کاشفی
محفلین
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
مجھے اپنے خوابوں کی بانہوں میں پاکر
کبھی نیند میں مسکراتی تو ہوگی
اُسی نیند میں کسمسا کسمسا کر
سرہانے سے تکیے گراتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
وہی خواب دن کے منڈیروں پہ آکے
اُسے مَن ہی مَن میں لبھاتے تو ہوں گے
کئی ساز سینے کی خاموشیوں میں
میری یاد میں جھنجھناتے تو ہوں گے
وہ بےساختہ دھیمے دھیمے سُروں میں
میری دُھن میں کچھ گُنگناتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
چلو خط لکھیں، جی میں آتا تو ہوگا
مگر اُنگلیاں کپکپاتی تو ہوں گی
قلم ہاتھ سے چھوٹ جاتا تو ہوگا
اُمنگیں قلم پھر اُٹھاتی تو ہوں گی
مرا نام اپنی کتابوں پہ لکھ کر
وہ دانتوں میں اُنگلی دباتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
زباں سے کبھی اُف نکلتی تو ہوگی
بدن دھیمے دھیمے سُلگتا تو ہوگا
کہیں کے کہیں پاؤں پڑتے تو ہوں گے
زمیں پر دوپٹہ لٹکتا تو ہوگا
کبھی صبح کو شام کہتی تو ہوگی
کبھی رات کو دن بتاتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
ہر اک چیز ہاتھوں سے گرتی تو ہوگی
طبیعت پہ ہر کام کھَلتا تو ہوگا
پلیٹیں کبھی ٹوٹ جاتی تو ہوگی
کبھی دودھ چولہے پہ جلتا تو ہوگا
غرض اپنی معصوم نادانیوں پر
وہ نازک بدن جھینپ جاتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
مجھے اپنے خوابوں کی بانہوں میں پاکر
کبھی نیند میں مسکراتی تو ہوگی
اُسی نیند میں کسمسا کسمسا کر
سرہانے سے تکیے گراتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
شاعر: کمال امروہوی
فلم: شنکر حسین 1977
میوزک ڈائیرکٹر: خیام
گلوکار: محمد رفیع
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
مجھے اپنے خوابوں کی بانہوں میں پاکر
کبھی نیند میں مسکراتی تو ہوگی
اُسی نیند میں کسمسا کسمسا کر
سرہانے سے تکیے گراتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
وہی خواب دن کے منڈیروں پہ آکے
اُسے مَن ہی مَن میں لبھاتے تو ہوں گے
کئی ساز سینے کی خاموشیوں میں
میری یاد میں جھنجھناتے تو ہوں گے
وہ بےساختہ دھیمے دھیمے سُروں میں
میری دُھن میں کچھ گُنگناتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
چلو خط لکھیں، جی میں آتا تو ہوگا
مگر اُنگلیاں کپکپاتی تو ہوں گی
قلم ہاتھ سے چھوٹ جاتا تو ہوگا
اُمنگیں قلم پھر اُٹھاتی تو ہوں گی
مرا نام اپنی کتابوں پہ لکھ کر
وہ دانتوں میں اُنگلی دباتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
زباں سے کبھی اُف نکلتی تو ہوگی
بدن دھیمے دھیمے سُلگتا تو ہوگا
کہیں کے کہیں پاؤں پڑتے تو ہوں گے
زمیں پر دوپٹہ لٹکتا تو ہوگا
کبھی صبح کو شام کہتی تو ہوگی
کبھی رات کو دن بتاتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
ہر اک چیز ہاتھوں سے گرتی تو ہوگی
طبیعت پہ ہر کام کھَلتا تو ہوگا
پلیٹیں کبھی ٹوٹ جاتی تو ہوگی
کبھی دودھ چولہے پہ جلتا تو ہوگا
غرض اپنی معصوم نادانیوں پر
وہ نازک بدن جھینپ جاتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
مجھے اپنے خوابوں کی بانہوں میں پاکر
کبھی نیند میں مسکراتی تو ہوگی
اُسی نیند میں کسمسا کسمسا کر
سرہانے سے تکیے گراتی تو ہوگی
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
شاعر: کمال امروہوی
فلم: شنکر حسین 1977
میوزک ڈائیرکٹر: خیام
گلوکار: محمد رفیع