سید رافع
محفلین
عبد المعین صاحب کی ایک تحریر "سود اور آج کی دنیا" نظر سے گزری اس پر ایک تبصرہ کیا ہے۔ امید ہے اس پر مذید مفید بات چیت ہو سکے گی۔
سود اور آج کی دنیا
قدیم ادوار میں سونے اور چاندی کے سکے ہوتے تھے ۔ جو دنیا میں محدود مقدار میں تھے ، اس لئے زر کی قدر میں استحکام تھا اور اس وجہ سے دنیا ہمیشہ تفریق زر کا شکار رہی تھی ۔ اس وقت جب کہ سود معاشرے میں عدم توازن پیدا کررہا تھا تو اسلام نے ایک طرف زکواۃ کو فرض کر کے اور دوسرے طرف رضاکارانہ طور پر دولت پھیلانے کی تلقین کرکے سود پر ضرب لگائی ۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں دولت پھیل جاتی تھی بلکہ لوگوں کے پاس پیسہ آجانے سے تجارت و کاروبار میں ترقی ہوجاتی اور لوگوں کو روزگار مل جاتا تھا ، جواب بھی نہایت راست ا قدام ہے ۔
مگر بڑھتی ہوئی آبادی اور تیز رفتار ترقی کی وجہ سے دنیا تفریق زر اور کسادبازاری کا شکار ہونے لگی ۔ کیوں کہ دنیا میں سونا محدود مقدار میں تھا ، جس کی مقدار مزید بڑھ نہیں سکتی تھی اور اس کے متبادل کے طور پر کاغذی زر تخلیق کیا گیا ۔ جو ابتدا میں سونے کے بدلے جاری کیا گیا تھا اس لیے اس کی قدر مستحکم تھی ۔ مگر جلد ہی اس کا تعلق سونے سے ٹورنا پڑا اب اس کی قدر وقت کے ساتھ گرتی رہتی ہے ۔
دنیا میں جہاں مختلف میدانوں میں ترقی ہوئی ہے اور مختلف ارتقائی مراحل گزر ی ہے ، وہاں آج کی معاشی دنیا بھی بدل چکی ہے ۔ آج کی معاشی دنیا پہلے کی طرح سادہ نہیں رہی ہے ۔ زماں اور مکاں اور عرف و عادۃ کی تبدیلوں کے ساتھ اس نے مختلف ارتقائی مرحلے طے کئے ہیں اور اب یہ عہد گزشتہ کی نسبت بہت زیادہ پیچیدہ اور تیز رفتار ہو گئی ہے ۔ اس لئے آج معاشی دنیا کل کی نسبت بہت کچھ بدل چکی ہے ۔ پہلے سود معاشرے میں عدم توازن پیدا کرتا تھا ۔ جب کہ آج کی جدید معشیت میں تیز رفتار ترقی اور وقت کے ساتھ گرتی قدر کی وجہ سے قرض لینے والا فائدے میں رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے لوگ عام طور پر بینکوں اور مالیاتی اداروں سے کاروبار اور دوسری ضرورتوں کے لیے قرض لینے سے گریز نہیں کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے سودکے خلاف تمام ظنی دلائل بے کارہوگئے ہیں ۔ اب ہمارے پاس اس کے خلاف ایک ہی طاقت ور دلیل رہ گئی ہے کہ اس کی حرمت قران و سنت سے نص ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت )خودہمارے ملک میں( جو بظاہر مذہب پرست ہیں ، مگر سود سے گریز نہیں کرتے ہیں اور زیادہ نفع کے لالچ میں ان سودی اسکیموں سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں جن میں خطرات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ خود پاکستان میں 90 کے اوائل میں انویسٹ منٹ کمپنیوں میں زیادہ شرح سود کے لالچ میں لوگوں نے اپنی بچتوں کے علاوہ اپنے زیورات اور جائیدادیں بیچ کر ان کمپنیوں میں لگا دیئے ۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا اتنا زیادہ نفع ناممکنات میں سے ہے ۔ اس کے باوجود لالچ نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ۔ اس طرح یہ انویسٹمینٹ کمپنیاں عوام کے اربوں روپیہ لوٹ کر فرار ہوگئیں ۔ ان انویسٹ مینٹ کمپنیوں میں پیسہ لگانے والے لوگ ہر طبقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان میں غریب بھی تھے امیربھی اور آزاد خیال لوگوں کے علاوہ صوم و صلواۃ کے پابند بھی ۔ جنہیں پتہ تھا سود حرام ہے ، اس کے باوجود انہوں نے پیسہ لگایا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے محدود پیسے سے کوئی کاروبار نہیں کرسکتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی جمع شدہ پونچی اس طرح محفوظ کرلیں گے اور اس کے نفع )سود( سے گزارا یا عیش کریں گے ۔
آج کا معاشی نظام عہدوسطیٰ کے مقابلے میں بہت مختلف ہے ۔ پہلے صرف سونے کو زر کی حیثیت حاصل تھی ، مگر اب اس کی جگہ کاغذی زر نے لے لی ہے ، جس کی قدر وقت کے ساتھ گرتی رہتی ہے اور قیمتوں میں اضافے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے لوگ اپنا پیسہ جائیداد یا اس طرح کی خریداری میں لگاتے ہیں اور کاروبار کے لیے قرض کو ترجیح دیتے ہیں اور واپسی کے وقت اصل کے مقابلے میں زائد رقم خوشی خوشی ادا کرتے ہیں ، کیوں کہ قرض لیتے وقت جو زر کی قدر تھی وہ ادائیگی کے وقت گھٹ چکی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے سود کے خلاف جتنے دلائل دیئے جاتے تھے وہ جدید معاشی نظام پر صادق نہیں آتے ہیں ۔ کیوں کہ زر کی وقت کے ساتھ گرتی قدر نے سود کے خلاف تمام دلائل بیکار کردیئے ہیں اور سود پوری طرح معاشی معاشرے میں رائج ہوچکا ہے ۔ آج ہم سود کے بغیرمعیشت کا سوچ ہی نہیں سکتے ہیں ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر جناب زاہد حسین نے کہا تھا کہ غیر سودی معیشت کی تلاش کا مطلب موجودہ زمانے کی اقتصادی زندگی کی تعمیری بنیادں پر اعتراض کے مترادف ہے ۔
پاکستان میں ابتدا سے ہی سودی نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور ہمارے فقہاء اور علماء یہ کہتے آئے ہیں کہ اسلام تمام معاشی مسائل کا حل پیش کرتا ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک کوئی مکمل اور قابل عمل متبادل نظام پیش نہیں کیا جاسکا ۔ اگرچہ وقفأ وقفأکچھ معاملات میں بعض تجویزیں پیش کی گئیں ، جو جزوئی معاملات میں کارآمد ہیں ، لیکن مکمل معاشی نظام کا احاطہ نہیں کرتی ہیں ۔
سودکے سلسلے میں تحقیقات کی ابتدائی کوششیں 1930 ء اور 40ء کے عشروں میں کی گئی تھیں ۔ اس سلسلے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ؒ مرحوم ، ڈاکٹر انور اقبال قریشی مرحوم اور الاستاد باقر الصدر شہید نے کام کیا تھا ۔ اب اس سلسلے کو پرفیسر خورشید احمد ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، ڈاکٹر محمد عذیر ، ڈاکٹر محمود ابوسود اور دوسرے بہت سے لوگوں نے جاری رکھا ہوا ہے
