امکانات
محفلین
کہیں یہ بھارت کی جنگ تو نہیں۔۔‘‘ کالم ‘ زبیر احمد ظہیر
پارلیمنٹ کے بند کمرہ اجلاس کی سرگوشیوں سے کیا تبدیلی آئے گی ؟یہ سوال زبان زد عام ہے ۔عوام پارلیمنٹ سے اس جنگ کے انجام کی توقع لگائے ہوئے ہیں ۔عوام کی یہی توقع آج خطے کی زمینی حقیقت ہے ۔ایران ،روس اورچین تک خطے کا کوئی ملک امریکہ کے افغان قبضے کو طول دینے کا حامی نہیں ۔ پاکستان اس جنگ سے نکلنے کی جتنی کوشش کرتا ہے مزید الجھ جاتا ہے ۔ اس وقت خطے میں بھارت واحد ملک ہے جو امریکا کی اس جنگ کا سب سے بڑا حامی ہے۔ پاؤں اکھڑ جانے کے بعدامریکا کو سہارا دینے کے پس پردہ بھارت کیا مقاصدہیں۔یہ جاننے کے لیے ہمیں ماضی تک جانا ہوگا۔ 1947میںتقسیم کے ساتھ ہی بھارت نے دفاعی سامان پر ڈاکہ ڈالااورپاک فوج مفلوج ہوگئی ، اس کی قلیل افرادی قوت لٹے پٹے قافلوں کو سمیٹنے میں جت گئی، بھارت نے 20لاکھ مہاجرین کو مار کرڈیڑھ کروڑمہاجرین کو لوٹا،20لاکھ اموات نے نومولودپاکستان کو سوگوار بنادیا یہ سوگوار پاکستان تنکا تنکا جوڑنے میں مصروف تھا۔ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی ۔اس حالت میں بھارت نے پاکستان کے جتنے علاقوںاور خطے کی دیگر ریاستوں پر قبضہ کیا ۔ اجتماعی مزاحمت ہوئی نہ ہم انہیںفوجی کمک بھیج سکے ۔
14اگست 1947کو پاکستان کی آزادی کے بعد کشمیرکا الحاق پاکستان سے ہونا تھا ۔ڈوگرا مہاراجہ نے ٹال مٹول شروع کردی اوردو ماہ تک ڈوگرا فواج کے مظالم میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔پونچھ ،راولاکوٹ ،دھیر کوٹ، میرپور سمیت دیگر علاقوں کے سابقہ فوجیوں نے ڈوگر ا کے خلاف مزاحمت کی منصوبہ بندی کرلی ،80ہزار تربیت یافتہ فوجی جمع ہوگے ۔اسلحہ اور کمک کے لیے سرحد کے قبائل سے مدد مانگ لی۔ 22اکتوبر کو پونچھ کی جانب سے پیش قدمی کرتے کرتے یہ مزاحمت مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوگئی، 24اکتوبر کو انہوں نے سرینگر کی بجلی کاٹ دی، مہاراجہ نے خطرے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے بھارت سے مدد مانگ لی اور 26اکتوبر کو انڈیا بھاگ کر جان بچائی اور کشمیرکا سودا کرلیا۔ اگلے دن27 اکتوبر1947کوبھارت نے کشمیر میں فوج اتاردی۔آزاد علاقوں نے اپنی حکومت بنا لی اورتب سے مقبوضہ کشمیر آزاد نہ ہو سکا۔قبائلیوں نے اس وقت جنگ لڑی، جب پاک فوج جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی، قبائلیوں سے کشمیری خوف کھاتے تھے، زبان دونوں کی مختلف تھی ۔ بھوک کے مارے کچے اخروٹ کو کچافروٹ سمجھ کر چباتے تو زہریلے چھلکوں سے ان کے ہونٹ پھٹ جاتے تھے ،عوامی تعاون کے اس منظر نامے کے ساتھ قبائلیوں نے کشمیر آزاد کروایا۔
