کیا اتنا کافی ہے؟

جیہ

لائبریرین
کیا اتنا کافی ہے؟
روزنامہ "جناح" میں شایع شدہ ایک مضمون

مضمون نگار: مشکور علی​


فنِ تحریر 4 زار سال قبل مسیح میں وجود میں آیا جب کہ دنیا کا پہلا افسانہ مصر کے شاہ خامزی نے 4800 ق م میں لکھا۔ ہندوستان میں بھی کہانی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ وید، اپنشد، پران اور مہا بھارت وغیرہ میں متعدد کہانیاں موجود ہیں۔ ویدک ادب اڑھائ ہزار سال ق م میں شروع ہوا۔ میر امن کی " باغ و بہار" اردو نثر ی ان چند کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جاتیں رہیں گی۔ باغ و بہار انیسویں صدی کی سب سے پہلی نثری تصنیف ہے جو اردو میں لکھی گئ۔

سجاد حیدر یلدرم اردو کے صاحبِ اسلوب اور رجحان ساز ادیب تھے۔ وہ نہ صرف اردو نثر میں انشائے لطیف کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ جدید تحقیق کے مطابق وہ اردو کے پہلے افسانہ نگار بھی ہیں۔ یلدرم نے اردو میں داستان اور ناول سے الگ اور بلند ایک نئ اور مختلف صنفِ ادب کی بنیاد رکھی جس کا شمار آج مختصر افسانے کے نام سے ہماری زبان کے سب سے زیادہ مقبول، زندگی کے سب سے زیادہ قریب اور فن کے اعتبار سے سب زیادہ "پر خطر" صنف ادب میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ 1910 میں خیالستان کے نام سے شایع ہوا تھا۔

افسانے کے محدود کینوس میں طوالت کی کچھ زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ بے جا تفصیل سے تصویر میں حرکت نہیں آتی اور افسانویت باقی نہیں رہتی۔ انگریزی زبان میں افسانے کو "شارٹ سٹوری" یعنی مختصر کہانی کہا جاتا ہے لیکن اس کے با وجود اس کی لمبائ کی کوئ خاص حد مقرر نہیں ہے۔ بعض کہانیاں تو درجنوں صفحات پر محیط ہوتی ہے، تاہم انہیں بھی شارٹ سٹوری کہا جاتا ہے، لانگ سٹوری یا ناول نہیں، لیکن مختصر کہانی کتنی مختصر ہو سکتی ہے؟ 500 الفاظ پر ، 100 الفاظ پر یا 50 الفاظ پر مشتمل ۔۔۔ یہ طے نہیں ہے۔ 1987 میں نیو یارک ٹائمز نے ایک مقابلے کا اعلان کیا جو بعد میں "55 فکشن" کے نام سے مشہور ہوا، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس مقابلے میں دنیا بھر سے مصنفین کو 55 الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ منتخب کہانیوں کو اخبار میں شایع کیا جاتا ہے۔ 2006 میں اخبار کو سات سو کہانیاں موصول ہوئیں جس میں سے 16 معیار پر پوری اتر سکیں۔ ان مختصر کہانیوں کا انتخاب " دنیا کی مختصر ترین کہانیاں" کے نام سے شایع بھی ہو چکا ہے۔

لیکن ایسے ادیب بھی ہیں جنہیں پچپن الفاظ بھی بہت زیادہ لگتے ہیں۔ کم از کم ایک مصنف نے مختصر کہانی کی آخری حد پار کر ڈالی ہے اور اس سے سبقت لے جانا ممکن ہے کیوں کہ اس کہانی میں الفاظ کی تعداد صفر ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کہانی میں ایک لفظ بھی نہ ہو؟

عنوان: " تیسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کی تاریخ"

کہانی: دو سادہ صفحے

سوچیئے تو کیا نہیں ہے اس کہانی میں طنز، سبق آموزی اور تاثیر کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ ظاہر ہے اختصار میں دنیا کا کوئ ادیب اس کہانی سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔ تاہم اس سے قدرے قدرے لمبی کہانیوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ حتیٰ کہ اس صنف میں ڈراؤ نبی کہانیاں بھی لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہانی دیکھیے:

