آصف شفیع
محفلین
چھوٹی بحر ہی میں ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
کہ شہرت یار تک پہنچے
سو ہم اِس دار تک پہنچے
سبھی طوفاں سے الجھے ہیں
کوئی تو پار تک پہنچے!
یہ ممکن ہے، مرا سایہ
تری دیوار تک پہنچے
یہ کچھ کم تو نہیں ہے، ہم
کسی معیار تک پہنچے
یہی تو ہے کمالِ فن
ہنر اغیار تک پہنچے
کہیں ایسا نہ ہو قصہ
ترے انکار تک پہنچے
ہو رخصت حبس کا موسم
ہوا اشجار تک پہنچے
صدائے نغمہء ہستی
دلِ بیدار تک پہنچے
ہمیں تھی امن کی خواہش
عدو تلوار تک پہنچے
کہیں ایسا نہ ہو آصف
سخن تکرار تک پہنچے
آصف شفیع
کہ شہرت یار تک پہنچے
سو ہم اِس دار تک پہنچے
سبھی طوفاں سے الجھے ہیں
کوئی تو پار تک پہنچے!
یہ ممکن ہے، مرا سایہ
تری دیوار تک پہنچے
یہ کچھ کم تو نہیں ہے، ہم
کسی معیار تک پہنچے
یہی تو ہے کمالِ فن
ہنر اغیار تک پہنچے
کہیں ایسا نہ ہو قصہ
ترے انکار تک پہنچے
ہو رخصت حبس کا موسم
ہوا اشجار تک پہنچے
صدائے نغمہء ہستی
دلِ بیدار تک پہنچے
ہمیں تھی امن کی خواہش
عدو تلوار تک پہنچے
کہیں ایسا نہ ہو آصف
سخن تکرار تک پہنچے
آصف شفیع