اعجاز
محفلین
یکم جون بروز جمعہ
میرے دل میں سمایا کے بس جی بہت ہوگئ۔ لوگ قیصرانی سے ملنے کے لیے یوکے سے چلے آرہے ہیں جبکہ ہم ہیں کے یہی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت، اور پھر بھی ملاقات ندارد۔ ہم اور ہماری سستی۔
آج قدرت نے موقعہ دیا تھا اور میں تمپرے اپنے ایک دوست کی مہندی میں پہنچا تھا (مہندی کی تفصیل وقفہ کے بعد) چنانچہ قریبا رات کے 10 بجے میں نے قیصرانی کو فون کیا۔
ابتدائ مختصر تعارف کے بعد میںنے مدعا بیان کیا اور بتایا کے کل یہاں اہل تمپرے نے ایک ٹریکنگ پلان کیا ہوا ہے اگر مناسب سمجھیں تو رونق بخشیں۔ دل ہی دل میں ہم دعا کررہے تھے کے اللہ کرے قیصرانی کوئ نخرے والے بندے ہوں اور انکار کردیں کیونکہ 15 کلومیٹر بغیر کسی لالچ کے پیدل سفر کرنا کچھ ہمیں بھا نہیں رہا تھا پر انہوں نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور ہامی بھر لی۔ (ہمیں بڑا غصہ آیا)
2 جون بروز سنیچر
مہندی کے فنکشن کے بعد جب ہم 4 یا اسکے بعد سوئے تو ہمیںپتا بھی نا چلا اور 5 یا 7 منٹ بعد کسی نے اٹھا دیا۔ چلو یار تیار ہو جاؤ۔ ابھی نہا کر ناشتہ کا سوچا ہی تھا کے پتا چلا کے بس جی کوئ ناشتہ نہیں کیونکہ جانے کا ٹائم ہوگیا ہے ۔ اگلے ہی لمحے قیصرانی آموجود ہوئے۔ قیصرانی کو دیکھ کر لگا کے ۔۔کچھ نہیں
راستہ شروع ہوا ۔ تھوڑی دیر میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا
ہم ایک آدھ دوسروں کے ساتھ آخری گروپ میں چل رہے تھے اور قیصرانی شاید 1500 میٹر اولمپک کے ہراول دستے میں تھے۔ میںنے قسمت کا لکھا سمجھا اور چلتا رہا ۔ آخر کار کچھ دعائیں رنگ لائیں اور اعلان ہوا کہ تین جی پی ایس نیویگیٹرز کی موجودگی میں ھم لوگ راستہ بھول چکے تھے اور 3 کلومیٹر کا غلط راستہ طے کرلیا تھے۔ چنانچہ واپسی شروع ہوئ اور یہی وہ مقام تھا جہاں ہماری قیصرانی سے صحیح طور پر ملاقات ہوئ۔ ہم نے انکی نوکری اور تمپرے میں رہائش کے متعلق دریافت کیا۔
تمپرے میں موجود نئے پاکستانی چہرے دیکھ کر قیصرانی کی باچھیں کھلی ہوئ تھیں اور وہ وقتا فوقتا لوگوں سے فون نمبر کا تبادلہ کرتے ہوئے پائے گئے۔
(ہمیں بڑی ہوئ)
بڑی ہی جدوجہد کے بعد ہم لوگ منزل پر پہنچ چکے تھے اور وہاں عجیب سی چیزیں کھا کر ہم نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ واپسی پر طالب علموں کے گڑھ میکن تالو پر جمع ہوئے اور نیک خواہشات کے تبادلے کے بعد رخصت ہوئے۔
(سارے دن کی خواری کے بعد شام کو ہمیں بتایا گیا کے سارا فاصلہ کل ملا کر بھی 15 کلومیٹر سے کچھ کم ہی تھا۔ہمیں بڑی حیرانی ہوئ)
ہیلسنکی ۔ مورخہ 17 جون
