کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ جہاد کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کررہا ہے !! خورشید ندیم

زرقا مفتی

محفلین
فواد
میں یا میرے جیسے لوگ عام پاکستانی کی نمائندگی کرتے ہیں جو یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی نہ تو پاکستان کے مفاد میں کام کر رہی ہے نہ افغانستان کے اور نہ ہی اسلام کے
یہ اُس گروہ سے متعلقہ ہیں جنہیں امریکہ نے روس کے خلاف جہادی بنایا تھا۔ یہ آج بھی پیسے کے لئے لڑتے ہیں ۔ اور یہ پیسہ انہیں پاکستان نہیں دے رہا
امریکی انٹیلیجنس خوب واقف ہے کہ ٹی ٹی پی کس کے لئے کام کرتی ہے
امریکہ اب وہی ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے جو اُس نے ویت نام سے نکلتے وقت کئے تھے ۔ ﴿متحارب گروپوں کو لڑوا کر خود جنگ سے علیحدگی اختیار کرنا﴾
لڑائی سے بہتر ہے کہ ہم ٹی ٹی پی کو ہتھیار ڈالنے کے عوض معاوضہ ، زمین یا روزگار کی پیشکش کریں اور انشا اللہ امن کے لئے ہم یہ قیمت ادا کر سکیں گے
 

Fawad -

محفلین
امریکی انٹیلیجنس خوب واقف ہے کہ ٹی ٹی پی کس کے لئے کام کرتی ہے
۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


کچھ رائے دہندگان اپنے دلائل ايسے دعوؤں کو بنياد بنا کر پيش کرتے ہيں جو ناقابل فہم بھی ہوتے ہيں اور پڑھنے والوں سے اس غلط توقع کے متقاضی بھی ہوتے ہيں کہ ان بے سروپا الزامات کو من وعن حقيقت سمجھ کر تسليم کر ليا جائے۔

دسمبر 2007 ميں تحريک طالبان پاکستان کا باضابطہ اعلان بيت اللہ محسود کی قيادت ميں کيا گيا تھا۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے آپ کو ياد دلا دوں کہ امريکی فوج نے اگست 2007 ميں ہی بيت اللہ محسود کی گرفتاری پر پچاس ہزار ڈالرز کا انعام رکھا تھا جسے امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے مارچ 25 2009 کو بڑھا کر 5 ملين ڈالرز کر ديا تھا۔

ستمبر 1 2010 کو امريکہ نے تحريک طالبان پاکستان کو ايک بيرونی دہشت گرد تنظيم قرار ديا اور حکيم اللہ محسود اور ولی الرحمن کو "خصوصی عالمی دہشت گرد" قرار ديا۔ تحريک طالبان پاکستان کو ايک دہشت گرد تنظيم کا درجہ ديے جانے کے بعد اس تنظيم کی حمايت يا اس سے ميل ملاپ ايک جرم ہے اور امريکی حکومت اس تنظيم سے متعلق کسی بھی اثاثے کو منجمند کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے علاوہ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ نے ان دونوں افراد کی حدود واربعہ سے متعلق معلومات مہيا کرنے پر 5 ملين ڈالرز کا انعام بھی مقرر کيا۔

امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ اس طرح کے انعام کے اعلان کا صرف اسی صورت ميں مجاز ہوتا ہے جب کسی ايسے شخص کی گرفتاری کے ليے معلومات درکار ہوں جو يا تو اپنے اعمال، منصوبہ بندی، سازش، امداد يا ترغيب کے ذريعے امريکی املاک يا افراد کے خلاف عالمی دہشت گردی کی کاروائ ميں ملوث ہو۔ بيت اللہ محسود پر انعام کا اعلان اور تحريک طالبان پاکستان نامی تنظيم کو دہشت گرد قرار ديا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امريکی حکومت نے ہميشہ اس تنظيم کو اپنے شہريوں کے ليے براہراست خطرہ سمجھا ہے۔

اگر آپ گزشتہ چند برسوں کے دوران بيت اللہ محسود سميت تحريک طالبان پاکستان کے سرکردہ قائدين کے بيانات پڑھيں تو آپ پر يہ واضح ہو جائے گا کہ ان کی جانب سے تواتر کے ساتھ امريکہ کی حدود کے اندر دہشت گردی کی کاروائيوں کی دھمکی موجود تھی۔

مارچ 2009 سے ايک مثال

http://www.longwarjournal.org/archives/2009/03/baitullah_mehsud_tak.php

اس کے علاوہ تحريک طالبان پاکستان کے ليڈر قاری محسود نے اپريل 2010 ميں ايک ويڈيو بيان ريکارڈ کروايا جس ميں يہ دعوی کيا کہ امريکہ کے شہروں پر حملے ان کا اصل ہدف ہيں۔ تحريک طالبان پاکستان نے دسمبر 2009 ميں کيمپ چيپ مین ميں امريکی تنصيبات پر خودکش حملے اور مئ 2010 ميں نیويارک کے ٹائم سکوائر پر حملے کی کوشش کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

يہ بيانات صرف امريکی اور مغربی ذرائع ابلاغ پر ہی نہيں بلکہ پاکستانی ميڈيا پر بھی موجود ہيں۔

حکمت عملی کے اعتبار سے امريکی حکومت کو ايسی تنظيم کو مدد فراہم کرنے کے نتيجے ميں کوئ فائدہ نہيں ہے جو برملا ہمارے ہی شہريوں کو ہلاک کرنے کی دھمکياں دے رہے ہیں۔ يہ تنظيم سرحد کے دونوں اطراف پاکستانی اور نيٹو افواج پر کئ براہراست حملوں کی ذمہ دار ہے۔

يہ ايک مسلم حقيقت ہے کہ تحريک طالبان پاکستان نامی تنظيم کے کئ قائدين، افغانستان ميں لڑائ ميں ملوث رہے ہیں اور نيٹو کی قيادت ميں آئ – ايس – اے – ايف کے فوجیوں سے برسرپيکار گروہوں کو تربيت، سازوسامان اور افرادی قوت فراہم کرتے رہے ہيں۔ مئ 2010 کو اپنے ايک انٹرويو کے دوران امريکی جرنل ڈيوڈ پيٹريس نے تحريک طالبان پاکستان اور ديگر جنگجو گروپوں کے مابين تعلقات کو ان الفاظ ميں بيان کيا۔

"ان تمام مختلف تنظيموں کے مابین ايک قريبی تعلق موجود ہے جن ميں القائدہ، پاکستانی طالبان، افغان طالبان اور تحريک نفاذ شريعت محمدی شامل ہيں۔ يہ تنظيميں ايک دوسرے کی مدد بھی کرتی ہیں اور مل جل کر کام بھی کرتی ہيں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔حتمی تجزيے ميں ان کے درميان مخصوص رشتہ قائم ہے"۔

ايسی کوئ قابل فہم وجہ موجود نہيں ہے جو اس بے بنياد الزام کو تقويت دے سکے کہ امريکی حکومت کيونکر ايک ايسی تنظيم کی حمايت کرے گی جو کہ نا صرف يہ کہ خود ہمارے اپنے فوجيوں کے ليے براہرست خطرہ ہے بلکہ پاکستان سميت دنيا بھر ميں ہمارے اتحاديوں کے لیے ايک تسليم شدہ دشمن کی حيثيت رکھتی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
امریکہ افغانستان سے باعزت واپسی چاہتا ہے اس کے لئے وہ طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے
پاکستان کو بھی پورا حق ہے کہ وہ اپنے داخلی استحکام کے لئے بے مقصد جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر ے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی رچرڈ اولسن نے طالبان کے حوالے سے جو بيان ديا ہے وہ کوئ نئ پاليسی نہيں ہے۔ ان کا حاليہ بيان ہمارے اس ديرينہ موقف کی توثيق تھا کہ جو مسلح گروپ دہشت گردی کو ترک کر کے امن معاہدوں کا حصہ بننا چاہتے ہيں اور قانونی طريقے سے سياسی دائرے ميں شامل ہونا چاہتے ہيں انھيں اس کا پورا موقع ديا جائے گا۔ اور يہ پاليسی افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کے گروپوں کے ليے يکساں ہے۔

يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ يہ امريکی حکومت کی جانب سے کوئ نئ حکمت عملی نہيں ہے۔ جولائ 2010 ميں بھی 5 طالبان کے نام اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی اس لسٹ سے حذف کيے گئے تھے جن پر پہلے پابندياں عائد کی جا چکی تھيں۔

امریکی حکومت نے ہميشہ يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ہم ہر اس عمل اور کوشش کی حمايت کريں گے جو دہشت گردی سے جنم لينے والے تشدد کے خاتمے کی جانب پيش رفت کرنے ميں مدد گار ثابت ہو۔ اگر گفت وشنيد کا مقصد يہ ہو کہ مسلح افراد کو قانونی اور سياسی دائرہ عمل ميں لايا جا سکے اور اس کے نتيجے ميں افغانستان اور اس کے اداروں کی ترقی اور استحکام کے عمل کو آگے بڑھايا جا سکے تو يقينی طور پر اس کا فائدہ تمام فریقين کو ہو گا۔

بنيادی نقطہ يہ ہے کہ کسی بھی طے پانے والے معاہدے کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے موجود تحفظات اور ان کے خاتمے سے متعلق ہونا چاہیے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

سویدا

محفلین
طالبان پاکستان اور القاعدہ کے پیچھے امریکہ خود موجود ہے
طالبان سے جان بوجھ کر امریکہ مخالف بیانات دلوائے جاتے ہیں ، طالبان پاکستان دھمکیاں امریکہ کو دے رہے ہیں اور کاروائیاں پاکستان میں ہورہی ہے ،:LOL:
اور پھر امریکہ کود پڑتا ہے کہ امریکی سلامتی کو خطرہ ہے
یعنی پورا پاکستان امریکہ نے طالبان کے ہاتھوں برباد کردیا اور خطرہ اب بھی امریکی سلامتی کو ہے
خدا کے لیے اس قسم کے بودے اور فضول دلائل نہ دیا کریں بچہ بھی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ کونسی ڈانٹ کس مقصد کے لیے اسے پلائی گئی ہے
امریکہ جہاد ، طالبان اور القاعدہ کو اپنے مقاصد کے لیے بخوبی استعمال کررہا ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد
امریکہ کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی خطے میں اپنے مفاد کے لئے وہ مقامی افراد کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے۔ استعمال کے بعد ضائع کر دیتا ہے ۔ اس لئے ان طویل وضاحتوں کی ضرورت نہیں
بیت اللہ محسود ہوں یا اسامہ بن لادن کسی نے نہ تو اسلام کا بھلا کیا نہ ہی پاکستان کا
پاکستان کا افغانستان کے معاملات میں اُلجھنا سب سے بڑی غلطی تھی۔ ہم نے اس کا ضرورت سے زیادہ خمیازہ بھگت لیا ۔ امریکہ کے مفادات کو اپنے مفادات سے بہتر ترجیح پر رکھنا ہماری ایک اور غلطی تھی
امریکہ سے طلاق ہی پاکستان کو اسکا تشخص واپس دلوا سکتی ہے
 

ساجد

محفلین
یہ وہی طالبان ہیں نا جو بقول امریکہ کے دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہیں ؟اور امریکی ہمت کو داد دیجئے کہ اسی خطرے سے امریکہ مذاکرات بھی کرتا رہا اور دہشت گردی کے ڈرامے بھی ایکٹ کرتا رہا۔ اب ”کوچہ یار“ سے امریکی وداعی کا وقت بہت قریب آ چکا ہے تو سبھی دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر کو لاحق خطرہ یعنی طالبان مذاکرات پر بھی آمادہ ہو چکے ہیں اور ہماری مذبذب حکومت ایک بار پھر امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں ان کو رہا بھی کر رہی ہے۔ جو دشمن ہے وہ دشمن ہے جس دشمن نے 40000 کے قریب پاکستانیوں کو قتل کر دیا وہ سزا کا مستحق ہے مذاکرات کا حق دار نہیں۔
اور روز اول سے یہ بات سچ ہے کہ موجودہ طالبان امریکی ایجنڈے کے تحت سی آئی اے کی ایجنٹی کر رہے ہیں اصل طالبان تو امریکی حملے کے بعد ہی قتل کر دئیے گئے یا انہیں منتشر کر دیا گیا لیکن امریکہ طالبان کے ٹریڈ مارک کے ساتھ 12 برس سے دنیا بھر کے سامنے جھوٹ بولتا رہا۔ پاکستانی عوام کے خون کی قیمت ہی کیا ہےِ؟۔
 

Fawad -

محفلین
ارے بابا Fawad - یہ ٹی ٹی پی بھی تو تمہارا ہی ہراول دستہ ہے ان کو ٹنوں کے حساب سے اسلحہ بارود ،جدید ڈبل کیبن گاڑیاں ،جدید مواشلاتی نظام تو تم ہی دے رہے ہو۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جولائ 4 1999 کو صدر بل کلنٹن نے ايک براہراست حکم نامہ جاری کيا تھا جس کی رو سے طالبان کے حوالے سے کسی بھی قسم کا لين دين اور ان سے متعلقہ تمام اثاثہ جات پر مکمل پابندی لگا دی گئ تھی۔ يہ امريکہ کے صدر کی جانب سے ايک براہ راست حکم تھا جس کی پابندی حکومت کی تمام ايجينسيوں اور افراد پر لازم تھی۔

صدر کلنٹن کی جانب سے جاری کيا جانے والا يہ حکم نامہ اور اس پر موجود ان کے دستخط آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173175&da=y

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ صدر کی جانب سے اس واضح حکم کے باوجود سی –آئ – اے طالبان کی امداد ميں ملوث ہو سکتی ہے؟ حقیقت يہ ہے کہ سی – آئ –اے نے کبھی بھی طالبان کی امداد نہيں کی، جن کا آغاز 1994 سے ہوا تھا۔

http://s4.postimage.org/51e3idt6l/dehshatgardi_k_saye.jpg

http://s4.postimage.org/bmqti5919/shattered_Pakistan.jpg

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

ساجد

محفلین
شاید فواد صاحب یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سی آئی اے اور امریکی حکومت میں طلاق واقع ہو چکی ہے کیونکہ جن طالبان کے قیام کو خود امریکی وزیرہ خارجہ We funded them کے اعتراف سے سندِ اقبال بخش چکی ہیں ان کی مالی اعانت سی آئی اے نے ہی کی تھی اور اب بھی کر رہی ہے۔ اب فواد صاحب جتنا بھی جھوٹ لکھ ڈالیں ان کی ہمت کی بات ہے۔
 

