ابن جمال
محفلین
کیایہ سچ ہے؟
--------------------------------------------------------------------------------
"جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرنے کے لئے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سائنس دان ہونے کے حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مذہبی علماء میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے آپ کو مبرا عن الخطا خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی پر ہے ، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لئے دنگا فساد تک نوبت جاپہنچتی ہے۔" (برٹرینڈ رسل: لوگوں کو سوچنے دو، اردو ترجمہ از قاضی جاوید، ص 86 )
یہ اقتباس مبیشر نذیر کے ایک مضمون سے لیاگیاہے۔جوہم سب کیلئے دعوت فکر ہے کہ کہیں ہم بھی اس کے مصداق تونہیں ہیں۔
--------------------------------------------------------------------------------
"جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرنے کے لئے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سائنس دان ہونے کے حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مذہبی علماء میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے آپ کو مبرا عن الخطا خیال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی پر ہے ، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لئے دنگا فساد تک نوبت جاپہنچتی ہے۔" (برٹرینڈ رسل: لوگوں کو سوچنے دو، اردو ترجمہ از قاضی جاوید، ص 86 )
یہ اقتباس مبیشر نذیر کے ایک مضمون سے لیاگیاہے۔جوہم سب کیلئے دعوت فکر ہے کہ کہیں ہم بھی اس کے مصداق تونہیں ہیں۔