کہکشاؤں کے رقص اور ستاروں کی نرسری، جیمز ویب دوربین کی نئی تصاویر جاری

محمداحمد

لائبریرین
2347325-mainimagefinal-1657643131-636-640x480.gif

ناسا نے جیمزویب دوربین کی نئی تصاویر جاری کردی ہیں جن میں سے اس تصویر میں نئے ستاروں کی نرسری کو دیکھا جاسکتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ ناسا

پیساڈینا، کیلیفورنیا: اربوں ڈالر مالیت اور 20 سال تک ہزاروں سائنسدانوں کی کاوش سے تیار کی جانے والی جیمز ویب خلائی دوربین نے قریب اور بعید ترین کائنات کی مزید مسحورکن تصاویر جاری کردی ہیں۔

ایک تصویر میں نظامِ شمسی سے پرے ایک سیارہ دیکھا جاسکتا ہے جس میں آبی بخارات دریافت ہوئے ہیں۔ دوسری تصویر میں ایک مرتے ہوئے ستارے کو نیبولہ کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ تیسری تصویر میں خوبصورت کہکشائیں ایک دوسرے سے ملاپ کررہی ہیں اور چوتھی تصویر میں نئے ستاروں کی پیدائش اور اس کے نیچے ان ستاروں کا خام مال دیکھا جاسکتا ہے۔

ناسا کی جانب سے براہِ راست نشریات میں گویا اسٹار پارٹی کی صورت میں ان اہم تصاویر کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ ان تصاویر کی پروسیسنگ دریافت اور اس پر کام کرنے والے ماہرین نے ان کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی وقت کے مطابق صبح تین بجے امریکی صدر جوبائیڈن نے جیمز ویب کی جانب سے جاری پہلی تصویر جاری کی تھی جو ایک انتہائی قدیم کہکشاں ایس ایم اے سی 0723کی تھی۔ یہ کہکشاں کائنات کی پیدائش کے صرف ایک ارب سال بعد پیدا ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر ہم کائنات میں کہکشاؤں کے ارتقا کو جان سکتے ہیں۔

firstimage-1657642078.jpg

تاہم آج ناسا نے مزید چار تصاویر جاری کی ہیں جن میں سے پہلی تصویر بالراست ایک سیارے کو ظاہر کرتی ہے۔

واسپ 96 بی: آبی بخارات کا حامل سیارہ
wasp-planet-1657642324.jpg

دوربین سے جاری پہلی تصویر، نظامِ شمسی سے پرے کسی اور سیارے یعنی ایگزپلانیٹ کی پہلی تصویر ہے۔ یہ گرم گیسوں والا ایک سیارہ ہے جس کی براہِ راست تصویر تو نہیں لی جاسکی تاہم اس کی فضا میں پانی مائع کی بجائے بخارات یا بھاپ کی صورت میں موجود ہے۔

سدرن رِنگ نیبولہ: مرتے ستارے کا احوال

nebula-1657642508.jpg



دوسری تصویر ستارے کی آخری ہچکی کو نیبولہ کی صورت میں ظاہر کرتی ہے۔ یہ ایک خوبصورت پلانیٹری نیبولہ ہے۔ اس کا مادہ لہروں کی صورت دکھائی دے رہا ہے۔ نارنجی رنگ ہائیڈروجن کی وجہ سے ہے۔ درمیان میں نیلی روشنی گرم آئنوائز گیس کو ظاہر کررہی ہے۔ اس نیبولہ کی تصویر کے درمیان میں انتہائی قریب دو ستارے دکھائی دے رہے ہیں۔

اسٹیفینس کوئنٹیٹ: رقصِ کہکشاں

تیسری تصویر اسٹیفینس کوئنٹیٹ ہے جو چار کہکشاؤں کا ایک مجموعہ ہے۔ اس میں دسیوں لاکھ سے لے کر ارب ستارے تک ہوسکتے ہیں۔ یہ کہکشاں ہم سے 30 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔ دائیں جانب نیچے والی کہکشاں اوپر موجود کہکشاں سے ملاپ کررہی ہے۔

galaxies-1657642771.jpg



اس میں کہکشاں ایک دوسرے میں مدغم دکھائی دے رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ایک نہایت اہم تصویر بھی ہے۔ اس سے کہکشاں کا ارتقائی عمل بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس میں نیئر(قریبی) اور مڈ(درمیانی) انفراریڈ تصاویر کو ملایا گیا ہے۔ پس منظر میں کئ ستارے بن رہے اور گیس و گردوغبار بھی دکھائی دے رہی ہے۔

