کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

عدمؔ مرحوم کا یہ مصرع ویسے تو حسینوں سے خطاب پر مبنی ہے اور حسن سے ہمارا تعلق بڑا معکوس قسم کا، یعنی عاشقی کا ہے۔ مگر سوچ بچار سے طے ہوا کہ افسانوں کی دور رسی کا اس سے بہتر اظہاریہ ہمارے بعد عدمؔ کے علاوہ کسی اور نے شاید نہیں پیش کیا۔ لہٰذا عنوان یہی قرار دیا۔
تو صاحب، بات یہی ہے کہ ہمارے فسانے بھی ہمارے تصور سے زیادہ آگے نکل گئے ہیں۔
انکل سام کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے زمانے کی کشتی کے ناخدا ہیں خیر سے۔ ان کے فدائین بھی ان سے محجوب اور اعدا بھی ان کے گرفتار۔
کسے نماند کہ دیگر بہ تیغِ ناز کشی​
خبر یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سائنسی اور تکنیکی معلومات کے دفتر سے ایک کتابچہ شائع ہوا ہے جس کا آغاز عزت مآب حکیمِ خِطائی کنفیوشس کے قول سے کیا گیا ہے اور اختتام......
اختتام آپ کے اپنے راحیل فاروق کے ایک مقولے سے۔ تالیاں!!!
وہ مقولہ اردو میں کچھ یوں ہے:
"قابلِ پیش گوئی ہونے کا مفہوم یہ نہیں کہ چیزیں کیسے ہوں گی بلکہ فقط یہ ہے کہ کیسے ہو سکتی ہیں۔"
ہمارا یہ خیال اور بھی کئی جگہوں پر مستند علمائے مغرب نقل کر چکے ہیں مگر انکل سام کی زبانی اپنی کہانی سننے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ کتابچے کا موضوع غالباً کوئی ریاضیاتی یا تجزیاتی سائنس ہے جس کا فہم ہمیں بالکل حاصل نہیں۔ کاش ہم بھی پڑھے لکھے ہوتے!
یہ کتابچہ اس پتے پر خاص و عام کے لیے دستیاب ہے:
http://www.osti.gov/scitech/servlets/purl/1241667
اب یہ بات ہم آپ کو بھی نہ بتائیں تو اور کسے بتائیں؟ بتائیے ذرا؟ :):in-love:
 

یوسف سلطان

محفلین
اختتام آپ کے اپنے راحیل فاروق کے ایک مقولے سے۔ تالیاں!!!
وہ مقولہ اردو میں کچھ یوں ہے:
"قابلِ پیش گوئی ہونے کا مفہوم یہ نہیں کہ چیزیں کیسے ہوں گی بلکہ فقط یہ ہے کہ کیسے ہو سکتی ہیں۔"
:applause::applause::applause:
ماشاء اللہ ۔ مبارک ہو آپ کو ۔۔
اللہ پاک مزید ترقی عطا فرمائے آمین
 

زیک

مسافر
یہ تو کانفرنس پریزنٹیشن ہے۔

آپ کے اس قولِ زریں کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟ آپ نے کب، کیوں، کیسے اور کہاں یہ کہا تھا؟
 
یہ تو کانفرنس پریزنٹیشن ہے۔
جی واقعی۔ میں نے ابھی دیکھا تو معلوم ہوا۔
یہ پریزنٹیشن امریکہ کے ایک سرکاری تحقیقاتی ادارے سینڈیا نیشنل لیبارٹریز، نیو میکسکو کے کچھ افسران کی جانب کسی نیوکلئیر کوڈ ڈیولپمنٹ کانفرنس کے موقع پر دی گئی تھی اور امسال مارچ سے یو ایس آفس آف سائنٹفک اینڈ ٹیکنیکل انفارمیشن کی ویب سائٹ پر مشتہر کر دی گئی ہے۔
آپ کے اس قولِ زریں کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟ آپ نے کب، کیوں، کیسے اور کہاں یہ کہا تھا؟
میں کچھ عرصہ مختلف الم غلم موضوعات پر بلاگنگ کرتا رہا ہوں۔ میرا ارادہ تھا کہ چیدہ چیدہ مضامین کو ایک ای بک کی شکل میں شائع بھی کیا جائے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
ان مضامین کے کچھ معنیٰ خیز اور پھڑکتے ہوئے جملے میری گڈ ریڈز آتھر پروفائل پر موجود ہیں۔ یہاں سے مختلف ویب سائٹس اور ادارے انھیں نقل کرتے ہیں۔ ایس ای او سے لے کر نفسیات تک، اور تجزیے سے لے کر تشکر تک مختلف مقولے اوریلی میڈیا وغیرہ تک کی مطبوعات میں آ چکے ہیں۔
 

یاز

محفلین
بہت خوب راحیل صاحب۔ مبارک باد قبول فرمائیں۔
امید ہے کہ آپ یونہی کامیابی اور ترقی کی منازل طے کرتے رہیں گے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ماشاءاللہ! ماشاءاللہ! :)

بہت بہت مبارک ہو راحیل بھائی!

اللہ تعالیٰ مزید برکت عطا فرمائےآپ کے علم میں۔ (آمین)
 

طالب سحر

محفلین
وہ مقولہ اردو میں کچھ یوں ہے:
"قابلِ پیش گوئی ہونے کا مفہوم یہ نہیں کہ چیزیں کیسے ہوں گی بلکہ فقط یہ ہے کہ کیسے ہو سکتی ہیں۔"
"Predictability is not how things will go, but how they can go."
بہت خوب- زیک کی طرح میں بھی یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچے۔ بس دکھ کی بات یہ ہے کہ بظاہر آپ کا قول ہمارے مرشد حضرت مرفی علیہ الرحمہ کے آزمودہ قول سے مطابقت نہیں رکھتا ہے- حضرت نے فرمایا:
Anything that can go wrong, will go wrong.
 
