کہا جاتا ہے

علم کی بنیاد ٹھوس حقائق پر ہے، اور ان حقائق تک رسائی اور ان کا ادراک سے سائنسی علوم وجود میں آئے ہیں۔
تاہم، ہر تحقیق کسی مفروضے، وہم یا تصور سے شروع ہوتی ہے، پھر جستجو کا کٹھن سفر حقائق کی منزل تک پہنچ کر کسی مفروضے کو درست ثابت کرتا ہے یا کوئی نئی حقیقت سامنے لاتا ہے۔ آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے، مگر انسانی برادری کی بہت بڑی تعداد کچھ ایسے تصورات، توہمات اور مفروضوں پر یقین رکھتی ہے، جن کی کوئی حقیقت نہیں۔
ان میں سے بعض توہمات، مفروضے اور تصورات تو وقت کا طویل سفر طے کرکے عام لوگوں کی سطح پر ’’حقیقت‘‘ کی صورت اختیار کر چکے ہیں، جن کے لیے ’’متھ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہاں ہم کچھ ایسی ہی متھس یا مجہول تصورات اور مفروضوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی بابت حقائق پیش کر رہے ہیں۔ یہ تحریر ہماری توجہ اس جانب مبذول کراتی ہے کہ کسی قول یا تصور کے سامنے آنے پر ہمیں اس کے حوالے سے حقائق کی جستجو کرنی چاہیے، کہ علم کا صحیح ذوق یہی ہے۔ آئیے! ان مفروضات اور ان کے بارے میں حقائق جانیں۔
کھاتے ہی تیریے مت
عام خیال: کھانے کے کم از کم 30 منٹ بعد تیراکی کرنا چاہیے
یہ محض ایک نظریہ ہے، جس کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ کھانا کھانے کے بعد خون آنتوں کی جانب زیادہ گردش کرنے لگتا ہے اور دیگر عضلات کے لیے اس کی فراہمی کم ہوجاتی ہے، لہٰذا جسم میں کریمپس پڑنے لگتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی بھرے پیٹ کے ساتھ سوئمنگ پول میں ڈوب کر نہیں مرا ۔ ممکن ہے کہ زیادہ کھانا کھالینے کے بعد آپ تیراکی کے لیے جائیں تو بے چین ہوں، لیکن یہ آپ کے ڈوبنے کا جواز نہیں بن سکتا۔ اگر کسی کو کریمپس کی شکایت ہو بھی جائے تو وہ بہ آسانی ڈوبے بغیر پانی سے باہر آسکتا ہے۔
فضائی سفر اور موبائل فون
عام خیال: فضائی سفر کے دوران موبائل فون کا استعمال جہاز کے رابطے میں مداخلت یا کرش لینڈنگ کا سبب بنتا ہے
ایوی ایشن ادارے 25 برس کے دوران 100 بار متعدد الیکٹرانک آلات استعمال کرکے دیکھ چکے ہیں، لیکن ان کا پرواز اور اس کے رابطے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ اس ضمن میں امریکا ایوی ایشن انتظامیہ کا موقف ہے کہ جہاز کی پرواز میں رابطے کے آلات استعمال سے کسی مداخلت کے شواہد نہیں ملے، لہٰذا ہماری طرف سے سیل فون یا بلیک بیری کا دوران سفر استعمال ممنوع قرار نہیں دیا گیا ہے، بلکہ اس کا فیصلہ ایئرلائنز کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ فضائی سفر کے دوران سیل فون استعمال کرکے فلائٹ کے عملے کو تو پریشان کرسکتے ہیں، لیکن جہاز تباہ ہونے کا سبب نہیں بن سکتے۔ دہائیوں پر محیط آزمائش کے بعد کچھ ایئرلائنز نے اب دوران پرواز مسافروں کو سیل فون استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
بَرہم بڑھاپا
عام خیال: بڑھاپے میں غصہ بڑھ جاتا ہے
