asif_shahzad87
محفلین
السلام علیکم
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں تقریباً ہر چیز کی کوالٹی انتہائی ناقص ہوتی ہے اور عوام کو معیاری اشیاءکی فراہمی کیلئے کوئی نظام بھی موجود نہیں، تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ بدقسمتی سے ہر کوئی زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کیلئے تمام حدیں پار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور کھانے پینے کی اشیاء، میک اپ کے سامان سمیت کسی بھی چیز میں ملاوٹ کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پاکستان میں غیر معیاری اور ناقص اشیاءکی فروخت کے قصے تو اب زبان زد عام ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری ان حرکات کے باعث اب بین الاقوامی سطح پر بھی ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتیں ان کریموں کی فروخت کو مجرمانہ فعل قرار دے رہی ہیں اور یہ منافع کیلئے زہر بیچنے کے مترادف ہے اور یہ بالکل بھی ایسی سرگرمی نہیں ہے جس کی بناءپر لوگ یہ سمجھیں کہ وہ بالکل قانونی کاروبار کر رہے ہیں اور اس جیسی کریموں کو فروخت کر سکیں۔ لندن ٹریڈنگ سٹینڈرڈز نے یہ کریمیں فروخت کرنے والی 15 دکانیں پکڑی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو اوسط 11 ہزار پاﺅنڈجرمانہ کیا گیا ہے جو ایک ریکارڈ بھی ہے جبکہ پہلی مرتبہ چند دکانداروں کو قید کی سزا بھی دی گئی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں دکھائی گئی بہت ساری کریموں سمیت دیگر مصنوعات پاکستان میں کھلے عام بک رہی ہیں اور ان میں سے بہت ساری تو ”نمبر ایک“ پراڈکٹ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ انہیں یہ نمبر کس نے دیا ہے اور کس بنیاد پر دیا ہے۔ ان کریموں کو استعمال کرنے والی خواتین کو یہ بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ وہ ناصرف اپنے پیسے برباد کر رہی ہیں بلکہ اپنی زندگی کے ساتھ بھی کھیل رہی ہیں اور کینسر جیسی بیماریاں پیدا کرنے والے کیمیکل دن رات اپنے چہرے پر لگا رہی ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان وہ ملک ہے جہاں تقریباً ہر چیز کی کوالٹی انتہائی ناقص ہوتی ہے اور عوام کو معیاری اشیاءکی فراہمی کیلئے کوئی نظام بھی موجود نہیں، تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ بدقسمتی سے ہر کوئی زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کیلئے تمام حدیں پار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور کھانے پینے کی اشیاء، میک اپ کے سامان سمیت کسی بھی چیز میں ملاوٹ کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پاکستان میں غیر معیاری اور ناقص اشیاءکی فروخت کے قصے تو اب زبان زد عام ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری ان حرکات کے باعث اب بین الاقوامی سطح پر بھی ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
- غیر ملکی خبر رساں ادارے بی بی سی نے پاکستان میں تیار ہونے والی بیوٹی کریمز کے معیار پر روشنی ڈالی ہے جس کے باعث انہیں بنانے والوں کا مکروہ چہرہ تو بے نقاب ہوا ہی ہے لیکن اس کیساتھ پاکستان کا نام بھی بدنام ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ”ریکارڈ“ فروخت کے باعث ان کریموں کو بیرون ممالک فروخت کیلئے بھیجا گیا لیکن یہ افراد شائد اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ دیگر ممالک کے لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور چیزوں کے معیار کو پرکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی شامت بھی آئی ہے اور اسے فروخت کرنے والوں کو جرمانہ کرنے کیساتھ ساتھ ان کریمو ںسے متعلق ایک رپورٹ بھی شائع کر دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتیں ان کریموں کی فروخت کو مجرمانہ فعل قرار دے رہی ہیں اور یہ منافع کیلئے زہر بیچنے کے مترادف ہے اور یہ بالکل بھی ایسی سرگرمی نہیں ہے جس کی بناءپر لوگ یہ سمجھیں کہ وہ بالکل قانونی کاروبار کر رہے ہیں اور اس جیسی کریموں کو فروخت کر سکیں۔ لندن ٹریڈنگ سٹینڈرڈز نے یہ کریمیں فروخت کرنے والی 15 دکانیں پکڑی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو اوسط 11 ہزار پاﺅنڈجرمانہ کیا گیا ہے جو ایک ریکارڈ بھی ہے جبکہ پہلی مرتبہ چند دکانداروں کو قید کی سزا بھی دی گئی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں دکھائی گئی بہت ساری کریموں سمیت دیگر مصنوعات پاکستان میں کھلے عام بک رہی ہیں اور ان میں سے بہت ساری تو ”نمبر ایک“ پراڈکٹ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ انہیں یہ نمبر کس نے دیا ہے اور کس بنیاد پر دیا ہے۔ ان کریموں کو استعمال کرنے والی خواتین کو یہ بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ وہ ناصرف اپنے پیسے برباد کر رہی ہیں بلکہ اپنی زندگی کے ساتھ بھی کھیل رہی ہیں اور کینسر جیسی بیماریاں پیدا کرنے والے کیمیکل دن رات اپنے چہرے پر لگا رہی ہیں۔