سویدا

محفلین
فواد
جو دستاویزات آپ وقتا فوقتا یہاں شیئر کرتے رہتے ہیں ان کا کوئی چنداں فائدہ نہیں ہے ، امریکہ نے ظاہری طور پر القاعدہ اور طالبان کی ہر ہر فورم پر یقینا مخالفت کی ہے لیکن پس پردہ امریکہ نے ہی ان تمام دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی بھی کی ہے ، اب ظاہر سی بات ہے کہ امریکہ کھلے عام تو طالبان یا القاعدہ کی حمایت نہیں کرسکتا ، ہر ذی شعور اس بات سے بخوبی واقف ہے ، آپ چاہے کتنی بھی وضاحتیں کیوں نہ پیش کردیں ہم تحریک طالبان اور القاعدہ کو امریکہ کا ہی دستہ سمجھتے ہیں جن کے ذریعہ امریکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
صدر کلنٹن کی جانب سے جاری کيا جانے والا يہ حکم نامہ اور اس پر موجود ان کے دستخط آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173175&da=y
بل کلنٹن کے دستخط کیا واقعی یہی ہیں جو اس دستاویز پر ثبت ہیں؟ یا پھر یہ والے
250px-Signature_of_Bill_Clinton.svg.png
 

Fawad -

محفلین
شاید فواد صاحب یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سی آئی اے اور امریکی حکومت میں طلاق واقع ہو چکی ہے کیونکہ جن طالبان کے قیام کو خود امریکی وزیرہ خارجہ We funded them کے اعتراف سے سندِ اقبال بخش چکی ہیں ان کی مالی اعانت سی آئی اے نے ہی کی تھی اور اب بھی کر رہی ہے۔ اب فواد صاحب جتنا بھی جھوٹ لکھ ڈالیں ان کی ہمت کی بات ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ وہی سينير امريکی اہلکار جب خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور دونوں ممالک کو ان عناصر سے درپيش مشترکہ خطرات کے ضمن ميں مشترکہ کاوشوں کی ضرورت پر زور ديتے ہيں تو ان کی سفارتی کوششوں اور بيانات کو پاکستان پر عالمی دباؤ بڑھانے کی کوشش قرار دے کر يکسر نظرانداز کر ديا جاتا ہے۔

ايک مشہور کہاوت ہے کہ "ميٹھا ميٹھا ہپ ہپ اور کوڑا کوڑا تھو تھو"۔ جب آپ سابقہ امريکی وزير خارجہ يا کسی بھی دوسرے امريکی اہلکار کے ايک خاص تناظر ميں ديے گئے بيان کے ايک مخصوص حصے کا حوالہ ديتے ہيں جو کسی لحاظ سے آپ کے نقطہ نظر کو توقيت ديتا ہے تو پھر انصاف کا تقاضا يہی ہے کہ آپ ان سرکاری امريکی دستاويزات کو بھی اہميت ديں جو اسی موضوع کے حوالے سے ميں نے بارہا اردو فورمز پر پوسٹ کی ہيں۔ يہ دستاويزات آپ کو 80 کے دہائ ميں "افغان جہاد" کے حوالے سے مکمل تصوير کو سمجھنے ميں مدد ديں گی۔ اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکی حکومت نے ديگر مسلم ممالک کی طرح افغانستان کے عوام کی مالی اعانت کی تھی۔ يہی بات سابقہ وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے اپنے بيان ميں بھی کہی تھی۔ انھوں نے واضح طور پر لفظ "فنڈنگ" استعمال کيا تھا۔ ليکن يہ صرف معاملے کا ايک پہلو ہے۔ اس دور ميں امريکہ کے کردار پر غير جانب دار اور مکمل تجزيے کے ليے آپ کو ان تصديق شدہ اور ريکارڈ پر موجود حقائق کا حوالہ بھی دينا ہو گا جن سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام تر مالی اعانت پاکستانی افسران اور آئ ايس آئ کے ذريعے منتقل کی گئ تھی اور وہی اس فيصلے کے حوالے سے ذمے دار تھے کہ کن گروپوں اور افراد کو افغانستان ميں فنڈز اور سپورٹ فراہم کی جائے۔ اس کے علاوہ طالبان سال 1994 ميں منظر عام پر آئے تھے اور اس سارے عمل ميں امريکی حمايت شامل نہيں تھی۔

اس ايشو کے حوالے سے ميں اپنے موقف کا اعادہ کروں گا کہ 80 کی دہائ ميں افغان عوام کی مدد اور حمايت کرنے کا فيصلہ بالکل درست تھا۔ اس وقت يہ مقصد اور ارادہ ہرگز نہيں تھا کہ دنيا کے نقشے پر دہشت گردوں کو روشناس کروايا جائے بلکہ مقصد افغانستان کے عوام کو سويت فوجوں کے تسلط سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 

سویدا

محفلین
یعنی آپ کی تمام باتوں اور دستاویزات سے خلاصہ یہ نکلا کہ امریکہ نے جب اور جو بھی قدم اٹھایا وہ درست ، صحیح اور عالمی مفاد میں تھا اور جس میں امریکہ کی کوئی بھی ذاتی غرض شامل نہ تھی ؟
 

Fawad -

محفلین
امریکہ ہمارا پارٹنر نہیں اور نہ ہی کبھی تھا
امریکہ کو خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہمارے تعاون کی ضرورت تھی اور اس کی وہ تھوڑی بہت قیمت ادا کرتا رہا ہے
مگر یہ قیمت وصول کرنا ہمیں بہت مہنگی پڑی


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


جہاں تک آپ کا يہ موقف ہے کہ پاکستان کو امريکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے ضمن ميں کسی قسم کی مدد کی ضرورت نہيں ہے اور اس حوالے سے امريکہ کی جانب سے کوئ بھی اقدام، کوشش يا بيان پاکستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کے زمرے ميں آتا ہے تو اس تناظر ميں پاکستان کی وزير خارجہ حنا ربانی کھر کا ايک بيان پيش ہے

"امريکہ پاکستان ميں دہشت گردی کی جنگ ميں شکست کا ذمہ دار ہو گا کيونکہ پاکستان اکيلا يہ جنگ نہيں جيت سکتا۔"

http://www.nation.com.pk/pakistan-n...onsible-for-defeat-in-war-on-terror-Hina-Khar

يہ ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ دہشت گردی حکومت پاکستان سميت خطے کے تمام فريقين اور دنيا بھر کے ليے ايک اہم ترين مسلہ ہے۔ پاکستان کی تمام سياسی جماعتيں بھی اس حقيقت کو تسليم کرتی ہيں۔ اس کے علاوہ اس مسلئے کی عالمی نوعيت اس بات کی متقاضی ہے امريکہ اور پاکستان سميت تمام اہم اتحادی اور شراکت دار وسائل، معلومات اور لاجسٹک سپورٹ کے اشتراک عمل سے مل جل کر کام کريں۔ جيسا کہ ميں نے پہلے بھی وضاحت کی تھی کہ اگر دہشت گردی کے خلاف کاوشوں اور اس سے منسوب مقاصد سے صرف امريکی مفادات ہی وابستہ ہوتے تو اس صورت ميں ہميں عالمی برادری کی حمايت اور ہمہ گير تعاون نا حاصل ہوتا۔ پاکستان سميت ہر ملک کا مفاد اس امر سے وابستہ ہے کہ اس کے شہريوں کو تحفظ اور سيکورٹی مہيا ہو۔ اس تناظر ميں امريکہ اور پاکستان کی يہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ان مجرموں کا تعاقب کيا جائے جو خطے کے امن کے ليے خطرہ بنے ہوئے ہيں۔

پاکستان کی وزير خارجہ نے بھی اپنے بيان ميں اسی حقي‍ت کو تسليم کيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


