اسے بھی منجملہ آپ کے کمالات کے شمار ہونا چاہیے کہ اصلاحِ سخن میں شائع کیا گیا یہ مراسلہ داد پاتا رہا مگر کسی کو انتقاد کی ہمت نہ ہوئی۔ اور سچ ہے کہ یہ غزل نہایت خوب صورت ہے۔
غزل کے حوالے سے میرا پختہ اعتقاد ہے کہ اسے اس کی روایت سے منقطع کیے بغیر اس میں نئے مضامین پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ جو چلن حال میں نکلا ہے کہ زبان اور لہجے ہر دو اعتبار سے غزل غزل کی بجائے کسی متفلسف (philosophaster) کی مجنونانہ خودکلامی معلوم ہوتی ہے، قابلِ مذمت ہے۔
میں نہایت اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ غزل اس قاعدے پر کہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس کے استحسان کی جانب میں نے اشارہ کیا ہے۔ زیرِ نظر کلام روایت سے منقطع ہوئے بغیر نئے زاویے سامنے لایا ہے جو ایک قابلِ تعریف خوبی ہے۔
چونکہ اساتذہ نے بوجوہ اس نقطۂِ نظر سے غزل کو ملاحظہ نہیں فرمایا اس لیے میں موقع پا کر شعر بہ شعر رائے زنی کرنا چاہتا ہوں۔
بتاؤ مرے مہرباں کی خبر ہے؟
کہو نامہ بر کچھ وہاں کی خبر ہے؟
طرزِ بیان خوب صورت ہے۔ مگر شعر کو معانی کے لحاظ سے مکمل قرار دینا مشکل ہے۔
رباعی کے بارے میں اساتذہ فرماتے ہیں کہ اس کی چال ایسی ہونی چاہیے کہ جو اثر پیدا کرنا مقصود ہے وہ چوتھے مصرع تک عروج کو پہنچ جائے۔ یعنی پہلے تین مصاریع ماحول سازی کا کام کریں یا اثرِ مقصود ہی کی جانب رہنمائی کرتے چلے جائیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی کام غزل میں ایک شعر کا بھی ہے۔ پہلا مصرع طبیعت کو دوسرے مصرع کے لیے تیار کرنے کا کام کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ تیاری مکمل ہو جائے اور پھر مصرعِ ثانی اپنا کام نہ کر سکے تو یہ قاری کے لیے نہایت کوفت کا باعث ہوتا ہے۔
اس شعر میں پہلے مصرع سے جو تاثر قائم ہوتا ہے مصرعِ ثانی اسے کماحقہ انگیخت کرنے میں ناکام ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ان کی ترتیب بدل کر پہلے کو دوسرا اور دوسرے کو پہلا کر دیا جائے تو شاید اثر آفرینی کے لحاظ سے شعر بہتر ہو جائے گا۔
اس رائے کی وجوہات اگر آپ تقاضا کریں گی تو بیان کر دی جائیں گی۔ فی الحال ہمارے خیال میں یہ اشارہ کافی ہے!
یقیں میں بدلنے لگی ہے محبت
ارے بےخبر اس گماں کی خبر ہے ؟
بہت عمدہ۔ نیا اور اچھوتا خیال!
ہوئے شورشِ حال میں اس طرح گم
نہ فردا، نہ ہی رفتگاں کی خبر ہے
ایک جانب حال ہے، دوسری جانب فردا، تیسری جانب ماضی کو ہونا چاہیے تھا۔ رفتگاں قافیے کی مجبوری معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ خیال اس کا تقاضا ہرگز نہیں کرتا۔
پڑی ہے اچانک جو آفت، عجب کیا
یہاں پر کسے ناگہاں کی خبر ہے
یعنی شاعرہ کے نزدیک ناگہانیاں اپنی وقعت کھو بیٹھی ہیں۔ یہ ایک نثری سا بیان ہے جس میں شاعرانہ تعلیل کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ مناسب ہوتا کہ کسی ایسے حادثے کی جانب اشارہ کیا جاتا جس نے اس حال کو پہنچایا ہے۔ شاعری ادعائے محض کا نام نہیں۔
کروں ضبطِ گریہ، یہی اب ہے بہتر
کسے میری آہ و فغاں کی خبر ہے
خوب صورت!
خدا سے سروکار کیا عاشقاں کو
خبر ہے تو کوئے بتاں کی خبر ہے
لاثانی!
عبث ہے شمارِ خرابات واعظ
اگر ہے یہ دعویٰ، زماں کی خبر ہے
میں اس کے مفہوم تک نہیں پہنچ سکا۔
نہیں شاعرانہ تعلّی یہ المٰی
ہمیں اپنے حسنِ بیاں کی خبر ہے
مصرعِ اولیٰ کسی حد تک تعقید کا شکار ہے۔ تعقید نہ بھی کہی جائے تو غرابت تو ضرور ہے۔ باقی زبردست!
---
ایک رائے
محمد تابش صدیقی بھائی کے اشارے کے ضمن میں۔
میرا بھی یہی خیال ہے کہ آپ کو بحور میں نت نئے تجربات کرنے کی بجائے معروف اوزان کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ اگر مشق مقصود ہے تو الگ بات ہے ورنہ جو بحور مروج ہیں وہ یونہی مطبوع و مرغوب نہیں ہیں۔ ہمارے مزاج اور ہماری شاعری کے مزاج کے لیے ان سے بہتر آہنگ تلاش کرنے بہت مشکل ہیں۔ پھر اگر آپ یہ کرنا بھی چاہیں تو مبتدیانہ سطح پر اس تجربے کا مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