آزاد کشمیر کے آزاد ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر میں بھی آزادی کی ناممکن سوچ ممکن بنی۔یہ سوچ پختہ ہوتے ہوتے 1989 میں مسلح جدوجہد میں بدل گئی۔یہ جنگ چند ہاتھوں سے ہوتی ہوئی خانہ جنگی میںڈھل گئی۔ بھارت مجبور ہوتا گیا ۔ تحریک تیز ہوتی گئی ۔یہ جنگ برف باری کے باجود12ماہ تک پھیلتی گئی۔ بارڈر سیکورٹی سے بلیک کیٹ کمانڈوز تک سب ناکام ہوگئے،تو بھارت نے چھوٹی سی ریاست میںبڑی فوج جھونک دی ۔ایک دوسال کی مزاحمت دس سال تک طویل ہوگئی۔ فوج بڑھتے بڑھتے بھارت کی کل فعال دس لاکھ میں سے ساڑھے سات لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ 1971کی پاک بھارت جنگ پندرہ دن نہ چل سکی، بھارت نے گنتی شروع کردی، 15 ہفتوں پندرہ سال تک، اس مزاحمت نے دبنے ختم ہونے کانام نہ لیا۔
مسلح جدوجہد کے چندسال میں کشمیر کی آزادی صاف نظرآنے لگی۔کشمیر کی آزادی تسلیم کرلی گئی توبھارت کی 29علیحدگی پسند ریاستوں کوتقویت ملے گی۔ بھارت ایک کے بعد ایک کو آزادی دیتے دیتے ٹکروں میں بٹ جائے گا،یہ خو ف جب بھارت کو لاحق ہوا تب متحدہ بھارت کو بچانے کی فکر لاحق ہوئی اور کشمیر کی آزادی کو بھارت کی تباہی سمجھا جانے لگا ۔ تب بھارت نے کشمیر کی جاری تحریک کی سائنسی اور نفسیاتی وجوہ تلاش کیں، معلوم ہوا کہ تحریک کو آزاد کشمیر کی آزادی سے مہمیز ملی ۔بھارت نے آزاد کشمیر کی آزادی کی بنیاد نکالی تو اس پر قبائلیوں کی بے لوث قربانی منکشف ہوئی ۔اسے معلوم ہوا۔24اکتوبر1947 کوسری نگرسے مہاراجہ کو بھگانے والے کشمیریوں کے ساتھ آفریدی ،محسود ،وزیر اور سواتی قبائل کی تعداد نو سوتھی۔ آزاد کشمیر کی آزادی کے لیے استعمال ہونے والا سارا اسلحہ باڑہ اور درہ کا تھا۔بھارت نے سترہ سالہ تحریک میں کئی ایک ایسے موڑ دیکھے جن کے اورمقبوضہ کشمیرکی آزادی کے درمیان ایک کمک کا فاصلہ تھا ۔یہ کمک کشمیریوں کو جب 1947 میں ملی کچھ حصہ آزاد ہوگیا ۔آج قبائلیوں کی ماضی کی ویسی کمک ہمیشہ کے لیے ناممکن بنادی گئی ہے ۔
یہ عجیب بات ہے کہ 2004سے جوں ہی بھارتی فوج کوکشمیرمیں سکھ ملتا ہے ۔قبائلی علاقوں کی شامت آجاتی ہے ۔پندرہ سال میںبھارت جب تک کشمیر کے مسئلے کو پاکستان کی سازش قرار دیتا رہا۔ امریکہ سمیت کسی نے کان نہیںدھرے ،یہ آزادی کی تحریک تھی، کوئی اسے بھارت کی سلامتی کا مفروضہ مانتا بھی کیسے ۔بھارت نے اسے دہشت گردی بتایا اور اسے بھارت پر قبضے کا منصوبہ گنوانا شروع کردیا۔ اس نے اسے طالبان اور القاعدہ کا منصوبہ باور کرایا۔ اس نے اس منصوبے کو کشمیرکی تحریک سے جوڑا اور یہ مضبوط کہانی امریکا کے کان میں انڈیل دی اور اس سے مددمانگ لی ۔