کیا آپ شاعری میں بہتری لانے کے قائل ہیں؟

بات یہ ہے کہ اگر مثلاً ایک پروگریمر یا مصور کے زندگی کے موجودہ کام کا موازنہ اس کی زندگی کے اوئل کام سے کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق ہوگا۔ مجھے حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ شاعری میں ایسا نظر نہیں آتا۔ میں اپنی پہلی غزل کا موازنہ سب سے موجودہ غزل سے کروں تو مجھے تقریباً دونوں ایک ہی معیار کی معلوم ہوتی ہیں۔ یہی بات غالب یا میر یا کسی شاعر کےلیے بھی درست ہے۔(صرف وہ لوگ مستثنیٰ ہوں گے جو پہلے شاعری کے اصول سہی جیسے وزن کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے اور بعد میں سیکھا۔)

میں خود تو حتی کہ اس حد تک سمجھتا ہوں کہ وقت کہ ساتھ ساتھ ہماری شاعری کا لطف کم تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟:

کیا شاعری ایسی چیز ہے جس کے ساتھ کوئی پیدا ہوتا ہے (کیوں کہ قدرت کی عطا کردہ شے پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا)؟
یا ہمیں الہام ہوتا ہے اور اپنی محنت نہیں ہوتی (کیوں کہ بہتری تب ہی لائی جاسکتی ہے جب ہماری اپنی محنت ہو)؟

اور کیا یہ بات پہلے شعرا کے شعور میں لائی جا چکی ہے؟
 
گو کہ میں نے بہت کم اشعار کہے ہیں اور میں اپنے آپ کو شاعر سے زیادہ ایک قاری کی حیثیت میں دیکھتا ہوں، اس کے باوجود مجھے اپنی پہلی غزل اور موجودہ شاعری میں کافی فرق نظر آتا ہے۔ مطالعے کے زیرِ اثر وقت کے ساتھ ساتھ خیالات اور زبان و بیان دونوں کسی حد تک ارتقا پذیر ہوتے رہتے ہیں۔
یا ہمیں الہام ہوتا ہے اور اپنی محنت نہیں ہوتی (کیوں کہ بہتری تب ہی لائی جاسکتی ہے جب ہماری اپنی محنت ہو)؟
قدر سخن بلندکن از مشق خامشی
حرفِ نگفته معنی الهام داشته‌ست

سخن کا مرتبہ خامشی کی مشق سے بلند کر کہ وہ حرف جو کہا نہ جائے الہام کے معانی رکھتا ہے۔

بیدل دہلوی
 
[QOUTE]

سخن کا مرتبہ خامشی کی مشق سے بلند کر کہ وہ حرف جو کہا نہ جائے الہام کے معانی رکھتا ہے۔

بیدل دہلوی[/QUOTE]

ترجمے کے ساتھ بھی مطلب واضح نہیں ہوا (فارسی تو بدقسمتی سے بالکل نہیں آتی)۔
 
خیالات کا تبدیل ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔ غالب مثال(جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے) کے طور پر سادگی کی طرف مائل ہو گئے تھے اور اقبال قوم پرستی کی طرف۔

مگر بات ہےمعیار کی۔ بد قسمتی سے میں مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اکثر شعرا کا کلام وقت کے ساتھ ساتھ معیاری اور زیادہ پختہ ہو جاتا ہے؟
 
مگر بات ہےمعیار کی۔ بد قسمتی سے میں مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اکثر شعرا کا کلام وقت کے ساتھ ساتھ معیاری اور زیادہ پختہ ہو جاتا ہے؟
بالکل ایسا ہی ہے۔ اس بات کا مشاہدہ آپ دیوانِ غالب کے نسخۂ حمیدیہ میں بخوبی کر سکتے ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا شاعری ایسی چیز ہے جس کے ساتھ کوئی پیدا ہوتا ہے (کیوں کہ قدرت کی عطا کردہ شے پر ہمارا اختیار نہیں ہوتا)؟
یا ہمیں الہام ہوتا ہے اور اپنی محنت نہیں ہوتی (کیوں کہ بہتری تب ہی لائی جاسکتی ہے جب ہماری اپنی محنت ہو)؟