اسی تصویر میں جب قریبی انفراریڈ طیف کو ہٹایا گیا تو مزید تفصیل سامنے آئی ہیں جن میں ایک سرگرم بلیک ہول کی نشاندہی بھی ہوئی ہے۔ بلیک ہول اطراف کی روشن گیس کو گویا اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ اس عمل سے گرم گیس کے لپٹے مزید دہکنے لگے ہیں اور ان کی روشنی ہمارے سورج سے 40 ارب گنا ہوگئی ہے جو اوپرکی کہکشاں میں غیرمعمولی روشنی کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔

نیئر انفراریڈ اسپیکٹروگراف، اس کا خاص طیف نگار، یورپی خلائی ایجنسی نے بنایا ہے جو ناسا سے اشتراک کے تحت سامنے آیا ہے۔ اسپیکٹروگراف بتاتا ہے کہ کسی خلائی جسم کی کیمیائی ترکیب کیا ہے اور اس میں کونسے عناصر موجود ہیں۔

کیرینا نیبولہ:نئے ستاروں کی نرسری

اسے جیمز ویب کی سب سے اہم اور خوبصورت تصویر قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ ستاروں کی نرسری ہے جہاں نت نئے ستارے پیدا ہورہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت اور مسحور کن تصویر ہے۔ یہ مقام ہمارے کرہِ ارض سے 7600 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایسا منظر انسانی آنکھ نے پہلے نہیں دیکھا تھا جس میں سینکڑوں نئے ستارے پیدا ہورہے ہیں۔

star-isborn-1657642959.jpg


اس تصویر میں بلبلہ نما ساخت، خالی جگہیں اور دیگر خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں جو نئے ستارے کے وجود کے ساتھ ہی سامنے آئے ہیں۔ تاہم اس کے پس منظر میں مزید کہکشائیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ البتہ کچھ ساختیں ایسی ہیں جن پرابھی غورکیا جانا ہے کہ وہ کس طرح وجود پذیر ہوئی ہیں۔

تصویر کے اوپری نیلے حصے میں بہت بڑے ستارے دیکھے جاسکتے ہیں جو حال ہی میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے نیچے براؤن اور نارنجی ساختیں انہی ستاروں کی اشعاع (ریڈی ایشن) سے وجود میں آئی ہیں اور یہ گیس اور گردوغبار پر مشتمل بڑی بڑی ساختیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ستارے گیس اور گردوغبار سے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ ایک مقام پر مادہ جمع ہوتا ہے اور ثقل اور دباؤ کے تحت بھڑک اٹھتا ہے۔

اس طرح ایک ہی تصویر میں نئے ستارے اور ان کی تشکیل کا خام مال دیکھا جاسکتا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز
 

محمداحمد

لائبریرین
آج کل سوشل میڈیا پر جیمز ویب کا اور اُس سے حاصل ہونے والی تصاویر کا بہت شہرہ ہے۔ لیکن محفل پر اس کا ذکر تک نہیں ہے۔

میرا خیال ہے کہ اگر جاسم محمد بھائی فعال ہوتے تو وہ یہ خبر ضرور شئر کرتے۔ :)
 
2347325-mainimagefinal-1657643131-636-640x480.gif

ناسا نے جیمزویب دوربین کی نئی تصاویر جاری کردی ہیں جن میں سے اس تصویر میں نئے ستاروں کی نرسری کو دیکھا جاسکتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ ناسا

پیساڈینا، کیلیفورنیا: اربوں ڈالر مالیت اور 20 سال تک ہزاروں سائنسدانوں کی کاوش سے تیار کی جانے والی جیمز ویب خلائی دوربین نے قریب اور بعید ترین کائنات کی مزید مسحورکن تصاویر جاری کردی ہیں۔

ایک تصویر میں نظامِ شمسی سے پرے ایک سیارہ دیکھا جاسکتا ہے جس میں آبی بخارات دریافت ہوئے ہیں۔ دوسری تصویر میں ایک مرتے ہوئے ستارے کو نیبولہ کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ تیسری تصویر میں خوبصورت کہکشائیں ایک دوسرے سے ملاپ کررہی ہیں اور چوتھی تصویر میں نئے ستاروں کی پیدائش اور اس کے نیچے ان ستاروں کا خام مال دیکھا جاسکتا ہے۔