امریکا نے عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کی طرح اس منصوبے کا جائزہ لیا تو اسے بھارت کی ساری آبادی مظلوم نظر آ نے لگی ۔اس کی مظلوموں کی داد رسی کی رگ پھڑکی اوراس نے بھارت کوچین کے مقابلے میںخطے کا مقامی ایجنٹ بھرتی کرلیا ۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ بھارت امریکا کو افغانستان لے کر آیا ،جتنا یہ مشکل ہے اتنا ہی زیادہ یہ کہنا آسان ہے کہ بھارت امریکا کی واپسی میںرکاوٹ ہے ۔آج جب سب اتحادی امریکا کا ساتھ چھوڑنے کو ہیں یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنی فوج افغانستان بھیجنے کو تیار ہے۔ یہ رسک چغلی کھارہا ہے کہ کے افغانستان میںبھارتی مقاصد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکا لڑنے توالقاعدہ اور طالبان سے آیا تھا۔ مگرآج چھ سال بعد اس کی ساری جنگ قبائلی علاقوں میںدھنس گئی ہے ،قبائلی اب کبھی کشمیر یوں کو کمک دینے کے قابل نہیں رہے۔
امریکا کی جنگ قبائلیوں تک کیسے پہنچی اوراس میں بھارت کا کیامفادہے۔ امریکا نے 2001میں افغانستان پر حملہ کیا ،طالبان نے گوریلا جنگ شروع کردی ۔آج یہ دنیاکی سب سے بڑی اور خو فنا ک جنگ ہے اگر کوئی تعلق ہوتا توتحریک آزادی کشمیر 2001 ء میں امریکی حملے کے بعد فورا ختم ہوجاتی مگر وہ چلتی رہی کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ بھارت کو یہ محنت ناکام ہوتی نظر آئی ۔اس نے افغانستان میں اپنا کام بڑھادیا جو کام پہلے شمالی اتحاد تک محدود تھا اس نے پورے افغانستان میں پھیلادیا ۔بھارت کی نظریں ڈیورنڈ لائن پر تھیں یہ وہ سرحد ہے جو بھارت سے تین جنگوں کے دوران خالی رہی۔ پاکستان 2001تک دنیاکا واحد خوش نصیب ملک تھا جس نے تین جنگیں لڑیں اور اس کی سب سے بڑی 2ہزار5سو کلومیڑ طویل سرحد خالی رہی۔پاک فوج نے بے خطر ننگی پیٹھ کے ساتھ سارا زور بھارتی سرحدوں پر لگایا اور اپنے سے دس گنابڑی فوج کے حملے پسپا کردیے۔ بھارت کے لیے یہ ڈیورنڈ لائن2001 تک 53سال خطر ہ بنی رہی۔
بھارت نے افغانستان میں سرمایہ کاری کی،تعمیراتی کام سنبھالے،سڑکوں کے ٹھیکے لیے اوراپنے جاسوس مزدور انجینئربنا کر بھیج دیے ۔آج بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جس نے افغانستان جیسے بنجر ملک میں سترہ قونصل خانے کھول رکھے ہیں۔ افغانستان میںاتنی تعداد میں امریکا کی فوجی چھاؤنیاں نہیں جس کی اصل جنگ ہے امریکا نے فوجی اڈے بھی اتحادیوں میں بانٹ رکھے ہیں مگر بھارت کے سترہ قونصل خانے ہیں۔عام حالات میں بھارت جیسا غریب العوام ملک اتنی فضول خرچی برداشت نہیں کرسکتا ۔بھارت کے تعلقات تو شمالی اتحاد سے رہے مگر قونصل خانے وہ ڈیورنڈ لائن کے قریب کھولتا رہا ۔امریکا کی جنگ جسے افغانستان میں پھیلنا تھا وہ ڈیورنڈ لائن عبور کرکے قبائلی علاقوں میں داخل ہوگئی ۔53کی پر امن یہ طویل سرحد 53دنوںمیں پر خطر بن گئی ۔آج یہاں ہمارا فوجی پہرا ایک لاکھ سے متجاوز ہے مگرفوجی مصروفیت ہے کہ بڑھتی جارہی ہے
