کہانی کے منظر سے خود کو جوڑ کر سفر کر سکیں۔ نتیجتاً آپ تھکنے لگتے ہیں۔ یہ سفر آپ کو بوجھل اور نظارے آپ کو بار لگتے ہیں۔ اور کبھی کہانی متروک ہوجاتی ہے۔ جب قدریں بدل جائیں تو بھی کہانیاں متروک ہوجاتی ہیں۔ ہم ہمیشہ اپنے غم پر نہیں رو سکتے۔ کبھی کبھار رونے کو ہمیں دوسروں کا غم بھی چاہیے ہوتا ہے۔ اور یہ وہی غم ہے جو زندہ کہانیاں وجود میں لاتا ہے۔ ہمارے سفر کو صدیوں تک لے جاتا ہے۔
ہمارے روز مرہ میں جو کچھ بھی ہوتا ہے جو کچھ بھی چلتا ہے، اس میں بقاء صرف کہانی کی ہے۔ وہ واقعات، وہ حادثے، وہ قصے جو کہانیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں زندہ رہتے ہیں۔ باقی سب پر وقت دھول ڈال دیتا ہے۔ کہانی میں اہمیت کہانی سنانے والے کی ہے۔ ایک جنگ کی کہانی ہر سپہ سالار نہیں سنا سکتا۔ وہ کوئی کہانی سنانے والا ہی سنا سکتا ہے۔ قصہ گوئی فن ہے، حافظہ ہے، یادداشت ہے، نوٹ بک ہے ۔ ان رمزوں کی جو کسی نہ کسی طرح زندگی کے کئی پہلوؤں سے جڑی ہیں۔ اور کہانی ہے کیا۔ ایک تنقید ہےبیتے زمانے پر۔ ایک تعریف ہے گزرے لوگوں کی۔ ایک رہنما ہے موجودہ زمانوں کی۔ ہم نے بحثیت انسان جو چیز صدہا سال کے تجربات سے حاصل کی ہے وہ یہی ہے کہ غم کی عمر طویل ہے۔ ایک ہی لطیفہ بار بار نہیں سنایا جا سکتا۔ ایک ہی خوشی کئی بار نہیں منائی جا سکتی۔ لیکن ایک ہی غم کئی بار سنا جا سکتا ہے۔ سنا جاتا ہے۔ اور ہر بار یہ پیوستہ کہانی کے غم میں شامل ہو کر ایک نئی شدت اختیار کرتا ہے اور چلتا رہتا ہے۔بات اداس نسلوں کی نہیں ہے۔ بات خدا کی بستی کی نہیں ہے۔ بات ہے کہانی کی۔ اس کہانی کی جو آپ کو ایسے سنائی جائے کہ آپ کسی تار کو چھیڑ دے۔ آپ خود کو اس سے مربوط سمجھیں۔ ایسی کہانیاں صدیوں سنائی اور سنی جا سکتی ہیں۔ گاہ انسان ایسی کہانیوں سے خود کو جڑا نہیں سمجھتا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس کہانی کی اثر انگیزی کم ہے۔ اس کی کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کبھی آپ اس کیفیت سے نہیں گزرے ہوتے جہاں قصہ آپ کو لے جاتا ہے اور آپ کو یہ کسی گزری دنیا کی داستاں لگتی ہے۔ اور کبھی آپ ذہنی طور پر اس قدر زرخیز نہیں ہوتے کہ کہانی کے منظر سے خود کو جوڑ کر سفر کر سکیں۔ نتیجتاً آپ تھکنے لگتے ہیں۔ یہ سفر آپ کو بوجھل اور نظارے آپ کو بار لگتے ہیں۔ اور کبھی کہانی متروک ہوجاتی ہے۔ جب قدریں بدل جائیں تو بھی کہانیاں متروک ہوجاتی ہیں۔ ہم ہمیشہ اپنے غم پر نہیں رو سکتے۔ کبھی کبھار رونے کو ہمیں دوسروں کا غم بھی چاہیے ہوتا ہے۔ اور یہ وہی غم ہے جو زندہ کہانیاں وجود میں لاتا ہے۔ ہمارے سفر کو صدیوں تک لے جاتا ہے۔