جہاں تک آپ کا يہ موقف ہے کہ پاکستان کو امريکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے ضمن ميں کسی قسم کی مدد کی ضرورت نہيں ہے اور اس حوالے سے امريکہ کی جانب سے کوئ بھی اقدام، کوشش يا بيان پاکستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کے زمرے ميں آتا ہے تو اس تناظر ميں پاکستان کی وزير خارجہ حنا ربانی کھر کا ايک بيان پيش ہے

"امريکہ پاکستان ميں دہشت گردی کی جنگ ميں شکست کا ذمہ دار ہو گا کيونکہ پاکستان اکيلا يہ جنگ نہيں جيت سکتا۔"

http://www.nation.com.pk/pakistan-n...onsible-for-defeat-in-war-on-terror-Hina-Khar

يہ ايک ناقابل ترديد حقيقت ہے کہ دہشت گردی حکومت پاکستان سميت خطے کے تمام فريقين اور دنيا بھر کے ليے ايک اہم ترين مسلہ ہے۔ پاکستان کی تمام سياسی جماعتيں بھی اس حقيقت کو تسليم کرتی ہيں۔ اس کے علاوہ اس مسلئے کی عالمی نوعيت اس بات کی متقاضی ہے امريکہ اور پاکستان سميت تمام اہم اتحادی اور شراکت دار وسائل، معلومات اور لاجسٹک سپورٹ کے اشتراک عمل سے مل جل کر کام کريں۔ جيسا کہ ميں نے پہلے بھی وضاحت کی تھی کہ اگر دہشت گردی کے خلاف کاوشوں اور اس سے منسوب مقاصد سے صرف امريکی مفادات ہی وابستہ ہوتے تو اس صورت ميں ہميں عالمی برادری کی حمايت اور ہمہ گير تعاون نا حاصل ہوتا۔ پاکستان سميت ہر ملک کا مفاد اس امر سے وابستہ ہے کہ اس کے شہريوں کو تحفظ اور سيکورٹی مہيا ہو۔ اس تناظر ميں امريکہ اور پاکستان کی يہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ان مجرموں کا تعاقب کيا جائے جو خطے کے امن کے ليے خطرہ بنے ہوئے ہيں۔

پاکستان کی وزير خارجہ نے بھی اپنے بيان ميں اسی حقي‍ت کو تسليم کيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
فواد
ہم یہاں عوامی موقف کی بات کر رہے ہیں۔ امریکہ کی منظورِ نظر حکومت کی وزیر کے موقف کی نہیں
 

سویدا

محفلین
اب جواب یہ آئے گا کہ حکومت عوام ہی کی نمائندہ ہوتی ہے اور عوامی ووٹوں سے ہی تشکیل پاتی ہے۔
سو اس لیے امریکی بربریت اور دہشت گردی پر صبر وبرداشت کے علاوہ عوام کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔
 

Fawad -

محفلین
فواد
ہم یہاں عوامی موقف کی بات کر رہے ہیں۔ امریکہ کی منظورِ نظر حکومت کی وزیر کے موقف کی نہیں


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اگر آپ کے غلط دعوے کے مطابق حکومت پاکستان امريکہ کی منظور نظر اور محض ايک کٹھ پتلی کی حيثيت رکھتی ہے تو اس امر کی کيا توجيہہ پيش کی جا سکتی ہے کہ کئ ماہ تک تمام تر کاوشوں کے باوجود امريکہ پاکستان کو نيٹو سپلائ کی بحالی کے ليے قائل نہ کر سکا جس کے منفی اثرات نا صرف يہ کہ افغانستان ميں ہماری کاوشوں پر پڑے بلکہ دونوں ممالک کے مابين اسٹريجک تعلقات بھی شديد تناؤ کا شکار رہے۔

يقينی طور پر حکومت پاکستان قومی سلامتی کے انتہائ اہم فيصلے اور اپنی پاليسياں پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کرتی ہے۔ کسی بھی منتخب جمہوری حکومت کے ليے اہم ترين ذمہ داری اور مقصد اس امر کو يقینی بنانا ہوتا ہے کہ اس کے شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ ملک کے استحکام کے ليے اپنی رٹ قائم کرے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی کے معاملے ميں ہمارے ساتھ اشتراک عمل اور اتحاد کرنے والی واحد حکومت نہيں ہے۔ يقینی طور پر آپ يہ دعوی نہيں کرسکتے ہيں کہ دنيا کے تمام سرکردہ مسلم ممالک کی حکومتيں اپنے شہريوں کے مفادات کو پس پشت ڈال کر اور سول سوسائٹی ميں مقبول عام رائے کے برخلاف ہمارا ساتھ دے رہی ہيں۔

کسی بھی ملک کی فوج اور حکومتی اداروں کی جانب سے سرکاری فوجی حکمت عملی ميڈيا کے چند پنڈتوں کی جانب سے مخصوص سياسی ايجنڈوں يا واقعات کے حوالے سے ان کی تشريح اور اس کی بنياد پر زمینی حقائق کے ناقص ادراک پر نہیں تشکيل دی جاتی۔ يہ ايک انتہائ غير ذمہ دار اور ناقابل عمل سوچ ہے کہ فوجی حکمت عملی اور مسلح آپريشنز جيسے اہم معاملات جن پر قومی سلامتی، علاقے کے مجموعی استحکام اور عام شہريوں کی حفاظت جيسے اہم امور کا دارومدار ہوتا ہے انھيں مقبوليت کے گراف اور غير مستقل عوامی تاثر کو بنياد بنا کر عملی جامہ پہنايا جائے۔ آخری تجزيے ميں حکومت کی آشيرباد کے ساتھ کسی بھی فوجی کاروائ کا بنيادی مقصد عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانا اور رياست کی حدود کے اندر حکومتی رٹ قائم کرنا ہوتا ہے۔

کوئ بھی رياست اس بات کی اجازت نہيں دے سکتی کہ مسلح گروہ اور دہشت گرد مقامی آبادی کو دہشت زدہ کر کے اپنے قوانين نافذ کريں اور مذہب سميت کسی بھی بينر کا سہارہ لے کر اپنا نظام حکومت قائم کرنے کی کوشش کريں۔ ايسی خوفناک صورت حال کا عملی مظاہرہ ہم سوات میں ديکھ چکے ہيں جہاں مسلح افراد نے پوری وادی کا کنٹرول سنبھال ليا تھا۔ آپ کو ياد ہو گا کہ اس وقت بھی ميڈيا پر کچھ تجزيہ نگاروں، سياسی ماہرين اور عوامی رائے عامہ کے سروے کے مطابق اس سوچ کا اظہار کيا گيا تھا کہ ان کے مطالبات مان لينے ميں ہی تنازعے کا پرامن حل ممکن ہے۔ ليکن عوامی رائے ميں ڈرامائ تبديلی بھی رونما ہوئ اور انھی ماہرین کو تھوڑے ہی عرصے ميں اپنی رائے پر اس وقت نظرثانی کرنا پڑی جب ان مسلح گروہوں نے ڈسٹرک بنير پر بھی قبضہ کر ليا اور عوامی سطح پر کھلم کھلا اعلان کر ديا کہ وہ اسلام آباد کی طرف بھی بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہيں تا کہ ايک منتخب جمہوری حکومت کو ہٹا کر پورے پاکستان اور اس کی سرحدوں سے آگے بھی اپنا مخصوص نظام نافذ کيا جا سکے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


