کہو نامہ بر کچھ وہاں کی خبر ہے

La Alma

لائبریرین

بتاؤ مرے مہرباں کی خبر ہے؟
کہو نامہ بر کچھ وہاں کی خبر ہے؟

یقیں میں بدلنے لگی ہے محبت
ارے بےخبر اس گماں کی خبر ہے ؟

ہوئے شورشِ حال میں اس طرح گم
نہ فردا، نہ ہی رفتگاں کی خبر ہے

پڑی ہے اچانک جو آفت، عجب کیا
یہاں پر کسے ناگہاں کی خبر ہے

کروں ضبطِ گریہ، یہی اب ہے بہتر
کسے میری آہ و فغاں کی خبر ہے

خدا سے سروکار کیا عاشقاں کو
خبر ہے تو کوئے بتاں کی خبر ہے

عبث ہے شمارِ خرابات واعظ
اگر ہے یہ دعویٰ، زماں کی خبر ہے

نہیں شاعرانہ تعلّی یہ المٰی
ہمیں اپنے حسنِ بیاں کی خبر ہے

 

فاخر رضا

محفلین
بتاؤ مرے مہرباں کی خبر ہے؟
کہو نامہ بر کچھ وہاں کی خبر ہے؟

یقیں میں بدلنے لگی ہے محبت
ارے بےخبر اس گماں کی خبر ہے ؟

ہوئے شورشِ حال میں اس طرح گم
نہ فردا، نہ ہی رفتگاں کی خبر ہے

پڑی ہے اچانک جو آفت، عجب کیا
یہاں پر کسے ناگہاں کی خبر ہے

کروں ضبطِ گریہ، یہی اب ہے بہتر
کسے میری آہ و فغاں کی خبر ہے

خدا سے سروکار کیا عاشقاں کو
خبر ہے تو کوئے بتاں کی خبر ہے

عبث ہے شمارِ خرابات واعظ
اگر ہے یہ دعویٰ، زماں کی خبر ہے

نہیں شاعرانہ تعلّی یہ المٰی
ہمیں اپنے حسنِ بیاں کی خبر ہے

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
آپ اپنی خبر نہیں آتی
 

فرقان احمد

محفلین
یقیں میں بدلنے لگی ہے محبت
ارے بےخبر اس گماں کی خبر ہے ؟

ہوئے شورشِ حال میں اس طرح گم
نہ فردا، نہ ہی رفتگاں کی خبر ہے
جسے ہم لاجواب کہتے ہیں!
 
