نوید صادق
محفلین
کہیں تو چھوڑ گیا ہوگا کچھ نشاں اپنے
وہ اک فسانہ سا گذرا جو درمیاں اپنے
ہوئے جو گنگ بدلتی رتوں کی حیرت سے
وہ لمحے ہوں گے کبھی آپ ترجماں اپنے
یہ بے زبان نہیں، اِن کی خامشی کو سمجھ
نشان چھوڑ گئے ہیں جو رفتگاں اپنے
وہی تو آتے دنوں کا ترے اثاثہ تھے
وہی جو خواب کیے تو نے رائگاں اپنے
خراج لیں گی تری خوش گمانیاں تجھ سے
کبھی جو آئنہ تجھ پر ہوئے زیاں اپنے
ہری رہے تری شاخِ بدن خزاں میں بھی
کہ برگ و بار ہیں جس کے قصیدہ خواں اپنے
ملیں گے تجھ سے کسی اور رُت کی حیرت میں
اگرچہ وقت کا ساگر ہے درمیاں اپنے
(طارق بٹ)
وہ اک فسانہ سا گذرا جو درمیاں اپنے
ہوئے جو گنگ بدلتی رتوں کی حیرت سے
وہ لمحے ہوں گے کبھی آپ ترجماں اپنے
یہ بے زبان نہیں، اِن کی خامشی کو سمجھ
نشان چھوڑ گئے ہیں جو رفتگاں اپنے
وہی تو آتے دنوں کا ترے اثاثہ تھے
وہی جو خواب کیے تو نے رائگاں اپنے
خراج لیں گی تری خوش گمانیاں تجھ سے
کبھی جو آئنہ تجھ پر ہوئے زیاں اپنے
ہری رہے تری شاخِ بدن خزاں میں بھی
کہ برگ و بار ہیں جس کے قصیدہ خواں اپنے
ملیں گے تجھ سے کسی اور رُت کی حیرت میں
اگرچہ وقت کا ساگر ہے درمیاں اپنے
(طارق بٹ)