سودکے سلسلے میں کام کرنے یہ بالاالذکر افراد معمولی نہیں تھے ، بلکہ نابالغہ روزگار افراد تھے ۔ جن پر نہ صرف پاکستان کو فخر ہے بلکہ عالم اسلام میں بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے ۔ مگر ان لوگوں نے موجودہ زماں اور مکاں کے معاشی حقائق کا مطالعہ کرنے اور سودی نظام کے متبادل پیش کرنے کے بجائے سود کے خلاف ظنی و نفلی دلائل اخذ کرنے میں اپنی توانائیاں خرچ کیں اور انہوں نے سود کی حرمت اور اس کے بغیر معاشی نظام کو چلانے پر زور دیا ۔
اب تک سودکے جو متبادل پیش کئے گئے ہیں وہ بیشتر جزوی ہیں یا بینکاری کے امور کے متعلق ہیں ان تجویزوں کے مطابق عام لوگوں کی بچتوں پر بنک کوئی نفع نہ دے اور اس پر جو نفع حاصل ہو وہ حکومت حاصل کرے ۔ البتہ بڑی رقمیں جو لمبی مدت کے لئے ہوں ان پر مشارکہ اور مضاربہ کی بنیاد پرنفع دیا جائے ۔ اس طرح بینک قرض دینے کے بجائے مشارکہ اور مضاربہ کی بنیاد پر کام کرے ۔ وہ اس سلسلے میں اسلامی ترقیاتی بینک اور ایرانی بینکوں اور اس طرح کے وہ کچھ اور اداروں کی مثالیں دیتے ہیں جو مضاربہ یا شراکت کی بنیادپر اپنا کاروبار کررہے ہیں ۔
اس حقیقت کے برعکس کہ سودی نظام صرف بینکاری کے امور تک محدود نہیں ہے ۔ انہوں نے صرف بینکاری کے امور پر توجہ دی اور دوسرے معاشی امور مثلأ زر کی تخلیق، کاغذی زر ، ادائیگیوں کا توازن ، قرضہ جات ، معاشی حکمت عملیوں کے مطابق زر کو بازار میں پھیلانے اور کھینچنے اور روزگار وغیرہ کو نظرانداز کردیا ہے ۔
موجودہ معاشی نظام کے بعض پہلو ایسے ہیں جن پر ہمارے علماء اور فقہا، غور و فکر نہیں کیا ہے ۔ مثلأ کرنسی نوٹ جاری کرنے کا موجودہ طریقہ کار ، بازار میں زر کو پھیلانے اور کھنچنے کا موجودہ طریقہ کار وغیرہ ۔ ظاہر ہے یہ تمام معاشی اور مالی معاملات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہ تمام معاملات عام آدمی پر اثر اندازہوتے ہیں اور ان کا ملک کی معاشی حالت پر گہرا اثر ہوتا ہے ۔ اب تک سود کے جو بھی متبادل پیش کئے گئے ان دو بڑی خرابیاں ہیں ۔ اول وہ جزوی Micro ہیں اور وہ کلی Mecro نہیں ہیں ۔ لہذا وہ ملکی معیشت اور مالیات کے تمام معاملات پر اثر انداز نہیں ہوتے ہیں ۔ دوئم وہ موجودہ معاشی اور مالی حکمت عملیوں اور معاشی حقائق کو مد نظر رکھ کر ترتیب نہیں دیئے گئے ہیں ، اس لیے انہیں اپنانے کی کوئی بھی حکومت جرات نہیں کرسکتی ہے ۔
ان کے پیش کردہ متبادل کا ہم جائزہ لیں تو یہاں یہاں سوال اٹھتا ہے کہ جب کہ معیشت کا پورا نظام اس طرح مربوط ہے کہ زر کی تخلیق ، کاغذی زر ، ادائیگیوں کا توازن ، قرضہ جات ، بچت اور سرمایا کاری اس نظام سے وابسۃ ہیں۔ ہم سرمایاکاری تو شراکت یا مضاربہ میں کرسکتے ہیں ، لیکن سرمایا کی فراہمی بچت سے ہوتی ہے ۔ جب زر کی قدر وقت کے ساتھ مسلسل گر رہی ہو تو ہم بچت کے لئے کس طرح ترغیب دیں گے ؟ اور ادائیگیوں کا توازن اور زر کی تخلیق کس طرح کریں گے ؟