ان نکات پر تو بلامبالغہ درجنوں مضامین اور کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔ تنقیدی ادب ان مباحث سے بھرا پڑا ہے ۔ وہ جو کسی نے کہا تھا نا کہ :
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
میری ناقص رائے میں یہ بات خاصی حد تک درست ہے ۔ شعر کے دو بڑے پہلو ہیں ۔ خیال اور لفظی جامہ یا بالفاظِ دیگر تخیل اور محاکات ۔ شاعر جب اپنے تخیل کو الفاظ کا جامہ پہنادیتا ہے تو شعر تخلیق ہوتا ہے ۔ تخیل کے بغیر شعری تخلیق ممکن نہیں ۔ تخیل اکتسابی چیز نہیں ۔ یہ قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے ۔ یا تو آپ کے پاس ہے یا نہیں ہے ۔ اس کے برعکس محاکات کا عمل یعنی خیال کو مناسب الفاظ اور مناسب پیرایہ استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی لفظی تصویر کھینچنا کہ قاری تک آپ کے تخیل کا ابلاغ ہوسکے بہت حد تک اکتسابی ہوسکتا ہے ۔ مطالعے، تجزیے اور مشق کی مدد سے اس میں ترقی ممکن ہے ۔
یہ آپ کے پیچیدہ سوالات کا انتہائی سادہ اور مختصر سا جواب ہے ۔ اگر بات کو طول دیا جائے تو جیسا کہ اوپر عرض کیا درجنوں صفحات سیاہ کئے جاسکتے ہیں ۔
 

نمرہ

محفلین
ان نکات پر تو بلامبالغہ درجنوں مضامین اور کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔ تنقیدی ادب ان مباحث سے بھرا پڑا ہے ۔ وہ جو کسی نے کہا تھا نا کہ :
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
اس خیال سے مجھے کچھ اختلاف ہے۔ میر کی سی نہ سہی، مگر قابل قبول شاعری تو ہر انسان کر سکتا ہے ، کم از کم ایک آدھ زبان میں۔ اگر مگر کی اصطلاح میں سوچنے کی صلاحیت بھی ہر کسی کے پاس ہے، اور محسوس کرنے کی بھی۔ میرے نزدیک تو یہ قدرتی ذوق سے بڑھ کر کچھ اس قسم کا معاملہ ہے کہ انسان ادھر ادھر سے شعر سنتا ہے اور پھر کہنا بھی شروع کر دیتا ہے۔
 

زویا شیخ

محفلین
میرا خیال تھوڑا سا الگ ہے سب سے شاعری شروع اور آخر کی نہیں ہوتی یہ تو بس خود سے ہو جاتی ہے کبھی کبھار بنا سوچے جو شاعری ہوتی ہے وہ سوچ کر لکھے جانے سے لاکھ گنا بہتر ہوتی . . .
 
اس خیال سے مجھے کچھ اختلاف ہے۔ میر کی سی نہ سہی، مگر قابل قبول شاعری تو ہر انسان کر سکتا ہے ، کم از کم ایک آدھ زبان میں۔ اگر مگر کی اصطلاح میں سوچنے کی صلاحیت بھی ہر کسی کے پاس ہے، اور محسوس کرنے کی بھی۔ میرے نزدیک تو یہ قدرتی ذوق سے بڑھ کر کچھ اس قسم کا معاملہ ہے کہ انسان ادھر ادھر سے شعر سنتا ہے اور پھر کہنا بھی شروع کر دیتا ہے۔
متفق۔ یہی وجہ ہے کہ میں شاعری کو ایک انتہا درجے کی بے کار چیز سمجھنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ لوگوں کے پاس خوش نوائی اور مصوری جیسے ہنر موجود ہیں جن کی قدر پہچاننے کے لیے آشتیِ چشم و گوش کے سوا کچھ درکار نہیں۔ شاعری کا معاملہ مگر بہت مختلف ہے
خشک سیروں تنِ شاعر میں لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت

جسے صرف ایک خاص طبقہ ہی سمجھ سکتا ہے۔ یوں تو جس طرح کا بھی کسی میں ہو کمال اچھا ہے لیکن چونکہ ہنر کا مقصد انسان کو دوسروں کی نظر میں ممتاز کرنا اور داد کا حصول ہے، تو اس کام کے لیے شاعری نہایت غیر موزوں چیز ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ کوئی ایسا ہنر نہیں جو قدرت خود انسان کو عطا کرتی ہو۔
 
