خرد اعوان
محفلین
کہیں سے لَوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا
ستارے زیرِ قدم رات آئے ہیں کیا کیا
پلٹ پلٹ کے اُدھر دیکھتے جو دیکھتے تھے
وہ سادگی پہ مری مسکرائے کیا کیا
چَھٹا جہاں سے اُس آواز کا گھنا بادل
وہیں سے دُھوپ نے تلوئے جلائے ہیں کیا کیا
میں کچھ سمجھ گیا اور کچھ سمجھ نہیں سکا
جُھکی نظر نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا
جو ہو لیا تھا مرے ساتھ چاند چوری سے
اندھیرے راستے کے جگمگائے ہیں کیا کیا
ستارے زیرِ قدم رات آئے ہیں کیا کیا
پلٹ پلٹ کے اُدھر دیکھتے جو دیکھتے تھے
وہ سادگی پہ مری مسکرائے کیا کیا
چَھٹا جہاں سے اُس آواز کا گھنا بادل
وہیں سے دُھوپ نے تلوئے جلائے ہیں کیا کیا
میں کچھ سمجھ گیا اور کچھ سمجھ نہیں سکا
جُھکی نظر نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا
جو ہو لیا تھا مرے ساتھ چاند چوری سے
اندھیرے راستے کے جگمگائے ہیں کیا کیا