نایاب
لائبریرین
محترم بھائی راشد اشرف کو کتاب کی اشاعت پر دلی مبارک باد
ادبِ عالیہ اور مقبولِ عام ادب کی تقسیم نئی نہیں ہے۔ پاپولر ادیب اور اس کی تحریروں کو ادب و فن کی سنجیدہ بحثوں سے دور رکھنے کا رویہ بھی آج سے نہیں ہمیشہ سے قائم ہے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے کہ ریسرچ میتھاڈالوجی یعنی طرزِ تحقیق کے نئے داؤ پیچ اب شماریات کی زد میں آگئے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی کسی تحریر کو محض اس لیے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ادبی تنقید کے بزرجمہروں نے اسے درخورِ اعتناء نہیں جانا۔
ڈائجسٹ رسالوں میں کہانیاں لکھنے والے محی الدین نواب اور ایم اے راحت کے نام ادبی تنقید کی درسی کتابوں میں نہ بھی آئیں تو پاپولر ادب کا مورخ انھیں نظر انداز نہ کر پائے گا۔ اس نئے تناظر میں جہاں دت بھارتی، گلشن نندہ، رضیہ بٹ، اے آر خاتون اور عمیرہ احمد کی تحسینِ نو کا تقاضہ ابھر رہا ہے وہیں جاسوسی اور جرم و سزا کے موضوعات پر لکھا جانے والا ادب بھی خود پہ ایک ناقدانہ نظرِثانی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس ضرورت کو کچھ عرصہ قبل کویت میں مقیم ایک پاکستانی محمد حنیف نے محسوس کیا اور انھیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ پاک و ہند میں اُن کے بہت سے ہم نوا موجود ہیں جن میں کراچی کے جوان فکر مصنف اور سرگرم کارکن راشد اشرف پیش پیش ہیں۔
راشد اشرف نے ابنِ صفی کو اُن کا جائز مقام و مرتبہ دِلانے کے لیے ایک مشنری جذبے کے ساتھ کام شروع کیا اور اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ بھی متعارف کرائی۔ انھوں نے ابنِ صفی کی اولاد سے اور اُن کے قریبی دوستوں سے رابطے قائم کیے، بہت سی نایاب تحریریں اور فراموش کردہ کہانیاں دوبارہ منظرِ عام پر لائے، اور جب اُن کے پاس ابنِ صفی کے بارے میں اتنا مواد جمع ہو گیا کہ اسے ایک کتابی شکل میں منظرِ عام پر لایا جائے تو یہ کام بھی کر دکھایا۔
زیرِ نظر کتاب 368 صفحات پر مشتمل ہے جبکہ آرٹ پیپر کے وہ سولہ صفحات اِن کے علاوہ ہیں جو ابنِ صفی کی تصاویر کے لئے مخصوص ہیں۔ اِن میں چند تصاویر تو واقعی نایاب کے زمرے میں آتی ہیں، مثلاً ابنِ صفی بارہ سال کی عمر میں اور ابنِ صفی کے بے دھیانی میں بنائے ہوئے پنسل سکیچ۔
مشنری جذبے کے ساتھ
راشد اشرف نے ابنِ صفی کو اُن کا جائز مقام و مرتبہ دِلانے کے لئے ایک مشنری جذبے کے ساتھ کام شروع کیا اور اس سلسلے میں ایک ویب سائیٹ بھی متعارف کرائی۔ انھوں نے ابنِ صفی کی اولاد سے اور اُن کے قریبی دوستوں سے رابطے قائم کئے، بہت سی نایاب تحریریں اور فراموش کردہ کہانیاں دوبارہ منظرِ عام پر لائے، اور جب اُن کے پاس ابنِ صفی کے بارے میں اتنا مواد جمع ہو گیا کہ اسے ایک کتابی شکل میں منظرِ عام پر لایا جائے یہ کام بھی کر دکھایا۔