ناسا کی جانب سے براہِ راست نشریات میں گویا اسٹار پارٹی کی صورت میں ان اہم تصاویر کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ ان تصاویر کی پروسیسنگ دریافت اور اس پر کام کرنے والے ماہرین نے ان کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی وقت کے مطابق صبح تین بجے امریکی صدر جوبائیڈن نے جیمز ویب کی جانب سے جاری پہلی تصویر جاری کی تھی جو ایک انتہائی قدیم کہکشاں ایس ایم اے سی 0723کی تھی۔ یہ کہکشاں کائنات کی پیدائش کے صرف ایک ارب سال بعد پیدا ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر ہم کائنات میں کہکشاؤں کے ارتقا کو جان سکتے ہیں۔

firstimage-1657642078.jpg

تاہم آج ناسا نے مزید چار تصاویر جاری کی ہیں جن میں سے پہلی تصویر بالراست ایک سیارے کو ظاہر کرتی ہے۔

واسپ 96 بی: آبی بخارات کا حامل سیارہ
wasp-planet-1657642324.jpg

دوربین سے جاری پہلی تصویر، نظامِ شمسی سے پرے کسی اور سیارے یعنی ایگزپلانیٹ کی پہلی تصویر ہے۔ یہ گرم گیسوں والا ایک سیارہ ہے جس کی براہِ راست تصویر تو نہیں لی جاسکی تاہم اس کی فضا میں پانی مائع کی بجائے بخارات یا بھاپ کی صورت میں موجود ہے۔

سدرن رِنگ نیبولہ: مرتے ستارے کا احوال

nebula-1657642508.jpg



دوسری تصویر ستارے کی آخری ہچکی کو نیبولہ کی صورت میں ظاہر کرتی ہے۔ یہ ایک خوبصورت پلانیٹری نیبولہ ہے۔ اس کا مادہ لہروں کی صورت دکھائی دے رہا ہے۔ نارنجی رنگ ہائیڈروجن کی وجہ سے ہے۔ درمیان میں نیلی روشنی گرم آئنوائز گیس کو ظاہر کررہی ہے۔ اس نیبولہ کی تصویر کے درمیان میں انتہائی قریب دو ستارے دکھائی دے رہے ہیں۔

اسٹیفینس کوئنٹیٹ: رقصِ کہکشاں

تیسری تصویر اسٹیفینس کوئنٹیٹ ہے جو چار کہکشاؤں کا ایک مجموعہ ہے۔ اس میں دسیوں لاکھ سے لے کر ارب ستارے تک ہوسکتے ہیں۔ یہ کہکشاں ہم سے 30 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔ دائیں جانب نیچے والی کہکشاں اوپر موجود کہکشاں سے ملاپ کررہی ہے۔

galaxies-1657642771.jpg



اس میں کہکشاں ایک دوسرے میں مدغم دکھائی دے رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ایک نہایت اہم تصویر بھی ہے۔ اس سے کہکشاں کا ارتقائی عمل بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس میں نیئر(قریبی) اور مڈ(درمیانی) انفراریڈ تصاویر کو ملایا گیا ہے۔ پس منظر میں کئ ستارے بن رہے اور گیس و گردوغبار بھی دکھائی دے رہی ہے۔

اسی تصویر میں جب قریبی انفراریڈ طیف کو ہٹایا گیا تو مزید تفصیل سامنے آئی ہیں جن میں ایک سرگرم بلیک ہول کی نشاندہی بھی ہوئی ہے۔ بلیک ہول اطراف کی روشن گیس کو گویا اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ اس عمل سے گرم گیس کے لپٹے مزید دہکنے لگے ہیں اور ان کی روشنی ہمارے سورج سے 40 ارب گنا ہوگئی ہے جو اوپرکی کہکشاں میں غیرمعمولی روشنی کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔

نیئر انفراریڈ اسپیکٹروگراف، اس کا خاص طیف نگار، یورپی خلائی ایجنسی نے بنایا ہے جو ناسا سے اشتراک کے تحت سامنے آیا ہے۔ اسپیکٹروگراف بتاتا ہے کہ کسی خلائی جسم کی کیمیائی ترکیب کیا ہے اور اس میں کونسے عناصر موجود ہیں۔