متفق۔ یہی وجہ ہے کہ میں شاعری کو ایک انتہا درجے کی بے کار چیز سمجھنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ لوگوں کے پاس خوش نوائی اور مصوری جیسے ہنر موجود ہیں جن کی قدر پہچاننے کے لیے آشتیِ چشم و گوش کے سوا کچھ درکار نہیں۔ شاعری کا معاملہ مگر بہت مختلف ہے
خشک سیروں تنِ شاعر میں لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت

جسے صرف ایک خاص طبقہ ہی سمجھ سکتا ہے۔ یوں تو جس طرح کا بھی کسی میں ہو کمال اچھا ہے لیکن چونکہ ہنر کا مقصد انسان کو دوسروں کی نظر میں ممتاز کرنا اور داد کا حصول ہے، تو اس کام کے لیے شاعری نہایت غیر موزوں چیز ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ کوئی ایسا ہنر نہیں جو قدرت خود انسان کو عطا کرتی ہو۔
یقین مانیں، دوسرے فنون کا بھی یہی حال ہے۔ اسی لیے تو میں یقینا ایک بیکار سے بیکار مصور یا کمپوزر کے کام کو وین گوغ یا موٹسرٹ سے جدا نہیں بتا پاؤں گا۔

ان کا کام بھی تو خاص طبقہ کےلیے ہوا ؟ کم از کم میں تو اس طبقے میں شامل نہیں ہوں۔

شاعری سے مجھے بھی ویسے ایک نفرت سی ہو گئی ہے مگر اس کی وجہ اس میں ایک قسم کی پیش رفت ، جیسے سائنس میں ایک سائینسدان کے کام کو دوسرے آگے بڑھاتے ہیں، کا نہ ہونا ہے۔ اور غزل میں توکئی ماہ کی محنت بھی نہیں کرنی پڑتی جوشاید مثنوی یا مرثیہ میں درکار ہو۔
 

نمرہ

محفلین
متفق۔ یہی وجہ ہے کہ میں شاعری کو ایک انتہا درجے کی بے کار چیز سمجھنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔
بھئی اس وجہ سے تو میں پڑھانا نہیں چاہتی کہ بچے الگوردمز سیکھنے کے بجائے دنیا کیا ہے اور کیوں ہے اور بہرحال جو کچھ بھی ہے قطعی بیکار ہے کی گردان کرتے ہوئے نکلیں گے کلاس سے۔



لوگوں کے پاس خوش نوائی اور مصوری جیسے ہنر موجود ہیں جن کی قدر پہچاننے کے لیے آشتیِ چشم و گوش کے سوا کچھ درکار نہیں۔ شاعری کا معاملہ مگر بہت مختلف ہے
خشک سیروں تنِ شاعر میں لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت

جسے صرف ایک خاص طبقہ ہی سمجھ سکتا ہے۔
کم از کم موسیقی میں تو عوام اور خواص کی پسند میں اچھا خاصا فرق ہوتا ہے۔ شاعری کے ساتھ ایک اضافی معاملہ زبان کا ہے، اس لیے مجھے یہ تو احساس ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ بھی لکھتے ہیں اس کی اپیل یونیورسل نہیں، اور نہ ہی اس کا ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر غزلیں ہماری بہت ہی ریفائنیڈ اور niche چیز ہیں ۔ لیکن ادھر کا کلاسیکل میوزک بھی مغرب کے رہنے والوں کو کتنا پسند آ سکتا ہے۔


یوں تو جس طرح کا بھی کسی میں ہو کمال اچھا ہے لیکن چونکہ ہنر کا مقصد انسان کو دوسروں کی نظر میں ممتاز کرنا اور داد کا حصول ہے

یہ کس نے کہا؟ سوشل میڈیا کی بے اعتنائی کا غم مجھے ہے، یعنی محفل کے علاوہ، مگر مجھے نہیں لگتا کہ کسی دوسرے انسان کی داد کی خاطر کوئی بھی کام اعلی طریقے سے کیا جا سکتا ہے، نہ سائنس میں اور نہ فائن آرٹس میں۔ معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود والی بات ٹھیک لگتی ہے مجھے اور خون جگر ، فنکار اپنی تسلی کی خاطر صرف کر سکتا ہے مگر اس کے علاوہ نہیں۔
 