حقیقت میں سودکے مکمل متبادل نظام کے متعلق ابھی تک کوئی قابل ذکر کام ہی نہیں ہوا ہے اور جو کچھ کام ہوا وہ سود کے خلاف ظنی دلائل ہی ہیں ، ان کی اب کوئی وقعت نہیں رہی ہے یا چند ایسے متبادل پیش کئے گئے جو قابل عمل نہیں ہیں ۔ اس لئے کوئی بھی حکومت انہیں عملی جامع پہنانے کی ہمت نہیں کرسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے سود کے مالی نظام سے خاتمہ کی ہر حکومت نے مزاحمت کی ۔ جناب ایس ایم ظفر صاحب نے وفاقی شرعی عدالت میں سو د کا دفاع کرتے ہوئے کہا ۔
’’چونکہ دنیا بھر میں اقتصادی نظام سود پر چل رہا ہے ، اس لئے اس سے انحراف معاشی بحران کے مترادف ہوگا ‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ سود کے مسئلہ پر غور ملتوی کیا جائے ، کیوں کہ اس کا مجموعی نظام معیشت سے بڑا تعلق ہے ۔ پاکستان کا پورا مالیاتی نظام اس طرح مربوط ہے ، دیگر مسائل مثلأ افراط زر ، کاغذی زر ، کرنسی ، بینکاری کا تصور رضاکارانہ طور پر قرضے دینا کو اس سے و ابسطہ کئے بغیر محض اس نظام کے متعلق فیصلہ کرنا بہت سی مشکلات اور بحران کا سبب بن سکتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں قوم کو فائدہ کے بجائے نقصان ہو گا ۔
لہذا سود کا متبادل نظام لانے سے پہلے ضروری ہے کہ جدید معاشی نظام کے تمام معاملات کا تفصیلی جائزہ لیں اور اس کی ضرورتوں اور تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا متبادل نظام ترتیب دیں جو جدیدمعاشی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق قران و سنت کی روشنی میں فقاء اور علماء کی رائے کے مطابق ہو ۔ تاکہ مسلمان بھی جدید معاشی و اقتصادی نظام کے ثمرات سے بلا کراہیت بہرہ ور ہوسکیں اور انھیں اپنی ترقی کی بلندیوں پر پہچنے میں کسی قسم کی دقت یا پریشانی نہ ہو ۔
تحریر و ترتیب
ٰ(عبدالمعین انصاری)
سود اور آج کی دنیا
قدیم ادوار میں سونے اور چاندی کے سکے ہوتے تھے ۔ جو دنیا میں محدود مقدار میں تھے ، اس لئے زر کی قدر میں استحکام تھا اور اس وجہ سے دنیا ہمیشہ تفریق زر کا شکار رہی تھی ۔ اس وقت جب کہ سود معاشرے میں عدم توازن پیدا کررہا تھا تو اسلام نے ایک طرف زکواۃ کو فرض کر کے اور دوسرے طرف رضاکارانہ طور پر دولت پھیلانے کی تلقین کرکے سود پر ضرب لگائی ۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں دولت پھیل جاتی تھی بلکہ لوگوں کے پاس پیسہ آجانے سے تجارت و کاروبار میں ترقی ہوجاتی اور لوگوں کو روزگار مل جاتا تھا ، جواب بھی نہایت راست ا قدام ہے ۔
مگر بڑھتی ہوئی آبادی اور تیز رفتار ترقی کی وجہ سے دنیا تفریق زر اور کسادبازاری کا شکار ہونے لگی ۔ کیوں کہ دنیا میں سونا محدود مقدار میں تھا ، جس کی مقدار مزید بڑھ نہیں سکتی تھی اور اس کے متبادل کے طور پر کاغذی زر تخلیق کیا گیا ۔ جو ابتدا میں سونے کے بدلے جاری کیا گیا تھا اس لیے اس کی قدر مستحکم تھی ۔ مگر جلد ہی اس کا تعلق سونے سے ٹورنا پڑا اب اس کی قدر وقت کے ساتھ گرتی رہتی ہے ۔
