کہیں اب اور چلتے ہیں --- برائے اصلاح

اگر ہم خود ہی چاہ رہیں ہوں کہ حرفِ روی (شاید صحیح کہہ رہا ہوں) قافیہ میں 'لام' یا 'کاف' کے بجائے 'ت' ہو تو پھر؟

وہ جس کی آپ بات کرہے ہیں وہ قافیہ مجردہ کہلاتا ہے جو کے عیب ہے بہر حال.
عہد حاضر میں اس بات کو نظر انداز ہی کیا جاتا ہے اور ڈوبتے کا قافیہ چونکتے. جلتے کا قافیہ تکتے باندھا جاتا ہے. یہ ایطائے جلی ہے یعنی ایک عیب ہے. اسکی اجازت اساتذہ اور فصحا کی طرف سے تو کم از کم نہیں ہے.
 

شام

محفلین
یہ تو اب پڑھ رہا ہوں ٹھیک سے.
مطلع میں اگر پابندی نہ بھی ہو تب بھی قافیہ غلط ہی ہوگا.
پابندی ہونے نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا.
مطلع میں بھی پہلے مصرعے کا قافیہ چلتے اور دوسرے کا تکتے جائز نہیں ہے.
پوری غزل تو بعد میں آئے گی.

مزمل بھائی کچھ سمجھ نہیں آئی
مطلع میں تو قافیہ " نکلتے " اور " چلتے " ہیں اور آپ " چلتے " اور " تکتے" کا تذکرہ کر رہے ہیں کیا "نکلتے اور چلتے " درست قافیہ نہیں ہیں اور اگر نہیں ہیں تو کیوں اور اگر قافیہ بندی پر کچھ تفصیلی معلومات (آن لائن) مل جائیں تو اچھا ہے تا کہ میں آئندہ سے خیال رکھ سکوں
 

شام

محفلین
کہیں اب اور چلتے ہیں​
ترے دل سے نکلتے ہیں​
گرا دے جن کو نظروں سے​
کہاں پھر وہ سنبھلتے ہیں​
جو جانا دور ہوان کو​
مسافر صبح چلتے ہیں​
وہ ہم کو بعد کھونے کے​
ابھی تک ہاتھ ملتے ہیں​
چلو ہم خود کو کچھ لمحے/مزاج اپنا چلو ہم اب​
تری خاطر بدلتے ہیں​

کیا اس غزل کے قوافی درست ہیں
 
کہیں اب اور چلتے ہیں​
ترے دل سے نکلتے ہیں​
گرا دے جن کو نظروں سے​
کہاں پھر وہ سنبھلتے ہیں​
جو جانا دور ہوان کو​
مسافر صبح چلتے ہیں​
وہ ہم کو بعد کھونے کے​
ابھی تک ہاتھ ملتے ہیں​
چلو ہم خود کو کچھ لمحے/مزاج اپنا چلو ہم اب​
تری خاطر بدلتے ہیں​

کیا اس غزل کے قوافی درست ہیں

جی قوافی درست ہیں.
یعنی ہم آواز ہیں سب الفاظ.
چل, سنبھل, نکل, بدل. :)
 

الف عین

لائبریرین
میں نپچھلی شکل کی اصلاح کے ساتھ حاضر ہوں۔
کہیں اب اور چلتے ہیں
ترے دل سے نکلتے ہیں
//قوافی کی غلطی پر بات ہو چکی ہے۔میرا خیال ہے کہ اس میں ’لتے ہیں‘ والے اشعار کی ایک غزل بنا لو، باقی اشعار فی الحال ’زنبیل‘ میں ڈال کر رکھ لو۔
گرا دے جن کو نظروں سے
کہاں پھر وہ سنبھلتے ہیں
//کون؟ یہ واضح نہیں ہوا،
گریں جو تیری نظروں سے
کہاں پھر وہ سنبھلتے ہیں
کر دو