بہت خوب- زیک کی طرح میں بھی یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچے۔ بس دکھ کی بات یہ ہے کہ بظاہر آپ کا قول ہمارے مرشد حضرت مرفی علیہ الرحمہ کے آزمودہ قول سے مطابقت نہیں رکھتا ہے- حضرت نے فرمایا:
نہ صرف آزمودہ قول بلکہ ایک قانون بھی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
واہ بھئی واہ!
ماشاءاللہ۔
زبردست۔
اللہ اپنی رحمتوں کے سائے نازل فرمائے۔
اللہ کامیابیاں اور آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین!
 
سب بھائی بہنوں کا بہت بہت شکریہ۔
اللہ آپ سب کی دعائیں میرے حق میں اور میری آپ سب کے حق میں قبول فرمائے۔
آمین۔
بہت بہت مبارک ہو راحیل بھائی۔ ویسے آپ نے کیا پریڈکٹ کیا تھا کہ آپ کے اقوال کہاں تک پہنچیں گے؟
ریحان بھائی، مجھے یہ تو احساس تھا کہ میرے نتائجَ فکر معمولی نہیں ہیں۔ مگر جب زمانے کے ہاتھوں اپنی اور اپنے خیالات کی بے نہایت ناقدری ہوتے دیکھی تو یہ سوچ پیدا ہوئی کہ شاید میں بھی اور بہت سے دیوانوں کی طرح خوش فہمیوں کا شکار ہوں۔ گو کہ حالات ہنوز وہی ہیں، مگر للہ الحمد کہ امریکی سائنس دانوں نے میری اس رائے کو نقل کر کے گویا ایک ناقابلِ تردید ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ واجبی تعلیم، وسائل کے فقدان اور انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ذہن کی جولانیاں رنگ لا سکتی ہیں۔
زیک کی طرح میں بھی یہ جاننا چاہوں گا کہ آپ اس نتیجے پر کیسے پہنچے۔
جس شخص کو خواب دیکھنے کی عادت ہو اسے امکان سے دلچسپی پیدا ہو ہی جاتی ہے۔
میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ اگر اس ارتقا کو سادہ لفظوں میں بیان کروں تو مجھے رفتہ رفتہ یہ احساس ہوا کہ 99 فیصد امکان کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مقصود حاصل ہو کر رہے گا (حق تو یہ ہے کہ وسیع تر معنوں میں 100 فیصد کا بھی یہ مطلب نہیں)۔ عین ممکن ہے کہ 1 فیصد امکان رکھنے والا واقعہ پیش آ جائے۔ کیونکہ کسی وقوعے کے ظہور میں کارفرما عوامل کا کلی ادراک ممکن نہیں۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دو مظاہر جن کے ظہور کے امکانات 99 فیصد اور 1 فیصد ہوں، کسی خاص موقع کے لیے درحقیقت 50، 50 فیصد امکان ہی رکھتے ہیں۔ 99 فیصد امکان کا مطلب فقط اس قدر ہے کہ ماضی میں 100 میں سے 99 واقعات میں اس طرح کے حالات پیش آئے۔ مگر ماضی حال کی ضمانت تو پھر بھی کسی قدر دے سکتا ہے، مستقبل کی ہرگز نہیں۔
پیش گوئی کے معاملات میں میری دلچسپی معاشیات اور سیاسیات سے لے کر مذہب اور سائنس تک رہی۔ اگر آپ میری بات پر یقین کریں اور مجھے ایک کٹھ ملا خیال نہ کریں تو میں عرض کروں گا کہ اکابرینِ مذہب کے ہاں امکانات کا جیسا وسیع ادراک پایا جاتا ہے، اس کا عشرِ عشیر بھی جدید سائنس اور عقلیات کے لیے ممکن نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ مذہبی لوگ مستقبل کو سائنس کی طرح ماضی کے تجربات کی روشنی میں دیکھنے کی بجائے حال کی کیفیت میں دیکھتے ہیں۔ سائنس یہ کام نہیں کر سکتی۔ سائنس کے لیے ہنوز ممکن نہیں ہو سکا کہ لمحۂِ موجود جیسی متغیر اکائی سے نتائج کا استنباط کر سکے۔ اگر آپ 'حال' کے صوفیانہ اور سریانہ معانی کا ادراک بھی رکھتے ہیں تو یقیناً میری بات بہت بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
بس دکھ کی بات یہ ہے کہ بظاہر آپ کا قول ہمارے مرشد حضرت مرفی علیہ الرحمہ کے آزمودہ قول سے مطابقت نہیں رکھتا ہے-
آپ نے ان کا خیال پڑھا ہے، میں نے بھگتنے میں عمر گزاری ہے۔ :laughing::laughing::laughing:
میری رائے ہرگز ان سے متضاد نہیں۔ مگر انھوں نے فطرت کے ایک بالکل ہی مختلف قاعدے کی جانب توجہ دلائی ہے۔ جس کی توجیہ شاید انٹروپی کی مابعد الطبیعیات اور تکوین سے متعلق مذہبی روایات میں ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا کہنے مرشد۔۔۔۔ یوں تو ہماری پرستاری اس ستاری سے کچھ لین دین نہیں رکھتی لیکن اڑتا پیر دیکھ کر دل کو اور بھی تسکین ہوتی ہے۔ اللہ تعالی علم و عمل میں برکات عطا فرمائے اور کچھ حصہ ہم غرباء تک بھی پہنچائے۔
 
Top