بھارت کومعلوم ہے امریکا افغانستا ن سے جس دن نکل گیا ۔پاکستان کی طویل مغربی سرحد پھر خالی ہوجائے گئی اور پاکستان فوجی مصروفیت سے آزاد ہوجائے گا۔یوںپاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی پوزیشن میں آجائے گا۔ 2001سے 2004تک طالبان حکومت کے خاتمے کے باوجود تحریک آزادی کشمیر کمزور نہیں ہوئی جس نے ثابت کردیا کہ کشمیر کی تحریک کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔یہ بھارت کا جھوٹ تھا۔ پاکستان نے 2004 میں نظریں بدل لیں، تحریک کمزور ہوئی ختم نہیں ہوئی۔ کشمیریوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھائے پاکستان کوچار سال ہونے کو ہیں مگرتحریک چل رہی ہے، جھڑپیں جاری ہیں ۔بھارت آج بھی اس وہم میں مبتلاء ہے کہ کشمیر کی آزادی سے بھارتی سلامتی خطرے میںپڑ جائے گا۔ اس لیے 1947 میںجن قبائلیوںنے کشمیریوں کی مدد کی تھی بھارت نے آج ان ہی قبائلیوں پر مسلط جنگ کو طول دینا شروع کردیا ہے۔
آج جب قبائلی علاقوں سے طالبان کی آڑ اور بہروپ میں بھارتی مداخلت کے کھلے ثبوت ملتے ہیں ہم ان کا ذکرانتہائی رازداری سے دبے لفظوں میں پارلیمنٹ کے بند کمروں میں کرتے ہیں اور اعلانیہ اسے اپنی جنگ کہتے ہیں۔ بھارت ڈنکے کی چوٹ پر افغانستان میں امریکا کو آخری لمحوں میںفوجی کمک دینے کو بے تاب ہے۔ آج سات سال بعد پارلیمنٹ کی قرار دادآئی ہے مگر یہ ہمیںآج بھی سمجھ نہیںآیا کہ یہ جنگ اس خطے میںفوائد کے لحاظ سے کہیںامریکا سے زیادہ بھارت کی تو نہیں۔کل جب 30سال بعد امریکا کی سرکاری دستاویزات سامنے آئیں گئی ۔اس وقت دنیا کی سپر طاقت چین ہو گئی ۔امریکا سرکاری رازوں سے پردہ اٹھائے گا اورچین کو ڈرانے کے لیے بھارت کو ماضی کی القاعدہ امریکا خطرناک جنگ کا ہیرو بنائے گا تو لکھا ہوا گا کہ’’ را’’نے کشمیر سے افغانستان تک جہادی نیٹ ورک کے خلاف سب سے پہلے خفیہ معلومات امریکا کو دیںجس سے پاکستا ن کو تعاون پر مجبور کیا جا سکااس کے بدلے میں جب بھارت نے فائدہ اٹھانا شروع کیا،تب پاکستان اسے اپنی جنگ سمجھنے کی غلط فہمی میںاتنا مبتلاء تھا کہ اس وقت ’’را‘‘ کے مقابل آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے جیسی سرگرمیاں جاری تھیں۔ ان دستاویزات میں لکھا ہوگا جس وقت بھارت امریکا ایٹمی معاہدہ ہوا اور امریکی آرمی چیف نے سیاچن کا دورہ بھی کرلیاتھا ۔بھارتی ائر چیف نے افغانستان کا دورہ کرلیا تھا۔تب 30سال قبل اس وقت پاکستان بندہ کمرہ اجلاسوں کی سرگوشیوں اور پارلیمانی کمیٹیوں میں مصروف تھا۔