تازہ سائنسی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ 30 برس کی عمر کے بعد انسانی شخصیت میں بہت زیادہ تبدیلیاں رونما نہیں ہوتیں، لہٰذا اگر آپ 40 برس کی عمر میں خوش مزاج اور محفل پسند ہیں، تو توقع کی جاسکتی ہے کہ 80 برس کی عمر میں بھی آپ کا رویہ ایسا ہی رہے گا۔ اگرچہ کچھ سن رسیدہ افراد کے مزاج میں تبدیلیاں مشاہدے میں آئی ہیں، لیکن ان کا سبب عمر رفتگی نہیں بلکہ ان کے ذہنی امراض ہوتے ہیں جن میں ڈیمنشیا یا اسٹروک قابل ذکر ہیں۔ اس تحقیق سے وہ افراد زیادہ موثر انداز میں مستفیض ہوسکتے ہیں، جو 30 برس کی عمر کے بعد شریک حیات تلاش کرتے ہیں، کیوںکہ اس عمر میں وہ اپنے پارٹنر کا رویہ دیکھ کر طے کرسکتے ہیں کہ وہ تاحیات کس طرح رہے گا۔
خام مچھلی
عام خیال: ’’سوشی‘‘ ایک خام مچھلی ہے
حقیقت: سوشی سے مراد خام مچھلی نہیں اور تمام سوشی خام مچھلیوں میں شمار بھی نہیں کی جاتیں۔ خام مچھلیوں کے لیے عام طور پر جو جاپانی زبان میں ’’ساشیمی‘‘کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، جب کہ سوشی دراصل چاول پر سرکے کی ڈریسنگ کو کہتے ہیں۔ جاپانی روایات کے مطابق چاول کو خام مچھلی سے سجایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مقصد کے لیے سی فوڈ، مچھلی کے انڈے، مرغی کے انڈے، کھیرے، مولی اور خشک میوہ جات بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ سوشی سے تیار کردہ پکوانوں کو سوشی نہیں بلکہ ماکزوشی کہا جاتا ہے۔
دھنک یا قوس قزح
عام خیال: بارش کے بعد روشنی کی ایک نصف گول پٹی نمودار ہوتی ہے جسے قوس قزح یا دھنک سے موسوم کیا جاتا ہے، روایتی طور پر اس بات اکتفا کیا جاتا ہے کہ روشنی کی اس پٹی یا قوس قزح میں مجموعی طور 7 رنگ موجود ہوتے ہیں۔
مگر صورت حال یہاں بھی مختلف ہے۔ ہم قوس قزح متعلق یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ سرخ، اورنج، زرد، سبز، نیلا، انڈیگو اور بنفشی رنگوں پر مشتمل ہے اور ان کی ترتیب یاد رکھنے کے لیے ایک نام بھی تشکیل دے کررکھا ہے جو Roy G. Biv ہے یعنی، ریڈ، اورنج، یلو(Roy)، گرینG اور بلو، انڈیگو ، وائلٹ(Biv) لیکن حقیقت میں قوس قزح متعدد رنگوں سے بنتی ہے جو 7 سے زیادہ ہیں اس کو سمجھنے کے لیے کوئی خوردبین درکار نہیں بلکہ انسانی آنکھ بھی اس کے مشاہدے کیلیے کافی ہے جس سے دیکھا جائے تو بنفشی پٹی کے نیچے مزید سبز اور دیگر رنگوں کے قوس نظر آئیں گے۔ یاد رہے کہ قوس قزح کے رنگوں کے بارے میں معروف سائنس داں نیوٹن نے کہا تھا کہ ان کی تعداد 5 ہوتی ہے ، اس کے تجزیے میں انڈیگو اور بنفشی رنگ شامل نہیں تھے۔ بعد ازاں ان رنگوں کو بھی قوس قزح میں شمار کیا جانے لگا۔
جسم کی ٹھنڈک
عام خیال: ایک سوچ یہ ہے کہ الکحل کا استعمال انسانی جسم کو گرم کرتا ہے
لیکن تحقیق کی رو سے اس تصور میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ پھر بھی اب تک فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ شراب کا ایک گھونٹ گلے کو تر کرکے سردی کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتا ہے جبکہ سچ تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص مے نوشی کرتا ہے تو اس کے جسم کا درجہ حرارت گر جاتا ہے کیونکہ الکحل کی خاصیت ہے کہ وہ جسم کی مختلف سطحوں کے لیے خون کا بہائو یقینی بناتا ہے۔