کیرینا نیبولہ:نئے ستاروں کی نرسری

اسے جیمز ویب کی سب سے اہم اور خوبصورت تصویر قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ ستاروں کی نرسری ہے جہاں نت نئے ستارے پیدا ہورہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت اور مسحور کن تصویر ہے۔ یہ مقام ہمارے کرہِ ارض سے 7600 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایسا منظر انسانی آنکھ نے پہلے نہیں دیکھا تھا جس میں سینکڑوں نئے ستارے پیدا ہورہے ہیں۔

star-isborn-1657642959.jpg


اس تصویر میں بلبلہ نما ساخت، خالی جگہیں اور دیگر خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں جو نئے ستارے کے وجود کے ساتھ ہی سامنے آئے ہیں۔ تاہم اس کے پس منظر میں مزید کہکشائیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ البتہ کچھ ساختیں ایسی ہیں جن پرابھی غورکیا جانا ہے کہ وہ کس طرح وجود پذیر ہوئی ہیں۔

تصویر کے اوپری نیلے حصے میں بہت بڑے ستارے دیکھے جاسکتے ہیں جو حال ہی میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے نیچے براؤن اور نارنجی ساختیں انہی ستاروں کی اشعاع (ریڈی ایشن) سے وجود میں آئی ہیں اور یہ گیس اور گردوغبار پر مشتمل بڑی بڑی ساختیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ستارے گیس اور گردوغبار سے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ ایک مقام پر مادہ جمع ہوتا ہے اور ثقل اور دباؤ کے تحت بھڑک اٹھتا ہے۔

اس طرح ایک ہی تصویر میں نئے ستارے اور ان کی تشکیل کا خام مال دیکھا جاسکتا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز
سائنسدان
2347325-mainimagefinal-1657643131-636-640x480.gif

ناسا نے جیمزویب دوربین کی نئی تصاویر جاری کردی ہیں جن میں سے اس تصویر میں نئے ستاروں کی نرسری کو دیکھا جاسکتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ ناسا

پیساڈینا، کیلیفورنیا: اربوں ڈالر مالیت اور 20 سال تک ہزاروں سائنسدانوں کی کاوش سے تیار کی جانے والی جیمز ویب خلائی دوربین نے قریب اور بعید ترین کائنات کی مزید مسحورکن تصاویر جاری کردی ہیں۔

ایک تصویر میں نظامِ شمسی سے پرے ایک سیارہ دیکھا جاسکتا ہے جس میں آبی بخارات دریافت ہوئے ہیں۔ دوسری تصویر میں ایک مرتے ہوئے ستارے کو نیبولہ کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ تیسری تصویر میں خوبصورت کہکشائیں ایک دوسرے سے ملاپ کررہی ہیں اور چوتھی تصویر میں نئے ستاروں کی پیدائش اور اس کے نیچے ان ستاروں کا خام مال دیکھا جاسکتا ہے۔

ناسا کی جانب سے براہِ راست نشریات میں گویا اسٹار پارٹی کی صورت میں ان اہم تصاویر کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ ان تصاویر کی پروسیسنگ دریافت اور اس پر کام کرنے والے ماہرین نے ان کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی وقت کے مطابق صبح تین بجے امریکی صدر جوبائیڈن نے جیمز ویب کی جانب سے جاری پہلی تصویر جاری کی تھی جو ایک انتہائی قدیم کہکشاں ایس ایم اے سی 0723کی تھی۔ یہ کہکشاں کائنات کی پیدائش کے صرف ایک ارب سال بعد پیدا ہوئی تھی۔ اسے دیکھ کر ہم کائنات میں کہکشاؤں کے ارتقا کو جان سکتے ہیں۔

firstimage-1657642078.jpg

تاہم آج ناسا نے مزید چار تصاویر جاری کی ہیں جن میں سے پہلی تصویر بالراست ایک سیارے کو ظاہر کرتی ہے۔