اگر آپ کے غلط دعوے کے مطابق حکومت پاکستان امريکہ کی منظور نظر اور محض ايک کٹھ پتلی کی حيثيت رکھتی ہے تو اس امر کی کيا توجيہہ پيش کی جا سکتی ہے کہ کئ ماہ تک تمام تر کاوشوں کے باوجود امريکہ پاکستان کو نيٹو سپلائ کی بحالی کے ليے قائل نہ کر سکا جس کے منفی اثرات نا صرف يہ کہ افغانستان ميں ہماری کاوشوں پر پڑے بلکہ دونوں ممالک کے مابين اسٹريجک تعلقات بھی شديد تناؤ کا شکار رہے۔
[quote/]




فواد یہ بات تو ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بندش میں حکومت سے زیادہ فوج کا ہاتھ تھا جو سلالہ چیک پوسٹ پر حملے پر امریکی معافی نامے کا مطالبہ کر رہی تھی



اس کے علاوہ پاکستان کی حکومت دہشت گردی کے معاملے ميں ہمارے ساتھ اشتراک عمل اور اتحاد کرنے والی واحد حکومت نہيں ہے۔ يقینی طور پر آپ يہ دعوی نہيں کرسکتے ہيں کہ دنيا کے تمام سرکردہ مسلم ممالک کی حکومتيں اپنے شہريوں کے مفادات کو پس پشت ڈال کر اور سول سوسائٹی ميں مقبول عام رائے کے برخلاف ہمارا ساتھ دے رہی ہيں۔
[quote/]

یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ اکثر مسلم ممالک میں غیر نمائندہ حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ بلکہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹنے والا تو خود امریکی میڈیا ہے۔ اسی پراپیگنڈے کی بنیاد پر تو وہ ان ممالک کی حکومتوں کے خلاف کام کرنے والے گروہوں کی امداد کرتا ہے
کسی بھی ملک کی فوج اور حکومتی اداروں کی جانب سے سرکاری فوجی حکمت عملی ميڈيا کے چند پنڈتوں کی جانب سے مخصوص سياسی ايجنڈوں يا واقعات کے حوالے سے ان کی تشريح اور اس کی بنياد پر زمینی حقائق کے ناقص ادراک پر نہیں تشکيل دی جاتی۔ يہ ايک انتہائ غير ذمہ دار اور ناقابل عمل سوچ ہے کہ فوجی حکمت عملی اور مسلح آپريشنز جيسے اہم معاملات جن پر قومی سلامتی، علاقے کے مجموعی استحکام اور عام شہريوں کی حفاظت جيسے اہم امور کا دارومدار ہوتا ہے انھيں مقبوليت کے گراف اور غير مستقل عوامی تاثر کو بنياد بنا کر عملی جامہ پہنايا جائے۔ آخری تجزيے ميں حکومت کی آشيرباد کے ساتھ کسی بھی فوجی کاروائ کا بنيادی مقصد عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانا اور رياست کی حدود کے اندر حکومتی رٹ قائم کرنا ہوتا ہے۔
[quote/]
اگر ایسا ہی ہے تو لیبیا اور شام کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کیا ضرورت تھی۔ مصر میں انقلابیوں کی پُشت بناہی کی کیا ضرورت تھی۔ کسی ملک کےعوام ہی طے کرتے ہیں کہ تبدیلی ناگزیر ہے یا نہیں۔ لکھنے والے تو صرف عوام کے نباض ہوتے ہیں۔

کوئ بھی رياست اس بات کی اجازت نہيں دے سکتی کہ مسلح گروہ اور دہشت گرد مقامی آبادی کو دہشت زدہ کر کے اپنے قوانين نافذ کريں اور مذہب سميت کسی بھی بينر کا سہارہ لے کر اپنا نظام حکومت قائم کرنے کی کوشش کريں۔ ايسی خوفناک صورت حال کا عملی مظاہرہ ہم سوات میں ديکھ چکے ہيں جہاں مسلح افراد نے پوری وادی کا کنٹرول سنبھال ليا تھا۔ آپ کو ياد ہو گا کہ اس وقت بھی ميڈيا پر کچھ تجزيہ نگاروں، سياسی ماہرين اور عوامی رائے عامہ کے سروے کے مطابق اس سوچ کا اظہار کيا گيا تھا کہ ان کے مطالبات مان لينے ميں ہی تنازعے کا پرامن حل ممکن ہے۔ ليکن عوامی رائے ميں ڈرامائ تبديلی بھی رونما ہوئ اور انھی ماہرین کو تھوڑے ہی عرصے ميں اپنی رائے پر اس وقت نظرثانی کرنا پڑی جب ان مسلح گروہوں نے ڈسٹرک بنير پر بھی قبضہ کر ليا اور عوامی سطح پر کھلم کھلا اعلان کر ديا کہ وہ اسلام آباد کی طرف بھی بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہيں تا کہ ايک منتخب جمہوری حکومت کو ہٹا کر پورے پاکستان اور اس کی سرحدوں سے آگے بھی اپنا مخصوص نظام نافذ کيا جا سکے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov

ہم نے کب کہا کہ طالبان کے سب مطالبات جائز ہیں۔ ہم تو قیامِ امن کے لئے جنگ کی بجائے مذاکرات کی راہ اپنانے کے حق میں ہیں۔ مذاکرات میں ہر فریق کی کچھ باتیں مان لی جاتی ہیں اور کچھ رد ہو جاتی ہیں۔ امریکہ طالبان کو ڈرون کی بجائے کتاب اور قلم سے سمجھائے تو بہتر ہوگا
میری رائے میں طالبان کے زیرِ اثر علاقوں میں حکومت کے زیرِ نگرانی نئے اور بہتر سہولیات کے حامل مدرسے اور سکول قائم ہونے چاہیئیں۔ شدت پسندی تعلیم اور ترقی سے کم کی جا سکتی ہے گولی یا بم سے نہیں
 

Fawad -

محفلین
امریکہ طالبان کو ڈرون کی بجائے کتاب اور قلم سے سمجھائے تو بہتر ہوگا
میری رائے میں طالبان کے زیرِ اثر علاقوں میں حکومت کے زیرِ نگرانی نئے اور بہتر سہولیات کے حامل مدرسے اور سکول قائم ہونے چاہیئیں۔ شدت پسندی تعلیم اور ترقی سے کم کی جا سکتی ہے گولی یا بم سے نہیں


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس حوالے سے کوئ شک نہيں ہونا چاہيے کہ خطے ميں ہماری موجودگی علاقوں کو فتح کرنے، ممالک کو تسخير کرنے يا تبائ بربادی اور فساد کے ذريعے اپنے جھنڈے گاڑنے کے ليے نہيں ہے۔ ميں نے پہلے بھی يہ واضح کيا ہے کہ اگر ايسا ہوتا تو اقوام متحدہ سميت 40 سے زائد ممالک بشمول مقامی انتظاميہ اور حکومتيں ہمارا ساتھ نا دے رہی ہوتيں۔

دہشت گردی کے ٹھکانوں کا قلع قمع کرنا اور امريکي شہريوں کی حفاظت کو يقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان دہشت گردوں کی کاروائيوں سے مقامی آباديوں کو بچانا بھی ہمارے اہم ترين مقاصد ہيں۔ يہ دعوی ناقابل فہم اور لغو ہے کہ ہم مقامی آباديوں پر حملے کے درپے ہيں۔ بلکہ اس کے برعکس اگر آپ درجنوں کی تعداد ميں جاری ہمارے ترقياتی پروگرامز، مالی امداد کے پيکج اور تعمير وترقی سے متعلق منصوبوں کے ساتھ ساتھ تعليمی شعبوں ميں ہماری کاوشوں اور ان اقدامات کے نتيجے ميں تعليم حاصل کرنے اور ايک بہتری زندگی کے حصول کے ليے ميسر مواقعوں کا جائزہ ليں تو يہ غلط تاثر زائل ہو جائے گا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے اور کم سن بچوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانے کے ليے محض عسکری قوت پر انحصار کر رہے ہيں۔

