کاشفی
محفلین
غزل
(مرزا خاں داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
کہا نہ کچھ عرض مدعا پر، وہ لے رہے دم کو مسکرا کر
سنا کئے حال چپکے چپکے، نظر اُٹھائی نہ سر اُٹھا کر
نہ طور دیکھے، نہ رنگ برتے غضب میں آیا ہوں دل لگا کر
وگر نہ دیتا ہے دل زمانہ یہ آزما کر، وہ آزما کر
تری محبت نے مار ڈالا ہزار ایذا سے مجھ کو ظالم
رُلا رُلا کر، گھلا گھلا کر، جلا جلا کر، مٹا مٹا کر
تمہیں تو ہو جو کہ خواب میں ہو، تمہیں تو ہو جو خیال میں ہو
کہاں چلے آنکھ میں سما کر، کدھر کو جاتے ہو دل میں آکر
ستم کہ جو لذت آشنا ہوں، کرم سے بے لطف، بے مزا ہوں
جو تو وفا بھی کرے تو ظالم یہ ہو تقاضا کہ پھر جفا کر
شراب خانہ ہے یہ تو زاہد، طلسم خانہ نہیں جو ٹوٹے
کہ توبہ کر لی گئی ہے توبہ ابھی یہاں سے شکست پاکر
نگہ کو بیباکیاں سکھاؤ، حجاب شرم و حیا اُٹھاؤ
بھلا کے مارا تو خاک مارا، لگاؤ چوٹیں جتا جتا کر
نہ ہر بشر کا جمال ایسا، نہ ہر فرشتے کا حال ایسا
کچھ اور سے اور ہو گیا تو مری نظر میں سما سما کر
خدا کا ملنا بہت ہے آساں، بتوں کا ملنا ہے سخت مشکل
یقیں نہیں گر کسی کو ہمدم تو کوئی لائے اُسے منا کر
الہٰی قاصد کی خیر گذرے کہ آج کوچہ سے فتنہ گر کے
صبا نکلتی ہے لڑکھڑا کر، نسیم چلتی ہے تھرتھرا کر
جناب! سلطانِ عشق وہ ہے کرے جو اے داغ اک اشارہ
فرشتے حاضر ہوں دست بستہ ادب سے گردن جھکا جھکا کر
(مرزا خاں داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
کہا نہ کچھ عرض مدعا پر، وہ لے رہے دم کو مسکرا کر
سنا کئے حال چپکے چپکے، نظر اُٹھائی نہ سر اُٹھا کر
نہ طور دیکھے، نہ رنگ برتے غضب میں آیا ہوں دل لگا کر
وگر نہ دیتا ہے دل زمانہ یہ آزما کر، وہ آزما کر
تری محبت نے مار ڈالا ہزار ایذا سے مجھ کو ظالم
رُلا رُلا کر، گھلا گھلا کر، جلا جلا کر، مٹا مٹا کر
تمہیں تو ہو جو کہ خواب میں ہو، تمہیں تو ہو جو خیال میں ہو
کہاں چلے آنکھ میں سما کر، کدھر کو جاتے ہو دل میں آکر
ستم کہ جو لذت آشنا ہوں، کرم سے بے لطف، بے مزا ہوں
جو تو وفا بھی کرے تو ظالم یہ ہو تقاضا کہ پھر جفا کر
شراب خانہ ہے یہ تو زاہد، طلسم خانہ نہیں جو ٹوٹے
کہ توبہ کر لی گئی ہے توبہ ابھی یہاں سے شکست پاکر
نگہ کو بیباکیاں سکھاؤ، حجاب شرم و حیا اُٹھاؤ
بھلا کے مارا تو خاک مارا، لگاؤ چوٹیں جتا جتا کر
نہ ہر بشر کا جمال ایسا، نہ ہر فرشتے کا حال ایسا
کچھ اور سے اور ہو گیا تو مری نظر میں سما سما کر
خدا کا ملنا بہت ہے آساں، بتوں کا ملنا ہے سخت مشکل
یقیں نہیں گر کسی کو ہمدم تو کوئی لائے اُسے منا کر
الہٰی قاصد کی خیر گذرے کہ آج کوچہ سے فتنہ گر کے
صبا نکلتی ہے لڑکھڑا کر، نسیم چلتی ہے تھرتھرا کر
جناب! سلطانِ عشق وہ ہے کرے جو اے داغ اک اشارہ
فرشتے حاضر ہوں دست بستہ ادب سے گردن جھکا جھکا کر