پارلیمنٹ کے بند کمرہ اجلاس کی سرگوشیوں سے کیا تبدیلی آئے گی ؟یہ سوال زبان زد عام ہے ۔عوام پارلیمنٹ سے اس جنگ کے انجام کی توقع لگائے ہوئے ہیں ۔عوام کی یہی توقع آج خطے کی زمینی حقیقت ہے ۔ایران ،روس اورچین تک خطے کا کوئی ملک امریکہ کے افغان قبضے کو طول دینے کا حامی نہیں ۔ پاکستان اس جنگ سے نکلنے کی جتنی کوشش کرتا ہے مزید الجھ جاتا ہے ۔ اس وقت خطے میں بھارت واحد ملک ہے جو امریکا کی اس جنگ کا سب سے بڑا حامی ہے۔ پاؤں اکھڑ جانے کے بعدامریکا کو سہارا دینے کے پس پردہ بھارت کیا مقاصدہیں۔یہ جاننے کے لیے ہمیں ماضی تک جانا ہوگا۔ 1947میںتقسیم کے ساتھ ہی بھارت نے دفاعی سامان پر ڈاکہ ڈالااورپاک فوج مفلوج ہوگئی ، اس کی قلیل افرادی قوت لٹے پٹے قافلوں کو سمیٹنے میں جت گئی، بھارت نے 20لاکھ مہاجرین کو مار کرڈیڑھ کروڑمہاجرین کو لوٹا،20لاکھ اموات نے نومولودپاکستان کو سوگوار بنادیا یہ سوگوار پاکستان تنکا تنکا جوڑنے میں مصروف تھا۔ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی ۔اس حالت میں بھارت نے پاکستان کے جتنے علاقوںاور خطے کی دیگر ریاستوں پر قبضہ کیا ۔ اجتماعی مزاحمت ہوئی نہ ہم انہیںفوجی کمک بھیج سکے ۔
14اگست 1947کو پاکستان کی آزادی کے بعد کشمیرکا الحاق پاکستان سے ہونا تھا ۔ڈوگرا مہاراجہ نے ٹال مٹول شروع کردی اوردو ماہ تک ڈوگرا فواج کے مظالم میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔پونچھ ،راولاکوٹ ،دھیر کوٹ، میرپور سمیت دیگر علاقوں کے سابقہ فوجیوں نے ڈوگر ا کے خلاف مزاحمت کی منصوبہ بندی کرلی ،80ہزار تربیت یافتہ فوجی جمع ہوگے ۔اسلحہ اور کمک کے لیے سرحد کے قبائل سے مدد مانگ لی۔ 22اکتوبر کو پونچھ کی جانب سے پیش قدمی کرتے کرتے یہ مزاحمت مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوگئی، 24اکتوبر کو انہوں نے سرینگر کی بجلی کاٹ دی، مہاراجہ نے خطرے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے بھارت سے مدد مانگ لی اور 26اکتوبر کو انڈیا بھاگ کر جان بچائی اور کشمیرکا سودا کرلیا۔ اگلے دن27 اکتوبر1947کوبھارت نے کشمیر میں فوج اتاردی۔آزاد علاقوں نے اپنی حکومت بنا لی اورتب سے مقبوضہ کشمیر آزاد نہ ہو سکا۔قبائلیوں نے اس وقت جنگ لڑی، جب پاک فوج جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی، قبائلیوں سے کشمیری خوف کھاتے تھے، زبان دونوں کی مختلف تھی ۔ بھوک کے مارے کچے اخروٹ کو کچافروٹ سمجھ کر چباتے تو زہریلے چھلکوں سے ان کے ہونٹ پھٹ جاتے تھے ،عوامی تعاون کے اس منظر نامے کے ساتھ قبائلیوں نے کشمیر آزاد کروایا۔