زیک

مسافر
اس خیال سے مجھے کچھ اختلاف ہے۔ میر کی سی نہ سہی، مگر قابل قبول شاعری تو ہر انسان کر سکتا ہے ، کم از کم ایک آدھ زبان میں۔ اگر مگر کی اصطلاح میں سوچنے کی صلاحیت بھی ہر کسی کے پاس ہے، اور محسوس کرنے کی بھی۔ میرے نزدیک تو یہ قدرتی ذوق سے بڑھ کر کچھ اس قسم کا معاملہ ہے کہ انسان ادھر ادھر سے شعر سنتا ہے اور پھر کہنا بھی شروع کر دیتا ہے۔
میری بیٹی کی نویں جماعت کی لٹریچر کلاس کو آپ سے اتفاق ہے کہ وہ سب آجکل دیئے گئے موضوع پر سونیٹ لکھ رہے ہیں
 

نمرہ

محفلین
میری بیٹی کی نویں جماعت کی لٹریچر کلاس کو آپ سے اتفاق ہے کہ وہ سب آجکل دیئے گئے موضوع پر سونیٹ لکھ رہے ہیں
بالکل اور ادھر کرئیٹیو رائٹنگ بطور مضمون بھی پڑھاتے ہیں اور پروگرام بھی ہوتے ہیں ان کے گریڈ سکول میں ۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ سائنس چھوڑ کر ایسی کسی جگہ پہنچ جاؤں۔ پاکستان میں ایک آدھ جگہ کے بارے میں سنا ہے کہ اس کی کلاسیں ہوتی ہیں۔
 
چونکہ ہنر کا مقصد انسان کو دوسروں کی نظر میں ممتاز کرنا اور داد کا حصول ہے،
اس سے اتفاق نہیں کروں گا۔ یہ کوئی طے شدہ اصول نہیں ہے۔ بہت لوگ ایسے گزرے ہیں اور ہیں بھی، جو اپنے ہنر کو داد و تحسین کے حصول کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ داد و تحسین کا حاصل ہو جانا یا نہ ہونا ان کے لیے معنی نہیں رکھتا۔ اس لیے اسے ہم ہنر کا مقصد نہیں کہہ سکتے۔
 
جہاں تک بہتری کا تعلق ہے تو ہر کام کی طرح شاعری میں بھی لائی جا سکتی ہے۔ اور ہر شاعر کا کلام نہ صرف تکنیکی اعتبار سے بہتری کی منازل طے کرتا ہے، بلکہ تخیل میں بھی وسعت آتی ہے، جس کے سبب وقت کے ساتھ ساتھ مضامین میں تنوع بھی آتا ہے۔

البتہ فطری طور پر موزوں طبع ہونا یا کوشش کر کے شاعر بننے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
دونوں طرف سے دلائل اپنی جگہ موجود ہیں۔
مگر ابھی تک جو بڑے یا استاد شعراء گزرے ہیں، ان میں سے کوئی مثال ایسی بمشکل ہی ملے گی کہ کسی نے قطعاً شاعر نہ ہوتے ہوئے باقاعدہ شاعری سیکھ کر شروع کی ہو۔ البتہ ایسے شعراء بھی کم ملیں گے کہ جنھوں نے کبھی کسی استاد کی رہنمائی حاصل نہ کی ہو۔
 
اس سے اتفاق نہیں کروں گا۔ یہ کوئی طے شدہ اصول نہیں ہے۔ بہت لوگ ایسے گزرے ہیں اور ہیں بھی، جو اپنے ہنر کو داد و تحسین کے حصول کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ داد و تحسین کا حاصل ہو جانا یا نہ ہونا ان کے لیے معنی نہیں رکھتا۔ اس لیے اسے ہم ہنر کا مقصد نہیں کہہ سکتے۔
بالکل درست۔

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

مگر انسان پھر انسان ہے۔ وہ absolutely indifferent ہو نہیں سکتا۔
 
Top