بحر -- مفاعیلن مفاعیلن
کہیں اب اور چلتے ہیں
ترے دل سے نکلتے ہیں
گرا دے جن کو نظروں سے
کہاں پھر وہ سنبھلتے ہیں
ابھی تک بند آنکھوں سے
تری ہی راہ تکتے ہیں
جو جانا دور ہوان کو
مسافر صبح چلتے ہیں
جو جانا ہو گلی ان کی
قدم پھونک کے رکھتے ہیں
وہ ہم کو بعد کھونے کے
ابھی تک ہاتھ ملتے ہیں
پھر اس کو پانے کی خاطر
کمر اک بار کستے ہیں
پرانی بات چھوڑو بھی
نئی بنیاد رکھتے ہیں
تو جس میں ساتھ تھا اپنے
وہی پھر خواب تکتے ہیں