دنیا میں جہاں مختلف میدانوں میں ترقی ہوئی ہے اور مختلف ارتقائی مراحل گزر ی ہے ، وہاں آج کی معاشی دنیا بھی بدل چکی ہے ۔ آج کی معاشی دنیا پہلے کی طرح سادہ نہیں رہی ہے ۔ زماں اور مکاں اور عرف و عادۃ کی تبدیلوں کے ساتھ اس نے مختلف ارتقائی مرحلے طے کئے ہیں اور اب یہ عہد گزشتہ کی نسبت بہت زیادہ پیچیدہ اور تیز رفتار ہو گئی ہے ۔ اس لئے آج معاشی دنیا کل کی نسبت بہت کچھ بدل چکی ہے ۔ پہلے سود معاشرے میں عدم توازن پیدا کرتا تھا ۔ جب کہ آج کی جدید معشیت میں تیز رفتار ترقی اور وقت کے ساتھ گرتی قدر کی وجہ سے قرض لینے والا فائدے میں رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے لوگ عام طور پر بینکوں اور مالیاتی اداروں سے کاروبار اور دوسری ضرورتوں کے لیے قرض لینے سے گریز نہیں کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے سودکے خلاف تمام ظنی دلائل بے کارہوگئے ہیں ۔ اب ہمارے پاس اس کے خلاف ایک ہی طاقت ور دلیل رہ گئی ہے کہ اس کی حرمت قران و سنت سے نص ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت )خودہمارے ملک میں( جو بظاہر مذہب پرست ہیں ، مگر سود سے گریز نہیں کرتے ہیں اور زیادہ نفع کے لالچ میں ان سودی اسکیموں سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں جن میں خطرات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ خود پاکستان میں 90 کے اوائل میں انویسٹ منٹ کمپنیوں میں زیادہ شرح سود کے لالچ میں لوگوں نے اپنی بچتوں کے علاوہ اپنے زیورات اور جائیدادیں بیچ کر ان کمپنیوں میں لگا دیئے ۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا اتنا زیادہ نفع ناممکنات میں سے ہے ۔ اس کے باوجود لالچ نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ۔ اس طرح یہ انویسٹمینٹ کمپنیاں عوام کے اربوں روپیہ لوٹ کر فرار ہوگئیں ۔ ان انویسٹ مینٹ کمپنیوں میں پیسہ لگانے والے لوگ ہر طبقے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان میں غریب بھی تھے امیربھی اور آزاد خیال لوگوں کے علاوہ صوم و صلواۃ کے پابند بھی ۔ جنہیں پتہ تھا سود حرام ہے ، اس کے باوجود انہوں نے پیسہ لگایا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے محدود پیسے سے کوئی کاروبار نہیں کرسکتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ وہ اپنی جمع شدہ پونچی اس طرح محفوظ کرلیں گے اور اس کے نفع )سود( سے گزارا یا عیش کریں گے ۔
آج کا معاشی نظام عہدوسطیٰ کے مقابلے میں بہت مختلف ہے ۔ پہلے صرف سونے کو زر کی حیثیت حاصل تھی ، مگر اب اس کی جگہ کاغذی زر نے لے لی ہے ، جس کی قدر وقت کے ساتھ گرتی رہتی ہے اور قیمتوں میں اضافے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے لوگ اپنا پیسہ جائیداد یا اس طرح کی خریداری میں لگاتے ہیں اور کاروبار کے لیے قرض کو ترجیح دیتے ہیں اور واپسی کے وقت اصل کے مقابلے میں زائد رقم خوشی خوشی ادا کرتے ہیں ، کیوں کہ قرض لیتے وقت جو زر کی قدر تھی وہ ادائیگی کے وقت گھٹ چکی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے سود کے خلاف جتنے دلائل دیئے جاتے تھے وہ جدید معاشی نظام پر صادق نہیں آتے ہیں ۔ کیوں کہ زر کی وقت کے ساتھ گرتی قدر نے سود کے خلاف تمام دلائل بیکار کردیئے ہیں اور سود پوری طرح معاشی معاشرے میں رائج ہوچکا ہے ۔ آج ہم سود کے بغیرمعیشت کا سوچ ہی نہیں سکتے ہیں ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر جناب زاہد حسین نے کہا تھا کہ غیر سودی معیشت کی تلاش کا مطلب موجودہ زمانے کی اقتصادی زندگی کی تعمیری بنیادں پر اعتراض کے مترادف ہے ۔
