فرخ منظور
لائبریرین
کہوں کس سے رات کا ماجرا، نئے منظروں پہ نگاہ تھی
نہ کسی کا دامن چاک تھا، نہ کسی کی طرف کلاہ تھی
کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا، نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
دلِ کم الم پہ وہ کیفیت کہ ٹھہر سکے نہ گذر سکے
نہ حضر ہی راحتِ روح تھا، نہ سفر میں رامشِ راہ تھی
مرے چانگ دانگ تھی جلوہ گر، وہی لذّتِ طلبِ سحر
مگر اِک امیدِ شکستہ پر کہ مثالِ دردِ سیاہ تھی
وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا
اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی
(احمد مشتاق)
نہ کسی کا دامن چاک تھا، نہ کسی کی طرف کلاہ تھی
کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا، نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
دلِ کم الم پہ وہ کیفیت کہ ٹھہر سکے نہ گذر سکے
نہ حضر ہی راحتِ روح تھا، نہ سفر میں رامشِ راہ تھی
مرے چانگ دانگ تھی جلوہ گر، وہی لذّتِ طلبِ سحر
مگر اِک امیدِ شکستہ پر کہ مثالِ دردِ سیاہ تھی
وہ جو رات مجھ کو بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا
اسے کیا خبر مرے دل میں بھی کبھی آرزوئے گناہ تھی
(احمد مشتاق)