غ۔ن۔غ
محفلین
محبت کی طبیعت میںیہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہےکہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائےاِسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہےیقیں کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہوہزاروں طرح کے دلکش حسیں ہالے بناتی ہواسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہےمحبت مانگتی ہے یُوں گواہی اپنے ہونے کیکہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اِک بیج بوئےاور شب میں اُٹھےزمیں کو کھود کر دیکھےکہ پودا اب کہاں تک ہے؟؟؟محبت کی طبیعت میں عجب تکرار کی خَو ہےکہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتیبچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہواسے بس ایک ہی دھن ہےکہو مجھ سے محبت ہےکہو مجھ سے محبت ہےتمھیں مجھ سے محبت ہےسمندر سے کہیں گہریستاروں سے سوا روشنہواؤں کی طرح دائمپہاڑوں کی طرح قائمکچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میںکہ جو اہلِ محبت کو سدا بے چین رکھتی ہےکہ جیسے پھول میں خوشبو کہ جیسے ہاتھ میں تاراکہ جیسے شام کا تارامحبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہےگُمنام کے شاخوں میں آشیانہ بناتی ہے اُلفت کایہ عین وصال میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہےمحبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیںتھکن کی کرچیاں چنتے وفا کی اجرکیں پہنےسمے کی راہ گزر کی آخری سرحد پہ رُکتے ہیںتو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کردھیرے سے کہتا ہےکہ یہ سچ ہے ناہماری زندگی اک دوسرے کے نام لکھی تھیدُھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دُور پھیلا ہےاسی کا نام چاہت ہےتمھیں مجھ سے محبت ہےتمھیں مجھ سے محبت ہےشاعر “امجد اسلام امجد”
واہ کیا لاجواب نظم ہے یہ امجد اسلام امجد صاحب کی
جتنی بار بھی پڑھیں دل نہیں بھرتا
بہت سچی بات ایک پیاری سی حقیقت کو نظم میں اس خوبی سے بیان کیا ہے کہ جتنی بھی داد دی جائے کم ہے
ناعمہ عزیز بہنا اس حسین شراکت پہ یہ پھول آپ کے لیے کہ اس سے کم یعنی صرف الفاظ پہ دل نہیں مانا