میں نپچھلی شکل کی اصلاح کے ساتھ حاضر ہوں۔
کہیں اب اور چلتے ہیں
ترے دل سے نکلتے ہیں
//قوافی کی غلطی پر بات ہو چکی ہے۔میرا خیال ہے کہ اس میں ’لتے ہیں‘ والے اشعار کی ایک غزل بنا لو، باقی اشعار فی الحال ’زنبیل‘ میں ڈال کر رکھ لو۔
گرا دے جن کو نظروں سے
کہاں پھر وہ سنبھلتے ہیں
//کون؟ یہ واضح نہیں ہوا،
گریں جو تیری نظروں سے
کہاں پھر وہ سنبھلتے ہیں
کر دو
جو جانا دور ہو ان کو
مسافر صبح چلتے ہیں
//یہاں چلنا نہیں نکلنا کا محل ہے۔ لیکن صبح جلدی کا مطلب ظاہر نہیں ہوتا۔
وہ پو پھٹتے نکلتے ہیں
بہتر ہو گا
وہ ہم کو بعد کھونے کے
ابھی تک ہاتھ ملتے ہیں
//پہلا مصرع رواں نہیں
وہ کب کے کھو چکے ہم کو
ابھی تک ہاتھ ملتے ہیں
اب ان اشعار کو دیکھ لو:
پھر اس کو پانے کی خاطر
کمر اک بار کستے ہیں
پرانی بات چھوڑو بھی
نئی بنیاد رکھتے ہیں
تو جس میں ساتھ تھا اپنے
وہی پھر خواب تکتے ہیں
ابھی تک بند آنکھوں سے
تری ہی راہ تکتے ہیں
جو جانا ہو گلی ان کی
قدم پھونک کے رکھتے ہیں
قوافی کے علاوہ ان میں مجھے صرف ’خواب تکنا‘ پسند نہیں آیا، اور ’قدم پھونک‘ تقطیع میں نہیں آتا۔