امريکی اور نيٹو افواج کی جانب سے فوجی کاروائ اور آپريشنز معصوم شہريوں کے خلاف نہيں ہیں۔ يہ مخصوص اور محدود کاروائياں ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہيں جنھوں نے کسی بھی قسم کی سياسی مصلحت کا راستہ ازخود بند کر ديا ہے اور اپنے مخصوص سياسی نظام کے قيام کے لیے کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان عناصر نے بارہا اپنے اعمال سے يہ ثابت کيا ہے کہ کمسن بچوں کو خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال کرنا اور کسی بھی مذہبی اور سياسی تفريق سے قطع نظر زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کا قتل کرنا ان کی واحد جنگی حکمت عملی ہے۔

آپ کی رائے اور اس غلط تاثر کے برخلاف امريکی حکومت دہشت گردی اور متشدد سوچ کے برخلاف صرف بے دريخ قوت کے استعمال کو ہی واحد قابل عمل حل نہیں سمجھتی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ايسے بےشمار تعميراتی منصوبے جاری ہيں جو خطے کے عام عوام کے بہتر مستقبل اور سيکورٹی کی صورت حال کے بہتر بنانے کے ليے انتہائ اہميت کے حامل ہیں۔

سڑکوں اور ديگر تعميراتی منصوبے امريکہ اور اس کے اتحاديوں کا اس خطے ميں امن اور استحکام قائم کرنے کی کاوشوں کا اہم ترين جزو ہے۔ يہ تعميراتی منصوبے پاکستان اور افغانستان ميں جاری دہشت گردی کے خلاف مہم کی کاميابی کے ليے کليدی حيثيت رکھتے ہيں کيونکہ نئ سڑکوں، پلوں، عمارات اور دیگر سہوليات سے معاشی صورت حال، نظام حکومت کی فعال بنانے اور عدم تحفظ کی فضا کو ختم کرنے ميں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ يو ايس ايڈ کے تحت بے شمار منصوبوں کے ذريعے تعليم کے جو مواقع ميسر آتے ہيں اس سے اس بات کے امکانات روشن ہو جاتے ہيں کہ وہ مايوس نوجوان جنھيں دہشت گرد تنظيميں استعمال کرتی ہيں وہ تعليم اور حصول روزگار کے ذريعے اپنے خاندانوں کی کفالت کر سکيں۔

ميں نے اکثر اردو فورمز پر يو ايس ايڈ کے تعاون سے جاری پاکستان ميں مختلف منصوبوں کی تفصيلات پيش کی ہيں۔

يہاں ميں افغانستان ميں امريکی حکومت کے تعاون سے جاری چند منصوبوں اور عام عوام پر ان کے اثرات کے حوالے سے کچھ معلومات دے رہا ہوں۔ يہ اعداد وشمار اس بات کا واضح ثبوت ہيں کہ پاکستانی ميڈيا کے کچھ عناصر کی جانب سے ديے جانے والے غلط تاثر کے برعکس، امريکہ خطے ميں تمام مسائل کا واحد حل طاقت کے استعمال کو نہيں سمجھتا۔

جنوب مغرب میں:

چند ماہ قبل ہلمند صوبے میں واقع لشکر گاہ کی کاٹن فیکٹری کو دوبارہ کھولا گیا ہے جس کی وجہ سے کام کرنے والے افغانیوں کے لیئے مذید ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں اور مقامی اقتصادیات میں نئ روح پھونکی جا رہی ہے۔ مرجاہ کے دیہاتی علاقوں، ناد علی، نوا، اور گرنشک کی تحصیلوں کو اب اس جگہ جو کہ اس سال 4000 میٹرک ٹن روئی کو پراسس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تک رسائی حاصل ہے۔ اس فیکٹری کے دوبارہ کھلنے سے 175 ملازمتوں کی بحالی ہوئی ہے اور امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں 225 مذید ملازمیتیں پیدا ہوں گی۔

ہلمند میں صوبائی گورنر گلاب مینگل نے چوتھی افغان کاروباری کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کے دوران 200 سے ذائد افغان کاروباری مردوں اور عورتوں نے افغان حکومت اور ایساف کی تعمیر نو اور ترقی کی منصوبہ بندیوں کے لیئے مقابلہ کیا۔

لشکر گاہ کے ٹیچر تربیتی کالج میں جو کہ پورے افغانستان میں 42 میں سے ایک ہے اب اساتذہ تربیتی سرٹیفیکٹ پروگرام پیش کرتا ہے جس کے ذریعے یہ افغانیوں کی پیشہ ورانہ اساتذہ کے طور پر تصدیق کرتا ہے۔ یہ وزارت تعلیم کی قوم کے تعلیمی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کی ایک نئی کوشش ہے اور آخر کار تمام اساتذہ تربیتی کالجوں میں اس کا نفاذ ہو گا۔

جنوب میں

قندھار میں، صوبے کے گورنر طوریالی ویسی نے شہر میں قانون کے نفاذ کی عمارتوں اور مذید عملے کی بھرتی کے لیے نئے پروگرام کے لیے ترتیب دینے کی منظوری دی ہے۔ اس پروگرام میں پولیس کے سب 10سٹیشن اور پولیس کی تین افغان قومی کور کی عمارتیں تفتیش کاروں کے لیئے استعمال ہوں گیں۔

صوبہ اروزگان تعلیم کے شعبے میں بشمول 250 نئے سکولوں کے کھلنے اور 1001 سے ذاید اساتذہ اور 425 زیر تربیت اساتذا کی شاندار بڑھت دیکھی جا رہی ہے ۔ 2006 میں اس صوبے میں صرف 36 سکول کام کر رہے تھے۔

شمال میں

صوبہ سمنگم کی تحصیل ایبک میں رہائیشیوں اور افغانستان کی وزارت برائے دیہی تعمیر نو اور ترقی نے مل کر دو درجن سے ذائد ترقیاتی پراجیکٹس حکومت کے قومی اتحاد پروگرام کے زیر نگرانی مکمل کیئے۔ ان منصوبوں میں 125 میل لمبی کچی سڑکوں کی سطح پر پتھر ڈالنے، 14 چھوٹے پلوں کی تعمیر، نکاسی کی 9001 میٹر لمبی نکاسی کی نالیوں کو اینٹوں کے ذریعے پکا کرنا، دو پانی کے ٹینکوں کی تعمیر، چار کنوں کے لیئے کھدائی اور عورتوں کے لیے کڑھائی کی تربیت کے کورس شامل ہیں۔ 3000 سے زاید خاندان ان مختلف منصوبوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔

مزارے شریف اور قندوز شھر میں، نفیس ریشم کے قالین اور کپڑوں کے لیئے ریشمی کیڑوں کے پالنے کا پراجیکٹ نہایت کامیابی سے چل رہا ہے۔ مزارے شریف میں صرف خواتین کے بازار میں 20 دوکانوں کی حال ہی میں مرمت کی گئی ہے۔ دونوں منصوبے عورتوں کے لیئے مستحکم ملازمتوں کے مواقعے مہیا کر رہے ہیں۔