اعجاز
میرے دل میں سمایا کے بس جی بہت ہوگئ۔ لوگ قیصرانی سے ملنے کے لیے یوکے سے چلے آرہے ہیں جبکہ ہم ہیں کے یہی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت، اور پھر بھی ملاقات ندارد۔ ہم اور ہماری سستی۔
آج قدرت نے موقعہ دیا تھا اور میں تمپرے اپنے ایک دوست کی مہندی میں پہنچا تھا (مہندی کی تفصیل وقفہ کے بعد) چنانچہ قریبا رات کے 10 بجے میں نے قیصرانی کو فون کیا۔
ابتدائ مختصر تعارف کے بعد میںنے مدعا بیان کیا اور بتایا کے کل یہاں اہل تمپرے نے ایک ٹریکنگ پلان کیا ہوا ہے اگر مناسب سمجھیں تو رونق بخشیں۔ دل ہی دل میں ہم دعا کررہے تھے کے اللہ کرے قیصرانی کوئ نخرے والے بندے ہوں اور انکار کردیں کیونکہ 15 کلومیٹر بغیر کسی لالچ کے پیدل سفر کرنا کچھ ہمیں بھا نہیں رہا تھا پر انہوں نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور ہامی بھر لی۔ (ہمیں بڑا غصہ آیا)
2 جون بروز سنیچر
مہندی کے فنکشن کے بعد جب ہم 4 یا اسکے بعد سوئے تو ہمیںپتا بھی نا چلا اور 5 یا 7 منٹ بعد کسی نے اٹھا دیا۔ چلو یار تیار ہو جاؤ۔ ابھی نہا کر ناشتہ کا سوچا ہی تھا کے پتا چلا کے بس جی کوئ ناشتہ نہیں کیونکہ جانے کا ٹائم ہوگیا ہے ۔ اگلے ہی لمحے قیصرانی آموجود ہوئے۔ قیصرانی کو دیکھ کر لگا کے ۔۔کچھ نہیں
راستہ شروع ہوا ۔ تھوڑی دیر میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا
ہم ایک آدھ دوسروں کے ساتھ آخری گروپ میں چل رہے تھے اور قیصرانی شاید 1500 میٹر اولمپک کے ہراول دستے میں تھے۔ میںنے قسمت کا لکھا سمجھا اور چلتا رہا ۔ آخر کار کچھ دعائیں رنگ لائیں اور اعلان ہوا کہ تین جی پی ایس نیویگیٹرز کی موجودگی میں ھم لوگ راستہ بھول چکے تھے اور 3 کلومیٹر کا غلط راستہ طے کرلیا تھے۔ چنانچہ واپسی شروع ہوئ اور یہی وہ مقام تھا جہاں ہماری قیصرانی سے صحیح طور پر ملاقات ہوئ۔ ہم نے انکی نوکری اور تمپرے میں رہائش کے متعلق دریافت کیا۔
تمپرے میں موجود نئے پاکستانی چہرے دیکھ کر قیصرانی کی باچھیں کھلی ہوئ تھیں اور وہ وقتا فوقتا لوگوں سے فون نمبر کا تبادلہ کرتے ہوئے پائے گئے۔
(ہمیں بڑی ہوئ)
بڑی ہی جدوجہد کے بعد ہم لوگ منزل پر پہنچ چکے تھے اور وہاں عجیب سی چیزیں کھا کر ہم نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ واپسی پر طالب علموں کے گڑھ میکن تالو پر جمع ہوئے اور نیک خواہشات کے تبادلے کے بعد رخصت ہوئے۔
(سارے دن کی خواری کے بعد شام کو ہمیں بتایا گیا کے سارا فاصلہ کل ملا کر بھی 15 کلومیٹر سے کچھ کم ہی تھا۔ہمیں بڑی حیرانی ہوئ)
ہیلسنکی ۔ مورخہ 17 جون
اعجاز