آزاد کشمیر کے آزاد ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر میں بھی آزادی کی ناممکن سوچ ممکن بنی۔یہ سوچ پختہ ہوتے ہوتے 1989 میں مسلح جدوجہد میں بدل گئی۔یہ جنگ چند ہاتھوں سے ہوتی ہوئی خانہ جنگی میںڈھل گئی۔ بھارت مجبور ہوتا گیا ۔ تحریک تیز ہوتی گئی ۔یہ جنگ برف باری کے باجود12ماہ تک پھیلتی گئی۔ بارڈر سیکورٹی سے بلیک کیٹ کمانڈوز تک سب ناکام ہوگئے،تو بھارت نے چھوٹی سی ریاست میںبڑی فوج جھونک دی ۔ایک دوسال کی مزاحمت دس سال تک طویل ہوگئی۔ فوج بڑھتے بڑھتے بھارت کی کل فعال دس لاکھ میں سے ساڑھے سات لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ 1971کی پاک بھارت جنگ پندرہ دن نہ چل سکی، بھارت نے گنتی شروع کردی، 15 ہفتوں پندرہ سال تک، اس مزاحمت نے دبنے ختم ہونے کانام نہ لیا۔
مسلح جدوجہد کے چندسال میں کشمیر کی آزادی صاف نظرآنے لگی۔کشمیر کی آزادی تسلیم کرلی گئی توبھارت کی 29علیحدگی پسند ریاستوں کوتقویت ملے گی۔ بھارت ایک کے بعد ایک کو آزادی دیتے دیتے ٹکروں میں بٹ جائے گا،یہ خو ف جب بھارت کو لاحق ہوا تب متحدہ بھارت کو بچانے کی فکر لاحق ہوئی اور کشمیر کی آزادی کو بھارت کی تباہی سمجھا جانے لگا ۔ تب بھارت نے کشمیر کی جاری تحریک کی سائنسی اور نفسیاتی وجوہ تلاش کیں، معلوم ہوا کہ تحریک کو آزاد کشمیر کی آزادی سے مہمیز ملی ۔بھارت نے آزاد کشمیر کی آزادی کی بنیاد نکالی تو اس پر قبائلیوں کی بے لوث قربانی منکشف ہوئی ۔اسے معلوم ہوا۔24اکتوبر1947 کوسری نگرسے مہاراجہ کو بھگانے والے کشمیریوں کے ساتھ آفریدی ،محسود ،وزیر اور سواتی قبائل کی تعداد نو سوتھی۔ آزاد کشمیر کی آزادی کے لیے استعمال ہونے والا سارا اسلحہ باڑہ اور درہ کا تھا۔بھارت نے سترہ سالہ تحریک میں کئی ایک ایسے موڑ دیکھے جن کے اورمقبوضہ کشمیرکی آزادی کے درمیان ایک کمک کا فاصلہ تھا ۔یہ کمک کشمیریوں کو جب 1947 میں ملی کچھ حصہ آزاد ہوگیا ۔آج قبائلیوں کی ماضی کی ویسی کمک ہمیشہ کے لیے ناممکن بنادی گئی ہے ۔
یہ عجیب بات ہے کہ 2004سے جوں ہی بھارتی فوج کوکشمیرمیں سکھ ملتا ہے ۔قبائلی علاقوں کی شامت آجاتی ہے ۔پندرہ سال میںبھارت جب تک کشمیر کے مسئلے کو پاکستان کی سازش قرار دیتا رہا۔ امریکہ سمیت کسی نے کان نہیںدھرے ،یہ آزادی کی تحریک تھی، کوئی اسے بھارت کی سلامتی کا مفروضہ مانتا بھی کیسے ۔بھارت نے اسے دہشت گردی بتایا اور اسے بھارت پر قبضے کا منصوبہ گنوانا شروع کردیا۔ اس نے اسے طالبان اور القاعدہ کا منصوبہ باور کرایا۔ اس نے اس منصوبے کو کشمیرکی تحریک سے جوڑا اور یہ مضبوط کہانی امریکا کے کان میں انڈیل دی اور اس سے مددمانگ لی ۔امریکا نے عراق کے ایٹمی ہتھیاروں کی طرح اس منصوبے کا جائزہ لیا تو اسے بھارت کی ساری آبادی مظلوم نظر آ نے لگی ۔