مزارے شریف میں افغان حکومت، افغان متحدہ سیکیوریٹی فورسز، ایساف اورعلاقے کے رہائیشیوں نے علی آباد سکول ڈیویلوپمنٹ پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے۔ اس پراجیکٹ میں دو نئی عمارتوں کی تعمیر جس میں سے ہرعمارت 30 کمروں پر مشتمل ہو گی، 3000 طلباء کے لیئے مذید جگہ فراہم کرے گی۔ یہ سکول تعلیم یافتہ کارکنوں کی ایسی کھیپ مہیا کرے گا جو علاقے کی اقتصادی ترقی میں حصہ لیں گے۔

مشرق میں

22 اکتوبر کو صوبہ وردک کی بہسود تحصیل میں جہاں اب 80000 لوگوں کی خدمت کے لیئے حاضر ہیں اور جہاں تحصیل کی 90 فیصد آبادی کے لیئے چار صحت کے مراکز عوام کے لیئے کھولے گئے ہیں ۔

صوبہ کنر کی تحصیل شیگال میں 116 افغان مردوں نے کنر تعمیراتی مرکز (کے سی سی) سے تعلیم حاصل کی۔ کے سی سی مستری، پینٹ، پلمبنگ، بڑھئی اور بجلی کے کاموں کی تربیت کنر، نورستان، لغمان اور ننگرہار کے نوجوان مردوں کو فراہم کرتے ہیں۔ ماضی میں تعمیراتی کاموں کی بہت بنیادی ملازمیتیں بھی غیر ملکی مزدوروں کے ذریعے کی جاتیں تھیں۔ ایک حالیہ سروے نے یہ ظاہر کیا ہے کہ کے سی سی کے 80 فیصد تعلیم یافتہ اب افغانستان کے مشرقی علاقے میں ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں۔
مغرب میں

ہرات کی یورنیورسٹی اس وقت زعفران کی بہتر کاشت اور اس کو پوست کے بہتر متبادل کے طور پر اگانے کے طریقوں پرتحقیق کر رہی ہے۔ اٹالین صوبائی تعمیر نو کی ٹیم نے 400 کلوگرام کی تازہ زعفران کی جڑوں کا عطیہ یورنیورسٹی کی تحقیق کے لیئے فراہم کیا ہے۔

دارالخلافہ کے علاقے میں

کابل میں بادام باغ فارم پر ہزاروں لوگوں نے دو دنوں پر مشتمل بین الاقوامی زرعی میلے میں حصہ لیا جس کا انعقاد 6 اکتوبر کو ہوا۔ اس میلے میں 136 افغان اور 40 بین الاقوامی دوکانداروں نے شرکت کی جو اپنی زرعی خدمات اور مہنگی بکنے والی فصلوں اور اجناس مثلا" انگور، انار، خشک فروٹ، مغزوں اور خالص پشمینہ اون کی نمائیش کر رہے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس حوالے سے کوئ شک نہيں ہونا چاہيے کہ خطے ميں ہماری موجودگی علاقوں کو فتح کرنے، ممالک کو تسخير کرنے يا تبائ بربادی اور فساد کے ذريعے اپنے جھنڈے گاڑنے کے ليے نہيں ہے۔ ميں نے پہلے بھی يہ واضح کيا ہے کہ اگر ايسا ہوتا تو اقوام متحدہ سميت 40 سے زائد ممالک بشمول مقامی انتظاميہ اور حکومتيں ہمارا ساتھ نا دے رہی ہوتيں۔

دہشت گردی کے ٹھکانوں کا قلع قمع کرنا اور امريکي شہريوں کی حفاظت کو يقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان دہشت گردوں کی کاروائيوں سے مقامی آباديوں کو بچانا بھی ہمارے اہم ترين مقاصد ہيں۔ يہ دعوی ناقابل فہم اور لغو ہے کہ ہم مقامی آباديوں پر حملے کے درپے ہيں۔ بلکہ اس کے برعکس اگر آپ درجنوں کی تعداد ميں جاری ہمارے ترقياتی پروگرامز، مالی امداد کے پيکج اور تعمير وترقی سے متعلق منصوبوں کے ساتھ ساتھ تعليمی شعبوں ميں ہماری کاوشوں اور ان اقدامات کے نتيجے ميں تعليم حاصل کرنے اور ايک بہتری زندگی کے حصول کے ليے ميسر مواقعوں کا جائزہ ليں تو يہ غلط تاثر زائل ہو جائے گا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمے اور کم سن بچوں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانے کے ليے محض عسکری قوت پر انحصار کر رہے ہيں۔

امريکی اور نيٹو افواج کی جانب سے فوجی کاروائ اور آپريشنز معصوم شہريوں کے خلاف نہيں ہیں۔ يہ مخصوص اور محدود کاروائياں ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف ہيں جنھوں نے کسی بھی قسم کی سياسی مصلحت کا راستہ ازخود بند کر ديا ہے اور اپنے مخصوص سياسی نظام کے قيام کے لیے کھلی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ان عناصر نے بارہا اپنے اعمال سے يہ ثابت کيا ہے کہ کمسن بچوں کو خودکش حملہ آور کے طور پر استعمال کرنا اور کسی بھی مذہبی اور سياسی تفريق سے قطع نظر زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کا قتل کرنا ان کی واحد جنگی حکمت عملی ہے۔

آپ کی رائے اور اس غلط تاثر کے برخلاف امريکی حکومت دہشت گردی اور متشدد سوچ کے برخلاف صرف بے دريخ قوت کے استعمال کو ہی واحد قابل عمل حل نہیں سمجھتی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ايسے بےشمار تعميراتی منصوبے جاری ہيں جو خطے کے عام عوام کے بہتر مستقبل اور سيکورٹی کی صورت حال کے بہتر بنانے کے ليے انتہائ اہميت کے حامل ہیں۔

سڑکوں اور ديگر تعميراتی منصوبے امريکہ اور اس کے اتحاديوں کا اس خطے ميں امن اور استحکام قائم کرنے کی کاوشوں کا اہم ترين جزو ہے۔ يہ تعميراتی منصوبے پاکستان اور افغانستان ميں جاری دہشت گردی کے خلاف مہم کی کاميابی کے ليے کليدی حيثيت رکھتے ہيں کيونکہ نئ سڑکوں، پلوں، عمارات اور دیگر سہوليات سے معاشی صورت حال، نظام حکومت کی فعال بنانے اور عدم تحفظ کی فضا کو ختم کرنے ميں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ يو ايس ايڈ کے تحت بے شمار منصوبوں کے ذريعے تعليم کے جو مواقع ميسر آتے ہيں اس سے اس بات کے امکانات روشن ہو جاتے ہيں کہ وہ مايوس نوجوان جنھيں دہشت گرد تنظيميں استعمال کرتی ہيں وہ تعليم اور حصول روزگار کے ذريعے اپنے خاندانوں کی کفالت کر سکيں۔

ميں نے اکثر اردو فورمز پر يو ايس ايڈ کے تعاون سے جاری پاکستان ميں مختلف منصوبوں کی تفصيلات پيش کی ہيں۔

يہاں ميں افغانستان ميں امريکی حکومت کے تعاون سے جاری چند منصوبوں اور عام عوام پر ان کے اثرات کے حوالے سے کچھ معلومات دے رہا ہوں۔ يہ اعداد وشمار اس بات کا واضح ثبوت ہيں کہ پاکستانی ميڈيا کے کچھ عناصر کی جانب سے ديے جانے والے غلط تاثر کے برعکس، امريکہ خطے ميں تمام مسائل کا واحد حل طاقت کے استعمال کو نہيں سمجھتا۔

