اسد عباسی
محفلین
کہتے ھیں کہ26 دسمبر 1950 کو اندرون سندھ کے ایک علاقہ سانگھڑ میں ایک چھوٹے سے کسان کے گھر ایک بچہ پیدا ھوا جو کہ کسی اور علاقے سے یہاں آ کر بسا تھا اور تھوڑی سی زمین خرید کر وہاں کھتی باڑی کرنے لگا اور یوں گھر کا دال دلیہ چلنے لگآ۔وہ بچہ اسی علاقے کے ایک عام سے سکول سے پڑھا۔اور پھر سندھ یونیورسٹی سے بی اے پاس کرنے کے بعد اپنے آبائی گاؤں میں جا بسا جہاں سے اس کے باپ نے کئ سال پہلے ہجرت کر لی تھی۔
اس گریجویٹ نوجوان نے وہاں اپنے بھائی کے ساتھ کچھ پیسے ملائے اور جوتوں کا ایک چھوٹا سا کارخانہ کھول لیا مگر شاید تقدیر کو اس غریب کا ابھی امتحان لینا تھا اس لئے دونوں بھائیوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی ڈوب گئی اور ان کو یہ کارخانہ بند کرنا پڑا۔
یہ نوجوان اس سوچ میں پڑ گیا کہ اب ایسا کون سا کام کیا جائے جس میں سرمایہ نہ لگانا پڑے اور کام بھی چل جائے۔لہذا کافی سوچ بچار کے بعد اس نے پراپرٹی ڈیلر کا کام شروع کر دیا اور لوگوں کے پلاٹوں کے سودے کروا کر چار پیسے کمیشن کی مد میں کمانے لگا۔
وقت بدلتا گیا اور ان سودوں میں اس کو کافی مال ملنے لگا۔اور ساتھ ھی اس نے سیاست میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی اور ملک پاکستان کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلز پاٹی کے ساتھ منسلک ھو گیا۔ اب سیاسی تعلقات کی بنا پر اس کا پراپرٹی ڈیلر والا کام اور چمک اٹھا جب مال کی ریل پیل ھوئی تو اس نے لیڈر بننے اور اپنے حلقے سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔چونکہ اس کے حلقہ میں مسلم لیگ کا اثر و رسوخ زیادہ تھا اس لئے اس کو اپنی حماعت نے با خوشی ٹکٹ دے دیا۔
اس پراپرٹی ڈیلر کو93،1990 اور 97 کے الیکسن میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ّپھر اس کی قسمت کا ستارہ چمکا اور پرویز مشرف کی حکومت بن گئی لہذا 2002 کے الیکشن میں اس کسان کے بچے کو بھی دوسرے بہت سے امیدواروں کی طرح مسلم لیگ کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے جتا دیا گیا۔
یوں پہلی مرتبہ اسمبلی میں آنے کا اس کا خواب پورا ہو گیا۔
اس کے بعد اس غریب کو دوبارہ 2008 میں الیکشن لڑنے کا جوکھن اٹھانا پڑا مگر تقدیر اس پر مہربان تھی لہذا اس کی جماعت کی لیڈر کے قتل اور پرویز مشرف کی اسی دشمنی کی وجہ سے یہ پھر کامیاب ھو گیا لیکن ان الیکشن میں پراپرٹی کے کام سے کمائی ھوئی ساری دولت ان دو الیکشن میں لگ چکی تھی۔
اس بار اس کو ایک مردہ سی آخری سانسیں لیتی وزارت کا قلم دان تھما دیا گیا اس خیال سے کہ اس غریب کے علاوہ کسی کو قربانی کا بکرا بنایا گیا تو وہ اس وزارت کی زبوں حالی کی وجہ سے ھونے والی ذلالت کو برداشت نہ کر پائے گا۔
بنانے والوں نے تو اسے قبرستان کا منسٹر بنایا تھا مگر وہ پراپرٹی ڈیلر ھی کیا جو مردے سے خون حاصل کرنا نہ جانتا ھو۔اور پھر اس کو اپنے اوپر سے پیدائشی غربت کا داغ بھی تو مٹانا تھا۔
لہذا اس شخص نے بیرونے ملک سے ایک سودا کیا اور اس میں کروڑوں روپے کمیشن حاصل کر کے خد کو ایک کامیاب ڈیلر ثابت کرنے کے ساتھ کروڑ پتی بھی بن گيا۔
اس کے باپ نے اس کا نام کچھ اور رکھا تھا مگر اس کامیاب سودے کی وجہ سے عوام نے اس کو راجہ رینٹل کے خطاب سے نوازا۔
راجہ رینٹل کی اس کامیاب دیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ وقت کے صدر نے اسے بڑے سودے کرنے کے لئے ملک کا وزیراعظم بنا دیا۔
جی ہاں سکول سے واپس آ کر اپنے باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کرنے والا اور لوگوں کے سودے کروا کر کمیشن حاصل کرنے والا وہ شخص آج کل ان گاڑیوں کے قاضلے میں سے کسی کالے شیشوں والی گاڑی میں بیٹھا ھوتا ھے۔کیونکہ اس غریب کسان کے بچے کو اب جان کا خطرہ ھے۔
وہ الگ بات ھے کہ یہاں سے جانے کے بعد یہ پھر سے لوگوں میں گھل مل جائے گا اور جان کو کوئی خطرہ نہیں رھے گا۔کیونکہ اپنے خرچے پر اتنے حفاظتی دستے ساتھ رکھنے سے زیادہ فائدہ اس ڈیلر کو دشمن کے ہاتھوں مر جانے میں ھی نظر آئے گا۔
ابھی تو یہ عوام کے خرچے پر چل رھا ھے۔