اسے بھی منجملہ آپ کے کمالات کے شمار ہونا چاہیے کہ اصلاحِ سخن میں شائع کیا گیا یہ مراسلہ داد پاتا رہا مگر کسی کو انتقاد کی ہمت نہ ہوئی۔ اور سچ ہے کہ یہ غزل نہایت خوب صورت ہے۔
غزل کے حوالے سے میرا پختہ اعتقاد ہے کہ اسے اس کی روایت سے منقطع کیے بغیر اس میں نئے مضامین پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ جو چلن حال میں نکلا ہے کہ زبان اور لہجے ہر دو اعتبار سے غزل غزل کی بجائے کسی متفلسف (philosophaster) کی مجنونانہ خودکلامی معلوم ہوتی ہے، قابلِ مذمت ہے۔
میں نہایت اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ غزل اس قاعدے پر کہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس کے استحسان کی جانب میں نے اشارہ کیا ہے۔ زیرِ نظر کلام روایت سے منقطع ہوئے بغیر نئے زاویے سامنے لایا ہے جو ایک قابلِ تعریف خوبی ہے۔
چونکہ اساتذہ نے بوجوہ اس نقطۂِ نظر سے غزل کو ملاحظہ نہیں فرمایا اس لیے میں موقع پا کر شعر بہ شعر رائے زنی کرنا چاہتا ہوں۔
بتاؤ مرے مہرباں کی خبر ہے؟
کہو نامہ بر کچھ وہاں کی خبر ہے؟
طرزِ بیان خوب صورت ہے۔ مگر شعر کو معانی کے لحاظ سے مکمل قرار دینا مشکل ہے۔
رباعی کے بارے میں اساتذہ فرماتے ہیں کہ اس کی چال ایسی ہونی چاہیے کہ جو اثر پیدا کرنا مقصود ہے وہ چوتھے مصرع تک عروج کو پہنچ جائے۔ یعنی پہلے تین مصاریع ماحول سازی کا کام کریں یا اثرِ مقصود ہی کی جانب رہنمائی کرتے چلے جائیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی کام غزل میں ایک شعر کا بھی ہے۔ پہلا مصرع طبیعت کو دوسرے مصرع کے لیے تیار کرنے کا کام کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ تیاری مکمل ہو جائے اور پھر مصرعِ ثانی اپنا کام نہ کر سکے تو یہ قاری کے لیے نہایت کوفت کا باعث ہوتا ہے۔
اس شعر میں پہلے مصرع سے جو تاثر قائم ہوتا ہے مصرعِ ثانی اسے کماحقہ انگیخت کرنے میں ناکام ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ان کی ترتیب بدل کر پہلے کو دوسرا اور دوسرے کو پہلا کر دیا جائے تو شاید اثر آفرینی کے لحاظ سے شعر بہتر ہو جائے گا۔
اس رائے کی وجوہات اگر آپ تقاضا کریں گی تو بیان کر دی جائیں گی۔ فی الحال ہمارے خیال میں یہ اشارہ کافی ہے! :):):)
یقیں میں بدلنے لگی ہے محبت
ارے بےخبر اس گماں کی خبر ہے ؟
بہت عمدہ۔ نیا اور اچھوتا خیال! :applause::applause::applause::applause:
ہوئے شورشِ حال میں اس طرح گم
نہ فردا، نہ ہی رفتگاں کی خبر ہے
ایک جانب حال ہے، دوسری جانب فردا، تیسری جانب ماضی کو ہونا چاہیے تھا۔ رفتگاں قافیے کی مجبوری معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ خیال اس کا تقاضا ہرگز نہیں کرتا۔
پڑی ہے اچانک جو آفت، عجب کیا
یہاں پر کسے ناگہاں کی خبر ہے
یعنی شاعرہ کے نزدیک ناگہانیاں اپنی وقعت کھو بیٹھی ہیں۔ یہ ایک نثری سا بیان ہے جس میں شاعرانہ تعلیل کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ مناسب ہوتا کہ کسی ایسے حادثے کی جانب اشارہ کیا جاتا جس نے اس حال کو پہنچایا ہے۔ شاعری ادعائے محض کا نام نہیں۔
کروں ضبطِ گریہ، یہی اب ہے بہتر
کسے میری آہ و فغاں کی خبر ہے
خوب صورت! :lovestruck::lovestruck::lovestruck:
خدا سے سروکار کیا عاشقاں کو
خبر ہے تو کوئے بتاں کی خبر ہے
لاثانی! :applause::applause::applause:
عبث ہے شمارِ خرابات واعظ
اگر ہے یہ دعویٰ، زماں کی خبر ہے
میں اس کے مفہوم تک نہیں پہنچ سکا۔ :brokenheart2:
نہیں شاعرانہ تعلّی یہ المٰی
ہمیں اپنے حسنِ بیاں کی خبر ہے
مصرعِ اولیٰ کسی حد تک تعقید کا شکار ہے۔ تعقید نہ بھی کہی جائے تو غرابت تو ضرور ہے۔ باقی زبردست! :thumbsup2::thumbsup2::thumbsup2:
---
ایک رائے محمد تابش صدیقی بھائی کے اشارے کے ضمن میں۔
میرا بھی یہی خیال ہے کہ آپ کو بحور میں نت نئے تجربات کرنے کی بجائے معروف اوزان کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ اگر مشق مقصود ہے تو الگ بات ہے ورنہ جو بحور مروج ہیں وہ یونہی مطبوع و مرغوب نہیں ہیں۔ ہمارے مزاج اور ہماری شاعری کے مزاج کے لیے ان سے بہتر آہنگ تلاش کرنے بہت مشکل ہیں۔ پھر اگر آپ یہ کرنا بھی چاہیں تو مبتدیانہ سطح پر اس تجربے کا مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔ :):):)
 

La Alma

لائبریرین
جناب راحیل فاروق
اصلاحِ سخن میں شائع کیا گیا یہ مراسلہ داد پاتا رہا مگر کسی کو انتقاد کی ہمت نہ ہوئی۔
آپ کی جرأت کو سلام :)

غزل کے حوالے سے میرا پختہ اعتقاد ہے کہ اسے اس کی روایت سے منقطع کیے بغیر اس میں نئے مضامین پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ جو چلن حال میں نکلا ہے کہ زبان اور لہجے ہر دو اعتبار سے غزل غزل کی بجائے کسی متفلسف (philosophaster) کی مجنونانہ خودکلامی معلوم ہوتی ہے، قابلِ مذمت ہے۔
ذرا شاعری سے خود کلامی منہا کر کے دیکھیے باقی کیا بچتا ہے. شعر اپنی بنت کے اولین درجے میں نری خود کلامی ہی تو ہے. یہ الگ بات ہے کہ شاعر آغاز میں ہی اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے کے اسکی خود کلامی کی بازگشت دوسروں تک بھی پہنچے گی . لہٰذا وہ شعوری طور پر اپنے منتشر خیالات کو روایت سے انحراف نہ کرتے ہوئے پہلے سے طے کردہ طریقہ کار کے مطابق جمالیات کا پابند بناتا ہے اور جو ایسا کرنے میں ناکام ہو جائے وہ بدقسمتی سے philosophaster کہلاتا ہے۔
بتاؤ مرے مہرباں کی خبر ہے؟
کہو نامہ بر کچھ وہاں کی خبر ہے؟
س شعر میں پہلے مصرع سے جو تاثر قائم ہوتا ہے مصرعِ ثانی اسے کماحقہ انگیخت کرنے میں ناکام ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ان کی ترتیب بدل کر پہلے کو دوسرا اور دوسرے کو پہلا کر دیا جائے تو شاید اثر آفرینی کے لحاظ سے شعر بہتر ہو جائے گا۔
مقصود تو اثر آفرینی ہے مصرعوں کو نشست بدلنے کی زحمت دی جا سکتی ہے .