جنوب مغرب میں:

چند ماہ قبل ہلمند صوبے میں واقع لشکر گاہ کی کاٹن فیکٹری کو دوبارہ کھولا گیا ہے جس کی وجہ سے کام کرنے والے افغانیوں کے لیئے مذید ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں اور مقامی اقتصادیات میں نئ روح پھونکی جا رہی ہے۔ مرجاہ کے دیہاتی علاقوں، ناد علی، نوا، اور گرنشک کی تحصیلوں کو اب اس جگہ جو کہ اس سال 4000 میٹرک ٹن روئی کو پراسس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تک رسائی حاصل ہے۔ اس فیکٹری کے دوبارہ کھلنے سے 175 ملازمتوں کی بحالی ہوئی ہے اور امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں 225 مذید ملازمیتیں پیدا ہوں گی۔

ہلمند میں صوبائی گورنر گلاب مینگل نے چوتھی افغان کاروباری کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کے دوران 200 سے ذائد افغان کاروباری مردوں اور عورتوں نے افغان حکومت اور ایساف کی تعمیر نو اور ترقی کی منصوبہ بندیوں کے لیئے مقابلہ کیا۔

لشکر گاہ کے ٹیچر تربیتی کالج میں جو کہ پورے افغانستان میں 42 میں سے ایک ہے اب اساتذہ تربیتی سرٹیفیکٹ پروگرام پیش کرتا ہے جس کے ذریعے یہ افغانیوں کی پیشہ ورانہ اساتذہ کے طور پر تصدیق کرتا ہے۔ یہ وزارت تعلیم کی قوم کے تعلیمی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کی ایک نئی کوشش ہے اور آخر کار تمام اساتذہ تربیتی کالجوں میں اس کا نفاذ ہو گا۔

جنوب میں

قندھار میں، صوبے کے گورنر طوریالی ویسی نے شہر میں قانون کے نفاذ کی عمارتوں اور مذید عملے کی بھرتی کے لیے نئے پروگرام کے لیے ترتیب دینے کی منظوری دی ہے۔ اس پروگرام میں پولیس کے سب 10سٹیشن اور پولیس کی تین افغان قومی کور کی عمارتیں تفتیش کاروں کے لیئے استعمال ہوں گیں۔

صوبہ اروزگان تعلیم کے شعبے میں بشمول 250 نئے سکولوں کے کھلنے اور 1001 سے ذاید اساتذہ اور 425 زیر تربیت اساتذا کی شاندار بڑھت دیکھی جا رہی ہے ۔ 2006 میں اس صوبے میں صرف 36 سکول کام کر رہے تھے۔

شمال میں

صوبہ سمنگم کی تحصیل ایبک میں رہائیشیوں اور افغانستان کی وزارت برائے دیہی تعمیر نو اور ترقی نے مل کر دو درجن سے ذائد ترقیاتی پراجیکٹس حکومت کے قومی اتحاد پروگرام کے زیر نگرانی مکمل کیئے۔ ان منصوبوں میں 125 میل لمبی کچی سڑکوں کی سطح پر پتھر ڈالنے، 14 چھوٹے پلوں کی تعمیر، نکاسی کی 9001 میٹر لمبی نکاسی کی نالیوں کو اینٹوں کے ذریعے پکا کرنا، دو پانی کے ٹینکوں کی تعمیر، چار کنوں کے لیئے کھدائی اور عورتوں کے لیے کڑھائی کی تربیت کے کورس شامل ہیں۔ 3000 سے زاید خاندان ان مختلف منصوبوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔

مزارے شریف اور قندوز شھر میں، نفیس ریشم کے قالین اور کپڑوں کے لیئے ریشمی کیڑوں کے پالنے کا پراجیکٹ نہایت کامیابی سے چل رہا ہے۔ مزارے شریف میں صرف خواتین کے بازار میں 20 دوکانوں کی حال ہی میں مرمت کی گئی ہے۔ دونوں منصوبے عورتوں کے لیئے مستحکم ملازمتوں کے مواقعے مہیا کر رہے ہیں۔

مزارے شریف میں افغان حکومت، افغان متحدہ سیکیوریٹی فورسز، ایساف اورعلاقے کے رہائیشیوں نے علی آباد سکول ڈیویلوپمنٹ پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے۔ اس پراجیکٹ میں دو نئی عمارتوں کی تعمیر جس میں سے ہرعمارت 30 کمروں پر مشتمل ہو گی، 3000 طلباء کے لیئے مذید جگہ فراہم کرے گی۔ یہ سکول تعلیم یافتہ کارکنوں کی ایسی کھیپ مہیا کرے گا جو علاقے کی اقتصادی ترقی میں حصہ لیں گے۔

مشرق میں

22 اکتوبر کو صوبہ وردک کی بہسود تحصیل میں جہاں اب 80000 لوگوں کی خدمت کے لیئے حاضر ہیں اور جہاں تحصیل کی 90 فیصد آبادی کے لیئے چار صحت کے مراکز عوام کے لیئے کھولے گئے ہیں ۔

صوبہ کنر کی تحصیل شیگال میں 116 افغان مردوں نے کنر تعمیراتی مرکز (کے سی سی) سے تعلیم حاصل کی۔ کے سی سی مستری، پینٹ، پلمبنگ، بڑھئی اور بجلی کے کاموں کی تربیت کنر، نورستان، لغمان اور ننگرہار کے نوجوان مردوں کو فراہم کرتے ہیں۔ ماضی میں تعمیراتی کاموں کی بہت بنیادی ملازمیتیں بھی غیر ملکی مزدوروں کے ذریعے کی جاتیں تھیں۔ ایک حالیہ سروے نے یہ ظاہر کیا ہے کہ کے سی سی کے 80 فیصد تعلیم یافتہ اب افغانستان کے مشرقی علاقے میں ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں۔
مغرب میں

ہرات کی یورنیورسٹی اس وقت زعفران کی بہتر کاشت اور اس کو پوست کے بہتر متبادل کے طور پر اگانے کے طریقوں پرتحقیق کر رہی ہے۔ اٹالین صوبائی تعمیر نو کی ٹیم نے 400 کلوگرام کی تازہ زعفران کی جڑوں کا عطیہ یورنیورسٹی کی تحقیق کے لیئے فراہم کیا ہے۔

دارالخلافہ کے علاقے میں

کابل میں بادام باغ فارم پر ہزاروں لوگوں نے دو دنوں پر مشتمل بین الاقوامی زرعی میلے میں حصہ لیا جس کا انعقاد 6 اکتوبر کو ہوا۔ اس میلے میں 136 افغان اور 40 بین الاقوامی دوکانداروں نے شرکت کی جو اپنی زرعی خدمات اور مہنگی بکنے والی فصلوں اور اجناس مثلا" انگور، انار، خشک فروٹ، مغزوں اور خالص پشمینہ اون کی نمائیش کر رہے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
فواد
آپ کی عجیب منطق ہے
سوال کُچھ جواب کُچھ
امریکہ کی افغانستان میں پھیلائی ہوئی تباہی کے مقابلے میں اس کے گنتی کے اقدامات کی تعریف کرنا بے وقوفی ہوگی
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ امریکہ کی آمد سے قبل افغان کرنسی کا ڈالر سے تبادلے کا ریٹ کیا تھا؟
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ افغانستان میں کتنے سویلین مارے گئے ؟ کتنے بچے یتیم ہوئے ؟ کتنے گھر تباہ ہوئے؟ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے؟
 
Top