جو جانا دور ہو ان کو
مسافر صبح چلتے ہیں
//یہاں چلنا نہیں نکلنا کا محل ہے۔ لیکن صبح جلدی کا مطلب ظاہر نہیں ہوتا۔
وہ پو پھٹتے نکلتے ہیں
بہتر ہو گا

وہ ہم کو بعد کھونے کے
ابھی تک ہاتھ ملتے ہیں
//پہلا مصرع رواں نہیں
وہ کب کے کھو چکے ہم کو
ابھی تک ہاتھ ملتے ہیں

اب ان اشعار کو دیکھ لو:

پھر اس کو پانے کی خاطر
کمر اک بار کستے ہیں
پرانی بات چھوڑو بھی
نئی بنیاد رکھتے ہیں
تو جس میں ساتھ تھا اپنے
وہی پھر خواب تکتے ہیں
ابھی تک بند آنکھوں سے
تری ہی راہ تکتے ہیں
جو جانا ہو گلی ان کی
قدم پھونک کے رکھتے ہیں
قوافی کے علاوہ ان میں مجھے صرف ’خواب تکنا‘ پسند نہیں آیا، اور ’قدم پھونک‘ تقطیع میں نہیں آتا۔
 

شام

محفلین
کہیں اب اور چلتے ہیں​
ترے دل سے نکلتے ہیں​
گریں جو تیری نظروں سے​
کہاں پھر وہ سنبھلتے ہیں​
وہ کب کے کھو چکے ہم کو​
ابھی تک ہاتھ ملتے ہیں​
جو جانا دور ہو ان کو​
وہ پو پھٹتے نکلتے ہیں​
اس شعر کو اگر ایسے کر دوں​
سو، جانا دور ہو جن کو​
وہ پو پھٹتے نکلتے ہیں​
چلو ہم خود کو کچھ لمحے/مزاج اپنا چلو ہم اب
تری خاطر بدلتے ہیں
بہت دن رہ لیا یاں اب
کسی جنگل میں چلتے ہیں
 

شام

محفلین
اب ان اشعار کو دیکھ لو:

پھر اس کو پانے کی خاطر
کمر اک بار کستے ہیں
پرانی بات چھوڑو بھی
نئی بنیاد رکھتے ہیں
تو جس میں ساتھ تھا اپنے
وہی پھر خواب تکتے ہیں
ابھی تک بند آنکھوں سے
تری ہی راہ تکتے ہیں
جو جانا ہو گلی ان کی
قدم پھونک کے رکھتے ہیں
قوافی کے علاوہ ان میں مجھے صرف ’خواب تکنا‘ پسند نہیں آیا، اور ’قدم پھونک‘ تقطیع میں نہیں آتا۔

اس کا مطلع لگا کر ایک اور غزل کی کوشش کرتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
سو، جانا دور ہو جن کو​
وہ پو پھٹتے نکلتے ہیں​
’سو‘ رواں نہیں، ویسے رواں صورتیں بھی ممکن ہیں، جیسے​
جو منزل دور ہو ان کی​
چلو ہم خود کو کچھ لمحے/مزاج اپنا چلو ہم اب​
تری خاطر بدلتے ہیں​
دوسرا مصرع بہتر ہے، مزاج والا۔ شعر درست ہے۔​
بہت دن رہ لیا یاں اب​
کسی جنگل میں چلتے ہیں​
÷÷یہاں صیغے کی گڑبڑ ہے۔​
بہت دن رہ لئے یاں، اب​
بہتر ہے​
 

شام

محفلین
تو اب اس غزل کی شکل یہ بنی ہے

کہیں اب اور چلتے ہیں​
ترے دل سے نکلتے ہیں​
گریں جو تیری نظروں سے​
کہاں پھر وہ سنبھلتے ہیں​
وہ کب کے کھو چکے ہم کو​
ابھی تک ہاتھ ملتے ہیں​
جو منزل دور ہو ان کی​
وہ پو پھٹتے نکلتے ہیں​
مزاج اپنا چلو ہم اب​
تری خاطر بدلتے ہیں​
بہت دن رہ لیے یاں اب​
کسی جنگل میں چلتے ہیں​
 
Top