پاکستان میں ابتدا سے ہی سودی نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور ہمارے فقہاء اور علماء یہ کہتے آئے ہیں کہ اسلام تمام معاشی مسائل کا حل پیش کرتا ہے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک کوئی مکمل اور قابل عمل متبادل نظام پیش نہیں کیا جاسکا ۔ اگرچہ وقفأ وقفأکچھ معاملات میں بعض تجویزیں پیش کی گئیں ، جو جزوئی معاملات میں کارآمد ہیں ، لیکن مکمل معاشی نظام کا احاطہ نہیں کرتی ہیں ۔
سودکے سلسلے میں تحقیقات کی ابتدائی کوششیں 1930 ء اور 40ء کے عشروں میں کی گئی تھیں ۔ اس سلسلے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ؒ مرحوم ، ڈاکٹر انور اقبال قریشی مرحوم اور الاستاد باقر الصدر شہید نے کام کیا تھا ۔ اب اس سلسلے کو پرفیسر خورشید احمد ، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ، ڈاکٹر محمد عذیر ، ڈاکٹر محمود ابوسود اور دوسرے بہت سے لوگوں نے جاری رکھا ہوا ہے
سودکے سلسلے میں کام کرنے یہ بالاالذکر افراد معمولی نہیں تھے ، بلکہ نابالغہ روزگار افراد تھے ۔ جن پر نہ صرف پاکستان کو فخر ہے بلکہ عالم اسلام میں بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے ۔ مگر ان لوگوں نے موجودہ زماں اور مکاں کے معاشی حقائق کا مطالعہ کرنے اور سودی نظام کے متبادل پیش کرنے کے بجائے سود کے خلاف ظنی و نفلی دلائل اخذ کرنے میں اپنی توانائیاں خرچ کیں اور انہوں نے سود کی حرمت اور اس کے بغیر معاشی نظام کو چلانے پر زور دیا ۔
اب تک سودکے جو متبادل پیش کئے گئے ہیں وہ بیشتر جزوی ہیں یا بینکاری کے امور کے متعلق ہیں ان تجویزوں کے مطابق عام لوگوں کی بچتوں پر بنک کوئی نفع نہ دے اور اس پر جو نفع حاصل ہو وہ حکومت حاصل کرے ۔ البتہ بڑی رقمیں جو لمبی مدت کے لئے ہوں ان پر مشارکہ اور مضاربہ کی بنیاد پرنفع دیا جائے ۔ اس طرح بینک قرض دینے کے بجائے مشارکہ اور مضاربہ کی بنیاد پر کام کرے ۔ وہ اس سلسلے میں اسلامی ترقیاتی بینک اور ایرانی بینکوں اور اس طرح کے وہ کچھ اور اداروں کی مثالیں دیتے ہیں جو مضاربہ یا شراکت کی بنیادپر اپنا کاروبار کررہے ہیں ۔
اس حقیقت کے برعکس کہ سودی نظام صرف بینکاری کے امور تک محدود نہیں ہے ۔ انہوں نے صرف بینکاری کے امور پر توجہ دی اور دوسرے معاشی امور مثلأ زر کی تخلیق، کاغذی زر ، ادائیگیوں کا توازن ، قرضہ جات ، معاشی حکمت عملیوں کے مطابق زر کو بازار میں پھیلانے اور کھینچنے اور روزگار وغیرہ کو نظرانداز کردیا ہے ۔
