داغ کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
جاتی ہے جس پہ جان مری جاں تمہیں تو ہو

مطلب کے کہہ رہے ہیں وہ دانا ہمیں تو ہیں
مطلب کے پوچھتی ہو وہ ناداں تمہیں تو ہو

آتا ہے بعد ظلم تمہیں کو تو رحم بھی
اپنے کئے سے دل میں پشیماں تمہیں تو ہو

پچھتاؤ گے بہت مرے دل کو اُجاڑ کر
اس گھر میں اور کون ہے مہماں تمہیں تو ہو

اک روز رنگ لائینگی یہ مہربانیاں
ہم جانتے تھے جان کے خواہاں تمہیں تو ہو

دلدار و دلفریب دل آزار دلستاں
لاکھوں میں ہم کہینگے کہ ہاں ہاں تمہیں تو ہو

کرتے ہو داغ دور سے مے خانے کو سلام
اپنی طرح کے ایک مسلماں تمہیں تو ہو
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب، داغ کی خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے!


کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
جاتی ہے جس پہ مری جاں تمہیں تو ہو

اس شعر کے دوسرے مصرعے میں گڑبڑ ہے کہ وزن سے باہر ہے، پھر دیکھ لیجیئے پلیز۔



کرتے ہو داغ دور سے مئے خانے سلام
اپنی طرح کے ایک مسلماں تمہیں تو ہو

اس شعر کے پہلے مصرعے میں 'مے خانے کو سلام' ہوگا شاید، پلیز درست کر دیں۔
 

Fari

محفلین
پچھتاؤ گے بہت مرے دل کو اُجاڑ کر
اس گھر میں اور کون ہے مہماں تمہیں تو ہو


کیا بات یے---
 

کاشفی

محفلین
محمد وارث صاحب، شاہ حسین صاحب اور فری صاحبہ ۔۔آپ تینوں کا بیحد شکریہ۔۔خوش رہیئے۔۔۔
 
Top