اس فن میں جالب تنہا نظر آتے ہیں ۔ان کی کتاب جالب بیتی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ ان کو مشاعرے میں جس نظم کے پڑھنے سے روکا جاتا یہ وہی پڑھتے اور وہیں پڑھتے ،دھڑلے سے پڑھتے اور پھر اس پڑھنے کا خمیازہ بھی بھگتتے۔
حبیب جالب ہر دور میں حکمرانوں کے ناپسندیدہ رہے، وہ فوجی حکمرانوں کے دور میں بھی ناپسندیدہ تھے اور سیاسی حکومتوں کے دور میں بھی ناپسندیدہ تھے۔ وہ کسی سے بھی خوش نہیں تھے کیونکہ حکومت میں آنے سے پہلے یا حکومت میں آنے کے فوری بعد کے بیانات کچھ اور ہوتے اور حکومت میں کچھ عرصہ گذارنے کے بعد حکمرانوں کے حالات تو بدل جاتے لیکن عام آدمی ننگے پاؤں ہی پھرتا تھا۔ مجھے وہ اس لیے بھی پسند ہیں کہ وہ جرات اظہار رکھتے تھے، جرات انکار رکھتے تھے، وہ حق بات کرتے تھے، ڈنکے کی چوٹ پر کرتے تھے، وہ حکمرانوں کو آئینہ دکھاتے تھے، وہ تعلقات بنانے کے لیے شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت انہیں عطاء کی تھی وہ اس نعمت میں کوئی خیانت کیے بغیر اسے عوام تک پہنچاتے تھے۔ کوڑے کھائے، ڈنڈے کھائے، بدسلوکی برداشت کی، جیلیں کاٹیں لیکن حق کا راستہ نہ چھوڑا، سچ کہنے سے باز نہیں آئے، گھبرائے نہیں لڑکھڑائے نہیں۔ مشکلات کا سامنا کرتے رہے اور عوام کا مقدمہ لڑتے رہے۔ جن لوگوں نے انہیں دیکھا ہے یا ان کے ساتھ کام کیا ہے، یا انہیں مشاعرہ پڑھتے سنا ہے وہ تو حبیب جالب کی جرات، بہادری اور حق گوئی کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ درحقیقت ادب، سائنس، تعلیم سے تعلق رکھنے والے ہیروز کو ان کا جائز مقام نہیں مل سکا۔۔۔۔
میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزیر ہیں سارے ہی بے ضمیر ہیں
میں انکا بھی امام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں پسر شاہنواز ہوں میں پدر بے نظیر ہوں
میں نکسن کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پیر ہوں میں لکھ پتی فقیر ہوں
وہسکی بھرا ایک جام ہوں میں قائد عوام ہوں
سنو اے محبان وطن رہنے نہ دونگا مہکتا چمن
میں موت کا پیغام ہوں میں قائد عوام ہوں
میری زبان ہے بے کمال لڑتا ہوں میں ہزار سال
میں اندرا کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
ہیں قادیانی میری جان نہ فکر کر تو مسلمان
میں قاتل اسلام ہوں میں قائد عوام ہوں
جالب صاحب بہادر تھے کیونکہ ان کا کوئی مفاد نہیں تھا ان کا مفاد صرف پاکستان اور عام آدمی تھا اس لیے وہ کبھی نہیں گھبرائے کیونکہ وہ دنیا میں پیسہ کمانے نہیں آئے تھے بلکہ وہ پاکستانیوں کو یہ پیغام دینے آئے تھے کہ ملک سے محبت کرو، عام آدمی اور مظلوم کا ساتھ دو حکمرانوں کا آئینہ دکھاؤ، ساری عمر انہوں نے یہی کام کیا۔
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گْہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہْما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گْھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رْسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائیں گے سب پروردہ شب ، اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
دستور آج بھی حکمرانوں کا ہے، انہی کے لیے سہولیات ہیں، انہیں کے لیے آسائشیں ہیں، انہی کے لیے قانون ہے، انہی کیلئے قانون سازی ہے۔۔۔۔
حکمرانوں کو للکارنے کی جرات حبیب جالب کو اللہ نے عطاء کی تھی۔ یہ سچ کی طاقت تھی اور وہ سچ کو عام کرتے رہے۔۔۔۔۔