موجودہ معاشی نظام کے بعض پہلو ایسے ہیں جن پر ہمارے علماء اور فقہا، غور و فکر نہیں کیا ہے ۔ مثلأ کرنسی نوٹ جاری کرنے کا موجودہ طریقہ کار ، بازار میں زر کو پھیلانے اور کھنچنے کا موجودہ طریقہ کار وغیرہ ۔ ظاہر ہے یہ تمام معاشی اور مالی معاملات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہ تمام معاملات عام آدمی پر اثر اندازہوتے ہیں اور ان کا ملک کی معاشی حالت پر گہرا اثر ہوتا ہے ۔ اب تک سود کے جو بھی متبادل پیش کئے گئے ان دو بڑی خرابیاں ہیں ۔ اول وہ جزوی Micro ہیں اور وہ کلی Mecro نہیں ہیں ۔ لہذا وہ ملکی معیشت اور مالیات کے تمام معاملات پر اثر انداز نہیں ہوتے ہیں ۔ دوئم وہ موجودہ معاشی اور مالی حکمت عملیوں اور معاشی حقائق کو مد نظر رکھ کر ترتیب نہیں دیئے گئے ہیں ، اس لیے انہیں اپنانے کی کوئی بھی حکومت جرات نہیں کرسکتی ہے ۔
ان کے پیش کردہ متبادل کا ہم جائزہ لیں تو یہاں یہاں سوال اٹھتا ہے کہ جب کہ معیشت کا پورا نظام اس طرح مربوط ہے کہ زر کی تخلیق ، کاغذی زر ، ادائیگیوں کا توازن ، قرضہ جات ، بچت اور سرمایا کاری اس نظام سے وابسۃ ہیں۔ ہم سرمایاکاری تو شراکت یا مضاربہ میں کرسکتے ہیں ، لیکن سرمایا کی فراہمی بچت سے ہوتی ہے ۔ جب زر کی قدر وقت کے ساتھ مسلسل گر رہی ہو تو ہم بچت کے لئے کس طرح ترغیب دیں گے ؟ اور ادائیگیوں کا توازن اور زر کی تخلیق کس طرح کریں گے ؟
حقیقت میں سودکے مکمل متبادل نظام کے متعلق ابھی تک کوئی قابل ذکر کام ہی نہیں ہوا ہے اور جو کچھ کام ہوا وہ سود کے خلاف ظنی دلائل ہی ہیں ، ان کی اب کوئی وقعت نہیں رہی ہے یا چند ایسے متبادل پیش کئے گئے جو قابل عمل نہیں ہیں ۔ اس لئے کوئی بھی حکومت انہیں عملی جامع پہنانے کی ہمت نہیں کرسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے سود کے مالی نظام سے خاتمہ کی ہر حکومت نے مزاحمت کی ۔ جناب ایس ایم ظفر صاحب نے وفاقی شرعی عدالت میں سو د کا دفاع کرتے ہوئے کہا ۔
’’چونکہ دنیا بھر میں اقتصادی نظام سود پر چل رہا ہے ، اس لئے اس سے انحراف معاشی بحران کے مترادف ہوگا ‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ سود کے مسئلہ پر غور ملتوی کیا جائے ، کیوں کہ اس کا مجموعی نظام معیشت سے بڑا تعلق ہے ۔ پاکستان کا پورا مالیاتی نظام اس طرح مربوط ہے ، دیگر مسائل مثلأ افراط زر ، کاغذی زر ، کرنسی ، بینکاری کا تصور رضاکارانہ طور پر قرضے دینا کو اس سے و ابسطہ کئے بغیر محض اس نظام کے متعلق فیصلہ کرنا بہت سی مشکلات اور بحران کا سبب بن سکتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں قوم کو فائدہ کے بجائے نقصان ہو گا ۔
لہذا سود کا متبادل نظام لانے سے پہلے ضروری ہے کہ جدید معاشی نظام کے تمام معاملات کا تفصیلی جائزہ لیں اور اس کی ضرورتوں اور تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا متبادل نظام ترتیب دیں جو جدیدمعاشی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق قران و سنت کی روشنی میں فقاء اور علماء کی رائے کے مطابق ہو ۔ تاکہ مسلمان بھی جدید معاشی و اقتصادی نظام کے ثمرات سے بلا کراہیت بہرہ ور ہوسکیں اور انھیں اپنی ترقی کی بلندیوں پر پہچنے میں کسی قسم کی دقت یا پریشانی نہ ہو ۔
تحریر و ترتیب
ٰ(عبدالمعین انصاری)