کتاب میں کل اکاون (51 ) مضامین ہیں اور مضمون نگاروں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، رضا علی عابدی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل سے لے کر مجنوں گورکھ پوری، ابوالخیر کشفی، حسن نثار، زاہدہ حنا، رئیس امروہوی اور مرزا حامد بیگ تک کئی معروف اہلِ قلم شامل ہیں۔ محمد حنیف اپنے مضمون میں رئیس امروہوی کی اس تحریر کا حوالہ دیتے ہیں جو ابنِ صفی کی موت پر سامنے آئی:
’جب تک مرحوم زندہ تھے ہم سمجھتے تھے کہ ہم اُن سے بے نیاز ہیں لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کس بے شرمی اور سنگ دِلی سے اپنے ایک باکمال ہم عصر کو نظر انداز کر رکھا تھا۔‘
کتاب میں جگہ جگہ ابنِ صفی کی تحریروں سے انتخاب بھی دیا گیا ہے اور کہیں کہیں ان کے بارے میں مشاہیر کے اقوال بھی درج ہیں۔ صفحہ 32 پر پروفیسر سحر انصاری کی ایک تحریر سے یہ اقتباس درج ہے:
’ابنِ صفی نے لوگوں کو فکشن پڑھنے پر آمادہ کیا ان کے مداحوں میں کئی ثقہ حضرات شامل تھے۔۔۔ جب میں 1970 میں افغانستان گیا تو میں نے دیکھا کہ غزنی اور جلال آباد جیسے شہروں میں بھی لوگ ابنِ صفی کے ناول پڑھ رہے ہیں۔‘
راشد اشرف کی مرتب کردہ یہ کتاب یقیناً نئی نسل کے قارئین کو سِّری ادب کے سرخیل ابنِ صفی سے متعارف کرانے میں ممدو معاون ثابت ہوگی اور شاید ادبِ عالیہ کے سخت گیر محافظین کے دِل میں بھی جاسوسی ادیب کے لئے ایک نرم گوشہ پیدا کر دے۔
عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
کتاب: کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
مرتب: راشد اشرف
ناشر: بزمِ تخلیق ادب پاکستان کراچی
قیمت: 500 روپے
ادبِ عالیہ اور مقبولِ عام ادب کی تقسیم نئی نہیں ہے۔ پاپولر ادیب اور اس کی تحریروں کو ادب و فن کی سنجیدہ بحثوں سے دور رکھنے کا رویہ بھی آج سے نہیں ہمیشہ سے قائم ہے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے کہ ریسرچ میتھاڈالوجی یعنی طرزِ تحقیق کے نئے داؤ پیچ اب شماریات کی زد میں آگئے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی کسی تحریر کو محض اس لیے مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ادبی تنقید کے بزرجمہروں نے اسے درخورِ اعتناء نہیں جانا۔
ڈائجسٹ رسالوں میں کہانیاں لکھنے والے محی الدین نواب اور ایم اے راحت کے نام ادبی تنقید کی درسی کتابوں میں نہ بھی آئیں تو پاپولر ادب کا مورخ انھیں نظر انداز نہ کر پائے گا۔ اس نئے تناظر میں جہاں دت بھارتی، گلشن نندہ، رضیہ بٹ، اے آر خاتون اور عمیرہ احمد کی تحسینِ نو کا تقاضہ ابھر رہا ہے وہیں جاسوسی اور جرم و سزا کے موضوعات پر لکھا جانے والا ادب بھی خود پہ ایک ناقدانہ نظرِثانی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس ضرورت کو کچھ عرصہ قبل کویت میں مقیم ایک پاکستانی محمد حنیف نے محسوس کیا اور انھیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ پاک و ہند میں اُن کے بہت سے ہم نوا موجود ہیں جن میں کراچی کے جوان فکر مصنف اور سرگرم کارکن راشد اشرف پیش پیش ہیں۔
