احمد مشتاق کہوں کس سے رات کا ماجرا نئے منظروں پہ نگاہ تھی ۔ احمد مشتاق

فرخ منظور

لائبریرین
کہوں کس سے رات کا ماجرا، نئے منظروں پہ نگاہ تھی
نہ کسی کا دامن چاک تھا، نہ کسی کی طرف کلاہ تھی

کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا، نہ تمہاری زلف سیاہ تھی

دلِ کم الم پہ وہ کیفیت کہ ٹھہر سکے نہ گذر سکے
نہ حضر ہی راحتِ روح تھا، نہ سفر میں رامشِ راہ تھی

مرے چانگ دانگ تھی جلوہ گر، وہی لذّتِ طلبِ سحر
مگر اِک امیدِ شکستہ پر کہ مثالِ دردِ سیاہ تھی

وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا
اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی

(احمد مشتاق)
 

Saraah

محفلین
دلِ کم الم پہ وہ کیفیت کہ ٹھہر سکے نہ گذر سکے
نہ حضر ہی راحتِ روح تھا، نہ سفر میں رامشِ راہ تھی

مرے چانگ دانگ تھی جلوہ گر، وہی لذّتِ طلبِ سحر
مگر اِک امیدِ شکستہ پر کہ مثالِ دردِ سیاہ تھی



واہ ۔۔۔۔۔!
 

فرخ منظور

لائبریرین
احباب کا پسند فرمانے کے لئے بہت شکریہ۔ یہ غزل اس لئے بھی شامل کی گئی کہ شمسِ الرحمان فاروقی صاحب نے اپنے مشہور ناول "کئی چاند تھے سرِ آسماں" کا عنوان، احمد مشتاق کی اسی غزل کے ایک مصرع سے مستعار لیا ہے۔
 

زیف سید

محفلین
بہت اعلیٰ غزل ہے۔ عنایت فرمانے کا بہت بہت شکریہ۔
کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا، نہ تمہاری زلف سیاہ تھی

آپ نے درست فرمایا کہ فاروقی صاحب نے اپنے عہد ساز ناول کا نام اس شعر سے مستعار لیا ہے۔ فاروقی صاحب احمد مشتاق کے بہت بڑے مداح ہیں اور ان کا یہ دعویٰ مشہور ہے کہ احمد مشتاق فراق گورکھ پوری سے بڑے شاعر ہیں۔ اس سے فراق کے چاہنے والوں کو بڑی ٹھیس پہنچی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ باقاعدہ “مناظرہ“ منعقد کیا گیا جس میں شائقینِ فراق نے فراق کے دس اشعار سنائے اور فاروقی صاحب نے اس کے مقابلے پر احمد مشتاق کے دس اشعار پیش کیے۔ ظاہر ہے کہ فاروقی صاحب عالمِ متبخر، نقادِ بے بدل، صاحبِ گفتار ۔۔۔ ان سے کون ٹکر لے سکتا تھا، چناں چہ سب کو چاروں شانے چت کر دیا!

زیف
 

الف عین

لائبریرین
نہ کسی کا دامن چاک تھا، نہ کسی کی طرف کلاہ تھی

درست کیا یوں ہے
نہ کسی کا دامن چاک تھا، نہ کسی کی سمت کلاہ تھی؟؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
اعجاز صاحب مجھے نہیں معلوم درست کیا ہے ۔ یہ غزل عقیل عباس جعفری صاحب کی فیس بک کی تصویری غزلوں سے نقل کی گئی ہے۔
 

mohsin ali razvi

محفلین
وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا
اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی

با سلام شب مرا رخصت نمود آن مه لقا

وی چه داند قلب عامل نیزطلبگار گناهست

از عامل خواجه
images
 
Top