س رائے کی وجوہات اگر آپ تقاضا کریں گی تو بیان کر دی جائیں گی۔ فی الحال ہمارے خیال میں یہ اشارہ کافی ہے
وہ تو عقلمندوں کے لیے ہے .:)
ہوئے شورشِ حال میں اس طرح گم
نہ فردا، نہ ہی رفتگاں کی خبر ہے
یک جانب حال ہے، دوسری جانب فردا، تیسری جانب ماضی کو ہونا چاہیے تھا۔ رفتگاں قافیے کی مجبوری معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ خیال اس کا تقاضا ہرگز نہیں کرتا۔
فارسی سے نابلد ہونے کی وجہ سے میں نے رفتگان کو عہدِ رفتہ کی ہی ایک شکل تصور کیا تھا
اس سقم کی نشان دہی لیے میں خاص طور پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی .
پڑی ہے اچانک جو آفت، عجب کیا
یہاں پر کسے ناگہاں کی خبر ہے
یعنی شاعرہ کے نزدیک ناگہانیاں اپنی وقعت کھو بیٹھی ہیں۔ یہ ایک نثری سا بیان ہے جس میں شاعرانہ تعلیل کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ مناسب ہوتا کہ کسی ایسے حادثے کی جانب اشارہ کیا جاتا جس نے اس حال کو پہنچایا ہے۔ شاعری ادعائے محض کا نام نہیں۔
آپ کو علت کے باب میں بیانیہ کمزور لگا شاید ایسا ہی ہو .لیکن کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں یہاں پر آفت کی نوعیت کی وضاحت درکار تھی . نجانے کیوں مجھے ایسا نہیں لگا .

عبث ہے شمارِخراباتِ واعظ
اگر ہے یہ دعویٰ، زماں کی خبر ہے
میں اس کے مفہوم تک نہیں پہنچ سکا۔
مجھ سے چوک ہو گئی. ذرا خرابات کے نیچے اضافت لگا کر دیکھئے پھر آپ کو حضرت واعظ بالضرور اپنے تمام تر محاسن کے ساتھ وقت کی مسند پر جلوہ افروز ملیں گے .
نہیں شاعرانہ تعلّی یہ المٰی
مصرعِ اولیٰ کسی حد تک تعقید کا شکار ہے۔ تعقید نہ بھی کہی جائے تو غرابت تو ضرور ہے۔
ہمیں اپنے حسنِ بیاں کی خبر ہے
یہاں ہماری جرأت کو سلام :)
 

الف عین

لائبریرین
خوب غزل ہے۔ مطلع میرے خیال میں یوں بھی اچھا ہے، مصرعوں کی ادلا بدلی کی ضرورت نہیں میرے خیال میں۔

نہ فردا، نہ ہی رفتگاں کی خبر ہے
۔۔ رفتگاں لفظ ماضی کا مترادف نہیں، اس کے علاوہ اس مصرع کی روانی بھی مخدوش ہے۔ ’نہ ہی‘ کے باعث۔

کروں ضبطِ گریہ، یہی اب ہے بہتر
۔۔اس کی روانی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

عبث ہے شمارِ خرابات واعظ
اگر ہے یہ دعویٰ، زماں کی خبر ہے
اضافت لگانے کے باوجود میرے کند ذہن میں سما نہیں سکا!!
باقی سبحان اللہ!
 

La Alma

لائبریرین
خوب غزل ہے۔ مطلع میرے خیال میں یوں بھی اچھا ہے، مصرعوں کی ادلا بدلی کی ضرورت نہیں میرے خیال میں۔

نہ فردا، نہ ہی رفتگاں کی خبر ہے
۔۔ رفتگاں لفظ ماضی کا مترادف نہیں، اس کے علاوہ اس مصرع کی روانی بھی مخدوش ہے۔ ’نہ ہی‘ کے باعث۔

کروں ضبطِ گریہ، یہی اب ہے بہتر
۔۔اس کی روانی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

عبث ہے شمارِ خرابات واعظ
اگر ہے یہ دعویٰ، زماں کی خبر ہے
اضافت لگانے کے باوجود میرے کند ذہن میں سما نہیں سکا!!
باقی سبحان اللہ!
درست سر . آپ کے قیمتی وقت کے لیے شکرگزار ہوں .
 
Top