حبیب جالب کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری

سیما علی

لائبریرین
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقریریں ہماری

وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا

بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو

گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے

یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا
سر محنت کشاں پر تاج ہوگا

نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی

نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنیں گی رشک جنت یہ زمینیں

کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا

لٹی ہر گام پر امید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی

مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورت حالات اب تک

دل جب ملک کی حالت زار دیکھ دکھی ہو تو جالب صاحب یاد آتے ہیں۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
جالب کی طرز میں شاعری کرنا مشکل نہیں اصل مشکل ایسے اشعار کو پبلک کرنا اور انھیں اون کرنا ہے ۔
اس فن میں جالب تنہا نظر آتے ہیں ۔ان کی کتاب جالب بیتی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ ان کو مشاعرے میں جس نظم کے پڑھنے سے روکا جاتا یہ وہی پڑھتے اور وہیں پڑھتے ،دھڑلے سے پڑھتے اور پھر اس پڑھنے کا خمیازہ بھی بھگتتے۔
 

سیما علی

لائبریرین
۔ان کی کتاب جالب بیتی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ ان کو مشاعرے میں جس نظم کے پڑھنے سے روکا جاتا یہ وہی پڑھتے اور وہیں پڑھتے ،دھڑلے سے پڑھتے اور پھر اس پڑھنے کا خمیازہ بھی بھگتتے۔
اب تو بھٹو خاندان کے حوالے سے پانچ دہائی پہلے لکھی جانے والی نظم ”لاڑکانہ چلو“ کا حوالہ بھٹو صاحب کے حوالے سے شہرت پانے والی اس نظم کا تعلق بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو سے نہیں اُنکے ٹیلنٹڈ کزن اور اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو سے تھا۔ اپنی کتاب ”جالب جالب“ میں اس نظم کے حوالے سے تفصیل یہ ہے
غالباً 1974 تھا۔ جالب صاحب ایک مشاعرے میں کراچی آئے تو ہم طلباءنے شام کو انہیں گھر بلایا کہ آج کونسی نئی نظم مشاعرے میں سنانے جا رہے ہیں۔ جالب صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ”لاڑکانے چلو۔۔ ورنہ تھانے چلو“۔ ہم نے مزید مصرعے سننا چاہے تو کہا رات کو مشاعرے میں۔ کٹرک ہال میں مشاعرہ اپنے شباب پر پہنچا۔ جالب صاحب یہ نظم بعد میں سنانا چاہتے تھے کہ عموماً اُن دنوں وہ اپنی نظم ”دستور“ سے پڑھنے کا آغاز کرتے تھے۔۔لیکن سارے مجمع نے لاڑکانے چلوؤرنہ تھانے چلو کی آوازیں لگانا شروع کیں ۔۔
جالب صاحب مائک پر آئے ہزاروں کا مجمع جالب صاحب کی نظم کا مصرعہ پڑھ رہا تھا”لاڑکانے چلو۔ لاڑکانے چلو“۔ جالب صاحب ہر نظم سے پہلے اُس کا پس منظر ضرور بتاتے۔ کہنے لگے۔ لاہور میں تھا کہ ممتاز ٹی وی اینکر طارق عزیز کا فون آیا کہ لاڑکانہ میں شاہ ایران آئے ہوئے تھے۔ اُس وقت کی مشہور اداکارہ ”نیلو“ کو حکم ہوا کہ لاڑکانہ پہنچو تاکہ شاہ کے دربار میں رقص و سرور کی محفل کو چار چاند لگیں۔ یوں جالب صاحب کا کہنا تھا طارق عزیز کی تقریر جاری تھی۔ میری نظم تیار ہو رہی تھی۔
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
حاکموں کو بہت تم پسند آئی ہو
ذہن پر چھائی ہو
جسم کی لو سے شمع جلانے چلو
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
اس زمانے میں ٹی وی اور سوشل میڈیا تو تھا نہیں۔ اخبارات تو شائع ہونے کا سوال ہی نہیں تھا مگر سینہ بہ سینہ سارے ملک میں یہ نظم پھیل گئی اور آج پچاس سال بعد بھی یہ زندہ ہے اور پیپلز پارٹی کے ماضی کی تاریخ اور سیاست پر ایک ایسی ”پھبتی“ بن چکی ہے جس پر پی پی کی آج کی قیادت تک شرمندہ ہوتی ہے۔۔۔تو انکے ہر شعر کا ایک پس منظر جس کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے ۔۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ان کی ایک اور نظم کا پس منظر پڑھیے:

جمیلہ نور افشاں، بھائی حبیب جالب کی بڑی بیٹی، جالب بھائی کو اپنی اس بیٹی سے بہت پیار تھا، حبیب جالب کو بڑا شاعر تسلیم کروانے میں اس بچی کا بھی حصہ ہے یہ واقعہ ہے 1967کا۔ بھائی جالب کی شہرہ آفاق کتاب ’’سر مقتل‘‘ شایع ہوچکی تھی۔ اکتوبر1966میں اس کتاب کا پہلا ایڈیشن چھپا۔ پھر پونے دوماہ میں اس کتاب کے سات ایڈیشن شایع ہوئے، نومبر1966کے آخری ہفتے میں جنرل ایوب خان کی حکومت نے کتاب پر پابندی لگادی، کتاب کے پبلیشر مکتبہ کارواں کے چوہدری عبدالحمید کو گرفتار کرلیا، پریس میں موجود زیر طبع ایڈیشن ضبط کرلیے اور پریس کو سیل کردیا۔ جنرل کے مخالفوں اور آزادی کے متوالوں نے پورے ملک میں سر مقتل کو خفیہ چھاپہ خانوں میں چھاپ چھاپ کر پھیلادیا۔ خیر چند دنوں بعد جالب صاحب کو بھی ’’یوم حمید نظامی‘‘ پر نظم ’’چھ ستمبر‘‘ سنانے پر گرفتار کرلیا گیا، اس جلسے کی صدارت ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اور اسٹیج سیکریٹری شورش کاشمیری تھے۔

جالب صاحب پولیس کی گرفت میں تھے اور انھیں ہتھکڑی لگا کر پولیس ان کے گھر لے آئی، پولیس کا کہنا تھا کہ ضبط شدہ کتاب گھر میں موجود ہے اور مخبر نے بڑی پکی خبر پولیس کو دی تھی۔ کیونکہ پولیس اسی الماری کی طرف لپکی جہاں کتابیں پڑی تھیں، ہماری بھابی نے پولیس کو آتا دیکھ کر کتابوں کا بنڈل نیچے مالک مکان کے صحن میں پھینک دیا، اور انھوں نے کتابوں کو کہیں اور منتقل کردیا۔ جمیلہ نورافشاں اس وقت دو سال کی بچی تھی۔ وہ ماں کی گود سے باپ کی گود میں جانے کے لیے بے قرار ہورہی تھی۔ شاعر نے اپنی بچی کو اٹھالیا اور بچی نے باپ کے ہاتھوں میں بندھی ہتھکڑی سے کھیلنا شروع کردیا۔ بچی ہتھکڑی سے کھیل رہی تھی اور باب کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہی تھی اور یوں شاعر نے ایک چھوٹی سی مگر بہت بڑی نظم کہہ ڈالی ،تین اشعار کی نظم دیکھئے۔


