مہ جبین
محفلین
کہکشاں وقت کی پلکوں پہ اتر آئی ہے
آسماں تک مِری آہوں کی پذیرائی ہے
کیا تجلی ہے کہ ہر آنکھ میں در آئی ہے
کیا تماشا ہے کہ ہر شخص تماشائی ہے
بارہا سلسلہ کفارہء جاں تک پہنچا
بارہا تجھ سے نہ ملنے کی قسم کھائی ہے
آئنہ بن گیا جس شخص نے دیکھا تجھ کو
آئنہ ساز تِرا حسنِ خود آرائی ہے
میں نے دیکھا ہے بکھرتے ہوئے شیرازہء گل
میری نظروں میں مآلِ چمن آرائی ہے
نہ کوئی دیکھنے والا نہ سجانے والا
زخمِ دل آئنہء لالہء صحرائی ہے
پھر مِرے چاکِ گریباں کی نمائش ہوگی
پھر خرد کو ہوسِ انجمن آرائی ہے
اب کوئی شعلہء آواز اٹھے یا نہ اٹھے
آرزو بامِ سماعت سے اتر آئی ہے
دلِ پُر داغ بھی اک طرفہ تماشا ہے ایاز
بزم کی بزم ہے تنہائی کی تنہائی ہے
ایاز صدیقی