اس کی مظلوموں کی داد رسی کی رگ پھڑکی اوراس نے بھارت کوچین کے مقابلے میںخطے کا مقامی ایجنٹ بھرتی کرلیا ۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ بھارت امریکا کو افغانستان لے کر آیا ،جتنا یہ مشکل ہے اتنا ہی زیادہ یہ کہنا آسان ہے کہ بھارت امریکا کی واپسی میںرکاوٹ ہے ۔آج جب سب اتحادی امریکا کا ساتھ چھوڑنے کو ہیں یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنی فوج افغانستان بھیجنے کو تیار ہے۔ یہ رسک چغلی کھارہا ہے کہ کے افغانستان میںبھارتی مقاصد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکا لڑنے توالقاعدہ اور طالبان سے آیا تھا۔ مگرآج چھ سال بعد اس کی ساری جنگ قبائلی علاقوں میںدھنس گئی ہے ،قبائلی اب کبھی کشمیر یوں کو کمک دینے کے قابل نہیں رہے۔
امریکا کی جنگ قبائلیوں تک کیسے پہنچی اوراس میں بھارت کا کیامفادہے۔ امریکا نے 2001میں افغانستان پر حملہ کیا ،طالبان نے گوریلا جنگ شروع کردی ۔آج یہ دنیاکی سب سے بڑی اور خو فنا ک جنگ ہے اگر کوئی تعلق ہوتا توتحریک آزادی کشمیر 2001 ء میں امریکی حملے کے بعد فورا ختم ہوجاتی مگر وہ چلتی رہی کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ بھارت کو یہ محنت ناکام ہوتی نظر آئی ۔اس نے افغانستان میں اپنا کام بڑھادیا جو کام پہلے شمالی اتحاد تک محدود تھا اس نے پورے افغانستان میں پھیلادیا ۔بھارت کی نظریں ڈیورنڈ لائن پر تھیں یہ وہ سرحد ہے جو بھارت سے تین جنگوں کے دوران خالی رہی۔ پاکستان 2001تک دنیاکا واحد خوش نصیب ملک تھا جس نے تین جنگیں لڑیں اور اس کی سب سے بڑی 2ہزار5سو کلومیڑ طویل سرحد خالی رہی۔پاک فوج نے بے خطر ننگی پیٹھ کے ساتھ سارا زور بھارتی سرحدوں پر لگایا اور اپنے سے دس گنابڑی فوج کے حملے پسپا کردیے۔ بھارت کے لیے یہ ڈیورنڈ لائن2001 تک 53سال خطر ہ بنی رہی۔
بھارت نے افغانستان میں سرمایہ کاری کی،تعمیراتی کام سنبھالے،سڑکوں کے ٹھیکے لیے اوراپنے جاسوس مزدور انجینئربنا کر بھیج دیے ۔آج بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جس نے افغانستان جیسے بنجر ملک میں سترہ قونصل خانے کھول رکھے ہیں۔ افغانستان میںاتنی تعداد میں امریکا کی فوجی چھاؤنیاں نہیں جس کی اصل جنگ ہے امریکا نے فوجی اڈے بھی اتحادیوں میں بانٹ رکھے ہیں مگر بھارت کے سترہ قونصل خانے ہیں۔عام حالات میں بھارت جیسا غریب العوام ملک اتنی فضول خرچی برداشت نہیں کرسکتا ۔بھارت کے تعلقات تو شمالی اتحاد سے رہے مگر قونصل خانے وہ ڈیورنڈ لائن کے قریب کھولتا رہا ۔امریکا کی جنگ جسے افغانستان میں پھیلنا تھا وہ ڈیورنڈ لائن عبور کرکے قبائلی علاقوں میں داخل ہوگئی ۔53کی پر امن یہ طویل سرحد 53دنوںمیں پر خطر بن گئی ۔آج یہاں ہمارا فوجی پہرا ایک لاکھ سے متجاوز ہے مگرفوجی مصروفیت ہے کہ بڑھتی جارہی ہے
