محب اور رضوان ۔۔۔ تم لوگوں کی بہت یاد آرہی ہے ۔ ایک وقت تھا محفل پر تم لوگوں کی موجودگی سے محفل کشتِ زعفران بنی رہتی تھی ۔ اٹھکھیلیوں اور شگوفوں کا ایک طوفان ہوتا تھا ۔ دھاگوں پر رونقیں دوڑ رہیں ہوتیں تھیں ۔حاضر جوابی اور شائستہ وشگفتہ طنزو مزاح کا گویا ایک مقابلہ سا ہوتا تھا ۔ اور بقول محب کے یہ تکون ( محب ، ظفری ، رضوان ) اب کوئی قیامت ہی ڈھائے گی ۔۔اور ساتھ ساتھ شمشاد بھائی کا دستِ شفقت بھی ہم سب کے سروں پر ہوتا تھا وہ اپنی تمام تر ضعیفی کے باوجود بھی ہمارے ساتھ ایک دھاگے سے دوسرے دھاگوں پر خوب چھلانگیں مارا کرتے تھے اور پھر انہوں نے اتنی کثرت سے چھلانگیں ماریں کہ ان کی چھلانگوں کی تعداد 15 ہزار سے بھی تجاویز کر گئیں ۔
مگر جب سے تم اور رضوان محفل سے اپنے سروں کی سینگوں کی طرح غائب ہوئے ہو ۔۔۔ تو اب ان کی بھی آمدورفت میں خلل سا آگیا ہے ۔اور ان کے خطوط کی رفتار میں بھی تعطل پڑا ہے ۔ ایک سازش کے تحت انہیں محفل سے برخاست کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔ اس دوران انہوں نے تم لوگوں کو بہت پکارا ۔۔ مگر جواب ندارد تھا ۔ مجھ پر بھی کئی قندز لگانے کی کوشش کی گئی ۔۔ مگر تم کو تو معلوم ہے کہ میں صدا کا ڈھیٹ ہوں ۔میں باز نہیں آیا ۔
ایک بیچارا قیصرانی ہے جو اب اکثر محفل پر مغرب کے ایک عقل مند پرندے کی طرح غم زدہ نظر آتا ہے ۔ محدب عدسے جیسی عینک کے پیچھے سے اس کی گول گول آنکھوں میں سندھ کی کھنجیر جھیل کا کھارا پانی اس طرح بہتا ہے جیسے کراچی میں کبھی نہ بہنے والے پانی کی پائپ لائن ٹوٹ گئی ہو ۔ کبھی کبھی ہمارے ساتھ پھڑپھڑایا بھی تو کسی نے اس کی دُم پر پاؤں رکھ دیا تو پھر کئی کئی دن اپنے گھونسلے سے باہر نہیں نکلتا تھا ( پتا نہیں اس کا نام بے بی ہاتھی کسی نے کیوں رکھ دیا تھا کہ ہاتھی تو گھونسلے میں رہتے نہیں ) ۔۔ مگر پھر کچھ دنوں بعد اپنی دُم پر پاؤں رکھوانے کسی دھاگہ پر واہ واہ کرتا ہوا مل جاتا تھا کہ واہ بھائی چھا گئے ہو ۔۔۔ اب وہ بھی یہاں اتنا فعال نظر نہیں آتا ۔
بس دوستوں کیا بتاؤں بڑی اداسی ہے ۔۔محفل میں تم لوگو کے بغیر ۔۔۔ اب شمشاد بھائی کی بزرگی ، میری جوانی اور قیصرانی کا بچپن تم لوگوں کی غیر موجودگی میں بلکل غیر موثر ہوکر رہ گیا ہے ۔
بس اب کیا کہوں سوائے اس کے کہ ۔۔۔
“ جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے ۔۔۔۔ جانے کون آس پاس ہوتا ہے “
اب تم دونوں واپس آجاؤ اور خدرا محفل کی رونقیں لوٹا دو ۔
مگر جب سے تم اور رضوان محفل سے اپنے سروں کی سینگوں کی طرح غائب ہوئے ہو ۔۔۔ تو اب ان کی بھی آمدورفت میں خلل سا آگیا ہے ۔اور ان کے خطوط کی رفتار میں بھی تعطل پڑا ہے ۔ ایک سازش کے تحت انہیں محفل سے برخاست کرنے کی کوشش بھی کی گئی ۔ اس دوران انہوں نے تم لوگوں کو بہت پکارا ۔۔ مگر جواب ندارد تھا ۔ مجھ پر بھی کئی قندز لگانے کی کوشش کی گئی ۔۔ مگر تم کو تو معلوم ہے کہ میں صدا کا ڈھیٹ ہوں ۔میں باز نہیں آیا ۔
ایک بیچارا قیصرانی ہے جو اب اکثر محفل پر مغرب کے ایک عقل مند پرندے کی طرح غم زدہ نظر آتا ہے ۔ محدب عدسے جیسی عینک کے پیچھے سے اس کی گول گول آنکھوں میں سندھ کی کھنجیر جھیل کا کھارا پانی اس طرح بہتا ہے جیسے کراچی میں کبھی نہ بہنے والے پانی کی پائپ لائن ٹوٹ گئی ہو ۔ کبھی کبھی ہمارے ساتھ پھڑپھڑایا بھی تو کسی نے اس کی دُم پر پاؤں رکھ دیا تو پھر کئی کئی دن اپنے گھونسلے سے باہر نہیں نکلتا تھا ( پتا نہیں اس کا نام بے بی ہاتھی کسی نے کیوں رکھ دیا تھا کہ ہاتھی تو گھونسلے میں رہتے نہیں ) ۔۔ مگر پھر کچھ دنوں بعد اپنی دُم پر پاؤں رکھوانے کسی دھاگہ پر واہ واہ کرتا ہوا مل جاتا تھا کہ واہ بھائی چھا گئے ہو ۔۔۔ اب وہ بھی یہاں اتنا فعال نظر نہیں آتا ۔
بس دوستوں کیا بتاؤں بڑی اداسی ہے ۔۔محفل میں تم لوگو کے بغیر ۔۔۔ اب شمشاد بھائی کی بزرگی ، میری جوانی اور قیصرانی کا بچپن تم لوگوں کی غیر موجودگی میں بلکل غیر موثر ہوکر رہ گیا ہے ۔
بس اب کیا کہوں سوائے اس کے کہ ۔۔۔
“ جب بھی یہ دل اداس ہوتا ہے ۔۔۔۔ جانے کون آس پاس ہوتا ہے “
اب تم دونوں واپس آجاؤ اور خدرا محفل کی رونقیں لوٹا دو ۔