راشد اشرف نے ابنِ صفی کو اُن کا جائز مقام و مرتبہ دِلانے کے لیے ایک مشنری جذبے کے ساتھ کام شروع کیا اور اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ بھی متعارف کرائی۔ انھوں نے ابنِ صفی کی اولاد سے اور اُن کے قریبی دوستوں سے رابطے قائم کیے، بہت سی نایاب تحریریں اور فراموش کردہ کہانیاں دوبارہ منظرِ عام پر لائے، اور جب اُن کے پاس ابنِ صفی کے بارے میں اتنا مواد جمع ہو گیا کہ اسے ایک کتابی شکل میں منظرِ عام پر لایا جائے تو یہ کام بھی کر دکھایا۔
زیرِ نظر کتاب 368 صفحات پر مشتمل ہے جبکہ آرٹ پیپر کے وہ سولہ صفحات اِن کے علاوہ ہیں جو ابنِ صفی کی تصاویر کے لئے مخصوص ہیں۔ اِن میں چند تصاویر تو واقعی نایاب کے زمرے میں آتی ہیں، مثلاً ابنِ صفی بارہ سال کی عمر میں اور ابنِ صفی کے بے دھیانی میں بنائے ہوئے پنسل سکیچ۔
مشنری جذبے کے ساتھ
راشد اشرف نے ابنِ صفی کو اُن کا جائز مقام و مرتبہ دِلانے کے لئے ایک مشنری جذبے کے ساتھ کام شروع کیا اور اس سلسلے میں ایک ویب سائیٹ بھی متعارف کرائی۔ انھوں نے ابنِ صفی کی اولاد سے اور اُن کے قریبی دوستوں سے رابطے قائم کئے، بہت سی نایاب تحریریں اور فراموش کردہ کہانیاں دوبارہ منظرِ عام پر لائے، اور جب اُن کے پاس ابنِ صفی کے بارے میں اتنا مواد جمع ہو گیا کہ اسے ایک کتابی شکل میں منظرِ عام پر لایا جائے یہ کام بھی کر دکھایا۔
کتاب میں کل اکاون (51 ) مضامین ہیں اور مضمون نگاروں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، رضا علی عابدی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل سے لے کر مجنوں گورکھ پوری، ابوالخیر کشفی، حسن نثار، زاہدہ حنا، رئیس امروہوی اور مرزا حامد بیگ تک کئی معروف اہلِ قلم شامل ہیں۔ محمد حنیف اپنے مضمون میں رئیس امروہوی کی اس تحریر کا حوالہ دیتے ہیں جو ابنِ صفی کی موت پر سامنے آئی:
’جب تک مرحوم زندہ تھے ہم سمجھتے تھے کہ ہم اُن سے بے نیاز ہیں لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کس بے شرمی اور سنگ دِلی سے اپنے ایک باکمال ہم عصر کو نظر انداز کر رکھا تھا۔‘
کتاب میں جگہ جگہ ابنِ صفی کی تحریروں سے انتخاب بھی دیا گیا ہے اور کہیں کہیں ان کے بارے میں مشاہیر کے اقوال بھی درج ہیں۔ صفحہ 32 پر پروفیسر سحر انصاری کی ایک تحریر سے یہ اقتباس درج ہے:
’ابنِ صفی نے لوگوں کو فکشن پڑھنے پر آمادہ کیا ان کے مداحوں میں کئی ثقہ حضرات شامل تھے۔۔۔ جب میں 1970 میں افغانستان گیا تو میں نے دیکھا کہ غزنی اور جلال آباد جیسے شہروں میں بھی لوگ ابنِ صفی کے ناول پڑھ رہے ہیں۔‘
راشد اشرف کی مرتب کردہ یہ کتاب یقیناً نئی نسل کے قارئین کو سِّری ادب کے سرخیل ابنِ صفی سے متعارف کرانے میں ممدو معاون ثابت ہوگی اور شاید ادبِ عالیہ کے سخت گیر محافظین کے دِل میں بھی جاسوسی ادیب کے لئے ایک نرم گوشہ پیدا کر دے۔
عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
کتاب: کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
مرتب: راشد اشرف
ناشر: بزمِ تخلیق ادب پاکستان کراچی
قیمت: 500 روپے