واسپ 96 بی: آبی بخارات کا حامل سیارہ
wasp-planet-1657642324.jpg

دوربین سے جاری پہلی تصویر، نظامِ شمسی سے پرے کسی اور سیارے یعنی ایگزپلانیٹ کی پہلی تصویر ہے۔ یہ گرم گیسوں والا ایک سیارہ ہے جس کی براہِ راست تصویر تو نہیں لی جاسکی تاہم اس کی فضا میں پانی مائع کی بجائے بخارات یا بھاپ کی صورت میں موجود ہے۔

سدرن رِنگ نیبولہ: مرتے ستارے کا احوال

nebula-1657642508.jpg



دوسری تصویر ستارے کی آخری ہچکی کو نیبولہ کی صورت میں ظاہر کرتی ہے۔ یہ ایک خوبصورت پلانیٹری نیبولہ ہے۔ اس کا مادہ لہروں کی صورت دکھائی دے رہا ہے۔ نارنجی رنگ ہائیڈروجن کی وجہ سے ہے۔ درمیان میں نیلی روشنی گرم آئنوائز گیس کو ظاہر کررہی ہے۔ اس نیبولہ کی تصویر کے درمیان میں انتہائی قریب دو ستارے دکھائی دے رہے ہیں۔

اسٹیفینس کوئنٹیٹ: رقصِ کہکشاں

تیسری تصویر اسٹیفینس کوئنٹیٹ ہے جو چار کہکشاؤں کا ایک مجموعہ ہے۔ اس میں دسیوں لاکھ سے لے کر ارب ستارے تک ہوسکتے ہیں۔ یہ کہکشاں ہم سے 30 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔ دائیں جانب نیچے والی کہکشاں اوپر موجود کہکشاں سے ملاپ کررہی ہے۔

galaxies-1657642771.jpg



اس میں کہکشاں ایک دوسرے میں مدغم دکھائی دے رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ ایک نہایت اہم تصویر بھی ہے۔ اس سے کہکشاں کا ارتقائی عمل بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس میں نیئر(قریبی) اور مڈ(درمیانی) انفراریڈ تصاویر کو ملایا گیا ہے۔ پس منظر میں کئ ستارے بن رہے اور گیس و گردوغبار بھی دکھائی دے رہی ہے۔

اسی تصویر میں جب قریبی انفراریڈ طیف کو ہٹایا گیا تو مزید تفصیل سامنے آئی ہیں جن میں ایک سرگرم بلیک ہول کی نشاندہی بھی ہوئی ہے۔ بلیک ہول اطراف کی روشن گیس کو گویا اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ اس عمل سے گرم گیس کے لپٹے مزید دہکنے لگے ہیں اور ان کی روشنی ہمارے سورج سے 40 ارب گنا ہوگئی ہے جو اوپرکی کہکشاں میں غیرمعمولی روشنی کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔

نیئر انفراریڈ اسپیکٹروگراف، اس کا خاص طیف نگار، یورپی خلائی ایجنسی نے بنایا ہے جو ناسا سے اشتراک کے تحت سامنے آیا ہے۔ اسپیکٹروگراف بتاتا ہے کہ کسی خلائی جسم کی کیمیائی ترکیب کیا ہے اور اس میں کونسے عناصر موجود ہیں۔

کیرینا نیبولہ:نئے ستاروں کی نرسری

اسے جیمز ویب کی سب سے اہم اور خوبصورت تصویر قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ ستاروں کی نرسری ہے جہاں نت نئے ستارے پیدا ہورہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت اور مسحور کن تصویر ہے۔ یہ مقام ہمارے کرہِ ارض سے 7600 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایسا منظر انسانی آنکھ نے پہلے نہیں دیکھا تھا جس میں سینکڑوں نئے ستارے پیدا ہورہے ہیں۔

star-isborn-1657642959.jpg


اس تصویر میں بلبلہ نما ساخت، خالی جگہیں اور دیگر خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں جو نئے ستارے کے وجود کے ساتھ ہی سامنے آئے ہیں۔ تاہم اس کے پس منظر میں مزید کہکشائیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ البتہ کچھ ساختیں ایسی ہیں جن پرابھی غورکیا جانا ہے کہ وہ کس طرح وجود پذیر ہوئی ہیں۔