لہذا اس صورت حال میں حرارت جسم سے خارج ہوتی ہے۔ اگرچہ پینے والے کو اپنا جسم گرم محسوس ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ شراب کی وجہ درجہ حرارت بڑھنا نہیں بلکہ خون کا جلد کی دبائو ہوتا ہے، جس سے جلد میں موجود حواس گرمی کا محسوس کرتے ہیں اور ذہن کو بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ الکحل انسانی جسم کا درجہ حرارت کم کرتا ہے اس بات کا سب سے پہلے انکشاف 1866 میں سر بی وارڈ رچرڈسن نے کیا تھا۔
زلزلے
عام خیال: چھوٹے زلزلے بڑوں کا راستہ روکتے ہیں
زلزلوں کے حوالے سے نیوزی لینڈ میں ایک بات مشہور ہے کہ چھوٹی نوعیت کے زلزلے زمین پر سے دبائو کم کرکے بڑے زلزلوں کا راستہ روکتے ہیں لیکن اس بات میں صداقت نہیں ہے۔ سسمولوجسٹس 6 شدت کے ہر زلزلے، 5 شدت کے 10، 4 شدت کے 100، 3 شدت کے1000 جبکہ اس سے کم شدت کے ارضی جھٹکوں کا مشاہدہ کیا ، ان کی آوازوں میں مشابہت تھی اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ چھوٹے زلزلوں نے بڑوں کے خلاف قوت مدافعت فراہم کی ہو۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ 6 شدت کا ایک زلزلہ 5 شدت کے 32،4شدت کے1000 اور3 شدت کے 32000 جھٹکوں کے مساوی توانائی رکھتے ہیں۔
آبادی کا پھیلاؤ
عام خیال: کرہِ ارض تشویش ناک حد تک گنجان آباد یا بھر جانے کے قریب ہوگیا ہے
گذشتہ کئی دہائیوں سے بنی نوع انسان میں یہ واہمہ حقیقت کا روپ دھار چکیا ہے کہ دنیا میں آبادی وسائل کے اعتبار سے تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کی بنیاد ایک کلیسائے انگلستان کے ایک وزیر مالتھس کا وہ نظریہ بنا، جس کے تحت انھوں نے کہا تھا کہ آبادی کا پھیلائو انسانی ضروریات سے زیادہ ہے، جس پر ماہرین ماحولیات انسان کو دیگر مخلوقات کے مقابل ضرر رساں تصور کرنے لگے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا اپنی گنجائش کے اعتبار سے بہت وسیع ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک سوال پر غور کرتے ہیں کہ 6 ارب نفوس کے لیے زمین کا کتنا رقبہ درکار ہے؟ اس سلسلے میں ہم کم آبادی والی جاپانی قوم کو دیکھتے ہیں، جو 143ہزار مربع میل کی سرزمین پر رہتی ہے، جو 4 ٹریلین مربع فٹ رقبہ ہے اور اس کے ہر شہری کے مصرف میں اوسط رقبہ اراضی 670 مربع فٹ ہے۔ اسی طرح خاندانوں ایک، دو یا منزلہ عمارت میں تقسیم کیا جائے تو رقبہ اراضی مزید بڑھ جاتا ہے اور اسی کلیے پر زیادہ آبادی والی اقوام کے لیے کھپت پیدا کی جاتی ہے۔ باقی ماندہ جگہ غذائی اشیاء کی پیداوار اور تفریحی مقاصد میں لی جاتی ہے۔
 

مہ جبین

محفلین
معلوماتی مضمون ہے لیکن جو آج مانا جا رہا ہے کل وہ غلط ثابت ہوجائے گا
اسی کا نام علم یا آگہی ہے
 
ایک اور معلوماتی شراکت
ویسے اگر کسی کو "متھز" کے بارے میں جاننا ہے تو ڈسکوری چینل کا پروگرام "متھ بسٹرز" دیکھ لے
ڈسکوری چینل میرا پسندیدہ پروگرام ہے :)
میں ڈسکوری اینمل پلاننٹ اور نیشنل جوگرافک یہ 3 چینل ہی دیکھتا ہوں :)
 
ہاہاہاہاہاہاہاہا
وہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ شکل والا :laughing3:
اس کی بات کر رہا تھا میں
Bear-Grylls-bear-grylls-31945074-2380-2560.jpg
 
Top