ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
اس خیال سے مجھے کچھ اختلاف ہے۔ میر کی سی نہ سہی، مگر قابل قبول شاعری تو ہر انسان کر سکتا ہے ، کم از کم ایک آدھ زبان میں۔ اگر مگر کی اصطلاح میں سوچنے کی صلاحیت بھی ہر کسی کے پاس ہے، اور محسوس کرنے کی بھی۔ میرے نزدیک تو یہ قدرتی ذوق سے بڑھ کر کچھ اس قسم کا معاملہ ہے کہ انسان ادھر ادھر سے شعر سنتا ہے اور پھر کہنا بھی شروع کر دیتا ہے۔
میرے مراسلےکو ان دو سوالات کا جواب سمجھ کر پڑھئے کہ جن کا اقتباس میں نے اپنے مراسلے کے شروع میں لیاتھا ۔ جیسا کہ عرض کیا کہ تخیل اور وہ بھی شاعرانہ تخیل کوئی اکتسابی چیز نہیں ۔ یہ طبیعت میں ہوتی ہے۔ یعنی یہ فطری چیز ہے ۔ یہ جو آپ نے کہا کہ اول اول انسان شعر سنتا رہتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ کہنا بھی شروع کردیتا ہے ۔ آپ کا یہ سچا مشاہدہ میری ہی بات کی دلیل ہے ۔ آپ کی یہ بات صرف انہی لوگوں پر صادق آتی ہے کہ جن کی طبیعت میں ’’شعری ذوق اور موزونیِ طبع‘‘ موجو د ہو ۔ ورنہ ہزاروں ہی پڑھے لکھے لوگ ہیں کہ انہیں سادہ سا شعر بھی سناؤ تو سر پر سے گزر جاتا ہے ۔ سن کر کہتے ہیں ’’تو پھر کیا ہوا ‘‘ ۔ یعنی ہزاروں لوگ شعر کا لطف ہی نہیں لے سکتے ۔ یعنی شعر ی خیال تک نہیں پہنچ سکتے اور شعر میں موجود موسیقیت کو محسوس نہیں کرسکتے ۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ان میں شعری مذاق موجودنہیں ۔ اس کے برعکس یوں بھی ہے کہ ہزاروں بے پڑھے لکھے ایسے ہیں کہ انہیں الفاظ کا مطلب اگر چہ پوری طرح نہیں معلو م ہوتا لیکن ان کے سامنے شعر پڑھا جائے تو بہت لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ یعنی ان کی طبیعت میں وہ ذوق موجود ہےکہ جو ’’شعریت‘‘ سے لطف اندوز ہوسکتا ہے ۔ ’’تم مرے پاس ہوتے ہو گویا : جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ‘‘ ۔ یہ شعر سن کر اہلِ ذوق گھنٹوں سر دھنتے رہتے ہیں ۔ جب کہ شعری ذوق سے محروم ایک شخص اسے سن کر جھنجھلا بھی سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یہ کیا بات ہوئی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ یعنی شعری ذوق ایک خاص درجے کی قوتِ متخلیہ کا متقاضی ہوتا ہے ۔ مختصراً یہ کہ شعر سے لطف اندوز ی ، شعر فہمی اور شعر گوئی ایک ہی سلسلے کے بتدریج مراحل ہیں ۔
اگر فیض صاحب کی مشہور بات کو شرح کے ساتھ بیان کروں تو یوں سمجھئے کہ قطرے میں دجلہ دیکھنے کے لئے جو آنکھ ضروری ہے وہ ہر ایک کے پاس نہیں بلکہ کچھ ہی لوگوں کو ودیعت ہوتی ہے ۔ اسی نظر کو قوت متخلیہ کہتے ہیں ۔ یہ ہر شعر فہم کے پاس ہوتی ہے ۔ لیکن شاعر کا کام صرف قطرے میں دجلہ دیکھنا ہی نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو دکھانا بھی ہے (یعنی ابلاغ) ۔ قطرے میں دجلہ دکھانے کے اس عمل کا نام ہی محاکات یا لفظی تصویر کشی یا شعر گوئی ہے ۔ یہ عمل اکتسابی ہے ۔ اسے سیکھا جاسکتا ہے ۔ مطالعے، تجزیے اور مشق کی مدد سے اس میں ترقی ممکن ہے ۔ اسی بات کو نقاد یوں بیان کرتے ہیں کہ تخیل اپنی زبان اپنے ساتھ لیکر وارد ہوتا ہے۔ اس زبان کو بنانا سنوارنا ہی شاعر کا اصل کام ہے ۔ کسی بھی شاعر کے ابتدائی کلام کا موازنہ بعد کے کلام سے کیا جائے تو فرق صاف نظر آتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ موزونیِ طبع مختلف لوگوں میں مختلف درجے کی ہوتی ہے ۔ بعض لوگ بغیر کوشش کے مسلسل اشعار کہے جاتے ہیں ۔ اقبال کے متعلق مشہور ہے کہ ایک نشست میں درجنوں اشعار بغیر کسی دقت کے کہتے تھے اور سننے والے لکھتے جاتے تھے ۔ بعض لوگوں کو شعر موزوں کرنے کے لئے کچھ محنت لگتی ہے ۔ الفاظ سے کھیلنا پڑتا ہے ۔ اور بعض لوگوں کے لئے شعر کہنا گویا دردِ زہ سے گزرنے کا نام ہے ۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میر کی سی نہ سہی، مگر قابل قبول شاعری تو ہر انسان کر سکتا ہے ، کم از کم ایک آدھ زبان میں ۔ تو اس ایک بات میں کئی مختلف نکات ہیں ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ہر انسان شاعری نہیں کرسکتا ۔ شاعری صرف وہی شخص کرسکتا ہے کہ جس میں مذاقِ شعری موجود ہو ۔ پھر جو لوگ شاعری کرسکتے ہیں ان کی شاعری کی درجہ بندی بالکل ہی ایک الگ بحث ہے ۔ کسی شاعری کا درجہ متعین کرنے کےلئے نہ صرف شعری مضامین ، زبان و بیان ، فنی عیوب و محاسن بلکہ ان سے ہٹ کر اور بہت سارے عناصر کو دیکھا جاتا ہے ۔ اچھی شاعری کسی ایک عنصر پر مبنی نہیں ہوتی ۔ اس میں عموماً تمام عناصر کا اچھا امتزاج ہوتا ہے ۔عبدالعزیز خالد کی شاعری کو دیکھ لیجئے ۔ کیا شکوہِ لفظیات ہے ۔ مشکل اور دقیق تراکیب ایسی کہ ہر غزل پر لغت دیکھنا پڑتی ہے ۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی ایک شعر دل پر اثر کرجائے یا بے ساختہ واہ نکل جائے ۔ اس کے برعکس میر اور جون ایلیا کے سادہ الفاظ اکثر زیادہ موثر ہوتے ہیں ۔ اسی بات کو نقاد یوں کہتے ہیں کہ ہر منظوم کلام شعر کے درجے پر نہیں پہنچتا ۔ یہاں اسکولوں میں مڈل اسکو ل کے بچوں کو عام طور پر ہائیکو وغیرہ لکھنا سکھایا جاتا ہے ۔ ہوم ورک کا حصہ ہوتا ہے ۔ ہر بچہ لکھتا ہے ۔ لیکن ان میں سےچند گنے چنے بچے ہی آگے چل کر شاعر بنتے ہیں ۔ یعنی ہر منظوم کلام شعر نہیں ہوتا !!