بھارت کومعلوم ہے امریکا افغانستا ن سے جس دن نکل گیا ۔پاکستان کی طویل مغربی سرحد پھر خالی ہوجائے گئی اور پاکستان فوجی مصروفیت سے آزاد ہوجائے گا۔یوںپاکستان کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی پوزیشن میں آجائے گا۔ 2001سے 2004تک طالبان حکومت کے خاتمے کے باوجود تحریک آزادی کشمیر کمزور نہیں ہوئی جس نے ثابت کردیا کہ کشمیر کی تحریک کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔یہ بھارت کا جھوٹ تھا۔ پاکستان نے 2004 میں نظریں بدل لیں، تحریک کمزور ہوئی ختم نہیں ہوئی۔ کشمیریوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھائے پاکستان کوچار سال ہونے کو ہیں مگرتحریک چل رہی ہے، جھڑپیں جاری ہیں ۔بھارت آج بھی اس وہم میں مبتلاء ہے کہ کشمیر کی آزادی سے بھارتی سلامتی خطرے میںپڑ جائے گا۔ اس لیے 1947 میںجن قبائلیوںنے کشمیریوں کی مدد کی تھی بھارت نے آج ان ہی قبائلیوں پر مسلط جنگ کو طول دینا شروع کردیا ہے۔
آج جب قبائلی علاقوں سے طالبان کی آڑ اور بہروپ میں بھارتی مداخلت کے کھلے ثبوت ملتے ہیں ہم ان کا ذکرانتہائی رازداری سے دبے لفظوں میں پارلیمنٹ کے بند کمروں میں کرتے ہیں اور اعلانیہ اسے اپنی جنگ کہتے ہیں۔ بھارت ڈنکے کی چوٹ پر افغانستان میں امریکا کو آخری لمحوں میںفوجی کمک دینے کو بے تاب ہے۔ آج سات سال بعد پارلیمنٹ کی قرار دادآئی ہے مگر یہ ہمیںآج بھی سمجھ نہیںآیا کہ یہ جنگ اس خطے میںفوائد کے لحاظ سے کہیںامریکا سے زیادہ بھارت کی تو نہیں۔کل جب 30سال بعد امریکا کی سرکاری دستاویزات سامنے آئیں گئی ۔اس وقت دنیا کی سپر طاقت چین ہو گئی ۔امریکا سرکاری رازوں سے پردہ اٹھائے گا اورچین کو ڈرانے کے لیے بھارت کو ماضی کی القاعدہ امریکا خطرناک جنگ کا ہیرو بنائے گا تو لکھا ہوا گا کہ’’ را’’نے کشمیر سے افغانستان تک جہادی نیٹ ورک کے خلاف سب سے پہلے خفیہ معلومات امریکا کو دیںجس سے پاکستا ن کو تعاون پر مجبور کیا جا سکااس کے بدلے میں جب بھارت نے فائدہ اٹھانا شروع کیا،تب پاکستان اسے اپنی جنگ سمجھنے کی غلط فہمی میںاتنا مبتلاء تھا کہ اس وقت ’’را‘‘ کے مقابل آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے جیسی سرگرمیاں جاری تھیں۔ ان دستاویزات میں لکھا ہوگا جس وقت بھارت امریکا ایٹمی معاہدہ ہوا اور امریکی آرمی چیف نے سیاچن کا دورہ بھی کرلیاتھا ۔بھارتی ائر چیف نے افغانستان کا دورہ کرلیا تھا۔تب 30سال قبل اس وقت پاکستان بندہ کمرہ اجلاسوں کی سرگوشیوں اور پارلیمانی کمیٹیوں میں مصروف تھا۔