تصویر کے اوپری نیلے حصے میں بہت بڑے ستارے دیکھے جاسکتے ہیں جو حال ہی میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس کے نیچے براؤن اور نارنجی ساختیں انہی ستاروں کی اشعاع (ریڈی ایشن) سے وجود میں آئی ہیں اور یہ گیس اور گردوغبار پر مشتمل بڑی بڑی ساختیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ستارے گیس اور گردوغبار سے ہی تشکیل پاتے ہیں۔ ایک مقام پر مادہ جمع ہوتا ہے اور ثقل اور دباؤ کے تحت بھڑک اٹھتا ہے۔

اس طرح ایک ہی تصویر میں نئے ستارے اور ان کی تشکیل کا خام مال دیکھا جاسکتا ہے۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز
سائنسدان کہکشاوں میں کیا ڈھونڈ رہے ہیں زندگی ، پانی ،آبی جانور ، یا ایلین یہ ایجادات کرنے میں اتنا وقت اور پیسا برباد ہورہا ہے اِن کا فائدہ کیا ہے کیا کسی کو معلوم ہے؟
 
ویسے یہ سائنس کا موضوع ہے بڑا ہی دلچسپ ایک بار ہم آفس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سائنس کے موضوع پر بات چھڑ گئی تو معلومات میں کافی اضافہ ہوا اور اللہ کی قدرت دیکھ کر اِس دُنیا کی حقیقت کا بھی اندازہ ہوا کہ اِس دُنیا کی حقیقت واقعی ایک ریت میں پڑے زرے کے برابر بھی نہیں ہے شاید
اِس کہکشاں میں زمین جیسے چھ ارب سیارے ہیں ۔جو زمین سے قریب سیارے ہیں وہ آٹھ ہیں اور یہ سب سیارے سورج کے گِرد گردش کررہے ہیں ۔ لیکن ایک بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ سورج بھی کسی کے گِرد گردش کررہا ہے ۔ اور وہ ہے بلیک ہول لیکن ابھی تک بلیک ہول کےاندر کسی سائنسدان نے ایجاد نہیں کی ہے کیونکہ وہاں پر کششِ ثقل بہت زیادہ ہے ۔ بلیک ہول بہت سےختم ہونے والے سیاروں کو اپنے اندر سمالیتا ہے لیکن بات یہ آتی ہے اگر بلیک ہول اُن ختم ہونے والے سیاروں اور ستاروں کو اپنے اندر رکھتا ہے تو یہ ستاروں اور سیاروں کا کچرا کہا جاتا ہے۔ بلیک ہول تو بالکل بلیک ہے اُس میں جو بھی چیز اب تک گئی ہے وہ واپس نہیں آئی ۔ لیکن اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق بلیک ہول کسی دوسری دُنیا میں جانے کا راستہ بھی ہوسکتا ہے ۔ بلیک ہول مسلسل اپنے آپ کو بڑھاتا جارہا ہے۔ بلیک ہول سے یہ بات بھی ثابت ہوسکتی ہے واللہ عالم ہوسکتا ہے اللہ پاک نے اِسی راستے کے ذریعے حضرت محمد ﷺ کو معراج عطا کی ہو ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سائنسدان

سائنسدان کہکشاوں میں کیا ڈھونڈ رہے ہیں زندگی ، پانی ،آبی جانور ، یا ایلین یہ ایجادات کرنے میں اتنا وقت اور پیسا برباد ہورہا ہے اِن کا فائدہ کیا ہے کیا کسی کو معلوم ہے؟

اللہ تعالیٰ انہیں اپنی قدرت دکھانا چاہتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
یہ سب پڑھ اور دیکھ کے نہ صرف دلچسپ اور خوبصورت لگتا ہے بلکہ ایک عجیب سی ہیبت بھی طاری ہوتی ہے۔
کس قدر بڑی کائنات ہے اور اس میں کیا کیا کچھ ہے۔ ہر طرح کی بڑی سے بھی بڑی اور چھوٹی سے بھی چھوٹی اشیاء۔
ہیبت کے ساتھ، اللہ کی کبریائی، اللہ کے اکبر ہونے کا اس قدر شدید احساس ہوتا ہے کہ شاید کسی اور موقع پہ اتنا یا ایسا نہ ہوتا ہو۔ اور پھر اپنے اصغر ہونے کا احساس ۔۔۔ ہم بھلا کیا ہیں! کس چیز پہ اکڑ، غرور!!
میں تو کب بھی یہ معلومات پڑھتی اور تصاویر دیکھتی ہوں۔۔۔ بہت زیادہ متاثر ہوتی ہوں۔
 
Top