میری بچی

اس کو شاید کھلونا لگی ہتھکڑی

میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی

یہ ہنسی تھی، سحر کی بشارت مجھے

یہ ہنسی دے گئی کتنی طاقت مجھے

کس قدر زندگی کو سہارا ملا

ایک تابندہ کل کا اشارا ملا
 

سیما علی

لائبریرین
اس فن میں جالب تنہا نظر آتے ہیں ۔ان کی کتاب جالب بیتی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ ان کو مشاعرے میں جس نظم کے پڑھنے سے روکا جاتا یہ وہی پڑھتے اور وہیں پڑھتے ،دھڑلے سے پڑھتے اور پھر اس پڑھنے کا خمیازہ بھی بھگتتے۔
حبیب جالب ہر دور میں حکمرانوں کے ناپسندیدہ رہے، وہ فوجی حکمرانوں کے دور میں بھی ناپسندیدہ تھے اور سیاسی حکومتوں کے دور میں بھی ناپسندیدہ تھے۔ وہ کسی سے بھی خوش نہیں تھے کیونکہ حکومت میں آنے سے پہلے یا حکومت میں آنے کے فوری بعد کے بیانات کچھ اور ہوتے اور حکومت میں کچھ عرصہ گذارنے کے بعد حکمرانوں کے حالات تو بدل جاتے لیکن عام آدمی ننگے پاؤں ہی پھرتا تھا۔ مجھے وہ اس لیے بھی پسند ہیں کہ وہ جرات اظہار رکھتے تھے، جرات انکار رکھتے تھے، وہ حق بات کرتے تھے، ڈنکے کی چوٹ پر کرتے تھے، وہ حکمرانوں کو آئینہ دکھاتے تھے، وہ تعلقات بنانے کے لیے شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت انہیں عطاء کی تھی وہ اس نعمت میں کوئی خیانت کیے بغیر اسے عوام تک پہنچاتے تھے۔ کوڑے کھائے، ڈنڈے کھائے، بدسلوکی برداشت کی، جیلیں کاٹیں لیکن حق کا راستہ نہ چھوڑا، سچ کہنے سے باز نہیں آئے، گھبرائے نہیں لڑکھڑائے نہیں۔ مشکلات کا سامنا کرتے رہے اور عوام کا مقدمہ لڑتے رہے۔ جن لوگوں نے انہیں دیکھا ہے یا ان کے ساتھ کام کیا ہے، یا انہیں مشاعرہ پڑھتے سنا ہے وہ تو حبیب جالب کی جرات، بہادری اور حق گوئی کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ درحقیقت ادب، سائنس، تعلیم سے تعلق رکھنے والے ہیروز کو ان کا جائز مقام نہیں مل سکا۔۔۔۔
میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزیر ہیں سارے ہی بے ضمیر ہیں
میں انکا بھی امام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں پسر شاہنواز ہوں میں پدر بے نظیر ہوں
میں نکسن کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پیر ہوں میں لکھ پتی فقیر ہوں
وہسکی بھرا ایک جام ہوں میں قائد عوام ہوں
سنو اے محبان وطن رہنے نہ دونگا مہکتا چمن
میں موت کا پیغام ہوں میں قائد عوام ہوں
میری زبان ہے بے کمال لڑتا ہوں میں ہزار سال
میں اندرا کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
ہیں قادیانی میری جان نہ فکر کر تو مسلمان
میں قاتل اسلام ہوں میں قائد عوام ہوں
جالب صاحب بہادر تھے کیونکہ ان کا کوئی مفاد نہیں تھا ان کا مفاد صرف پاکستان اور عام آدمی تھا اس لیے وہ کبھی نہیں گھبرائے کیونکہ وہ دنیا میں پیسہ کمانے نہیں آئے تھے بلکہ وہ پاکستانیوں کو یہ پیغام دینے آئے تھے کہ ملک سے محبت کرو، عام آدمی اور مظلوم کا ساتھ دو حکمرانوں کا آئینہ دکھاؤ، ساری عمر انہوں نے یہی کام کیا۔
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گْہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہْما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گْھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رْسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائیں گے سب پروردہ شب ، اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
دستور آج بھی حکمرانوں کا ہے، انہی کے لیے سہولیات ہیں، انہیں کے لیے آسائشیں ہیں، انہی کے لیے قانون ہے، انہی کیلئے قانون سازی ہے۔۔۔۔
حکمرانوں کو للکارنے کی جرات حبیب جالب کو اللہ نے عطاء کی تھی۔ یہ سچ کی طاقت تھی اور وہ سچ کو عام کرتے رہے۔۔۔۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ہم حق گوئی کو بھی فرمائشی پروگرام سمجھتے ہیں یعنی جب ہمارے مخالفوں کے خلاف ہو تو سر دھنتے ہیں اور جب ہماری پارٹی کے خلاف ہو تو حق گویوں سے روٹھ جاتے ہیں ۔کاش حبیب جالب اور جی جاتے تو: مظلوموں کے ساتھی :کو بھی رگڑ دیتے تب بہت سے لوگ نالاں ہو جاتے۔
مجھے وہ اس لیے بھی پسند ہیں کہ وہ جرات اظہار رکھتے تھے، جرات انکار رکھتے تھے، وہ حق بات کرتے تھے، ڈنکے کی چوٹ پر کرتے تھے،
بس اب آپ ان کے نقش قدم اپنائیں اور ہر ایک سے متفق نہ ہو جایا کریں۔
ہیں قادیانی میری جان نہ فکر کر تو مسلمان
میں قاتل اسلام ہوں میں قائد عوام ہوں
وقت نے ثابت کیا یہ شعر محض جذباتی تھا ورنہ امید ہے کہ وہ ایک نیک کام بھٹوکی بخشش کا سامان ہو جائے جس کے متعلق خودانھوں نے کہاتھا کہ یہ میں اپنے موت کے پروانے پہ دستخط کر رہا ہوں۔واللہ اعلم بالصواب۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہم حق گوئی کو بھی فرمائشی پروگرام سمجھتے ہیں یعنی جب ہمارے مخالفوں کے خلاف ہو تو سر دھنتے ہیں اور جب ہماری پارٹی کے خلاف ہو تو حق گویوں سے روٹھ جاتے ہیں ۔کاش حبیب جالب اور جی جاتے تو: مظلوموں کے ساتھی :کو بھی رگڑ دیتے تب بہت سے لوگ نالاں ہو جاتے۔
ایسا نہیں ہے ہم نے سروس میں رہتے ہوئے ۔۔۔ہمارے ایک سیئنر جو باس بھی تھے ۔۔جسکا ہمیں خاصا نقصان اٹھانا پڑا ۔۔اس وقت جب سب انکی ہاں میں ہاں ملاتے نہیں تھکتے۔۔ ہم نے ہائی لیول میٹنگ میں کلمۂ حق بلند کیا ۔۔ کیونکہ انھوں نے آپﷺ کی شان میں گستاخی کی ۔بڑی ڑی باتیں کرنے والے لوگ یہ جرات نہ کرسکے پر ہم نے میٹنگ چھوڑ دی ۔۔۔ کہ ایمان کے سب سے کمزور درجہ ہر فائز رہنے کا درجہ بھی ہم سے نہ چھین لیا جائے ۔۔۔وہ تو یعنی ہمارے باس تو Atheist ہیں۔تو وہ رہیں اپنے عقیدے پہ ۔۔۔پر ہم سے ہمارا کمزور درجے کا مسلمان ہونا تو نہ چھینیں۔۔۔
پردورگار کے حضور یہ دعا ہے کہ روز حشر آپﷺ سامنے بچا لیں ۔۔۔آمین
 
Top