" دنیا کا آخری آدمی کمرے میں بیٹھا تھا، کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئ۔ "

مختصر ترین کہانیوں کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ کی مشہور میگزین " وائرڈ" نے نومبر 2006 کے شمارے میں ایک دلچسپ تجربہ کیا ۔ میگزین کے مدیر نے امریکہ کے چوٹی کے ادیبوں کو صرف 6 الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی۔ میگزین کے پاس بہ طور مثال نوبل انعام یافتہ ادیب "ارنسٹ ہیمنگوئے" کی مختصر کہانی موجود تھی:

"بچگانہ جوتے برائے فروخت، کبھی استعمال نہیں ہوئے"

انگریزی میں یہ کہانی صرف 6 الفاظ پر مشتمل ہے جس میں ادیب نے پوری داستان سمودی ہے۔ جوتے کون بیچ رہا ہے ؟ کسی بچے کے والدین، شاید بچہ پیدا ہوتے ہی مرگیا تھا، مرا ہوا ہی پیدا ہوا تھا۔ والدین نے بڑے ارمانوں اور چاؤ سے اس کے لیے جوتے خریدے ہوں گے لیکن اب وہ اپنی مالی حالات کے ہاتھوں اتنے مجبور ہوگئے کہ مرے ہوئے بجے کے جوتے بیچنے کی نوبت گئ۔ غربت کا عفریت، معاشی نا ہمواری، وسائل کی نا مناسب تقسیم، قدرت کے سامنے انسان کی بے بسی اور ذاتی المیے کیے با وجود زندگی کی گاڑی کا چلتے رہنا سب کچھ اس کہانی میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے ہیمنگوئے نے اس کہانی کو اپنی کیریر کی اعلٰی ترین کہانی قرار دیا تھا۔

وائرڈ میگزین کی درخواست پر امریکہ کے صف اول کے درجنوں مصنفین نے اپنی اپنی کہانیاں بھیجیں۔ مصنفین کی اکثریت کا تعلق سائنس فکشن، فینٹسی اور دہشتناک کہانیاں لکھنے والوں میں سے تھا۔ میگزین کے موصول ہونے کہانیوں کے موضوعات بہت متنوع تھے۔ باہمی تعلقات ، محبت اور سیاست وغیرہ۔ تاہم بہت سی کہانیوں میں " ڈس ٹوپیا" کا تصور بھی نظر آتا ہے یعنی انسان اور دنیا کے مستقبل سے مایوسی۔ یہ کوئ انوکھی بات اس لیے نہیں کیوں کہ ڈسٹوپیا پچھلے سو برس کے ادب کے مرکزی موضوعات میں سے ایک رہا ہے۔ وائرڈ میگزین کے شمارے سے چند منتخب کہانیوں کا ترجمہ نذرِ قارئین ہے، دیکھیے ان میں سے کئی کہانیاں اپنے اعجاز، اختصار اور ایمائیت کی بنا پر شاعری کے درجے تک پہنچ گیے ہیں:

1۔ اس کی حسرت تھی، مل گیا، لعنت
2۔ میں تمہارا مسرقبل ہوں، مت رو بچے
3۔ میں نے خون آلود ہاتھوں سے کہا۔ خدا حافظ
4۔ دن برباد، زندگی برباد، ذرا میٹھا بڑھانا
5۔ کتبہ: بے وقوف انسان، زمین سے بھاگ نہیں سکا
6۔ بہت مہنگا ہے انسان رہنا
7۔ بچے کے خون کا گروپ؟ بالعموم، انسانی
8۔ انسانیت کو بچانے کے لیے اسے دوبارہ مرنا پڑا
9۔ مشین مسرقبل میں پہنچ گئی۔ وہاں کوئ نہیں تھا
10۔ جھوٹ پکڑنے والی عینک کی ایجاد۔ انسانیت منہدم ہوگئ
11۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھ پر گولی نہیں چلائے گی۔
12۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔ تفصیل 11 بجے۔
13۔ اس سے شادی مت کرو۔ گھر خرید لو
14۔ کیا اتنا کافی ہے؟ کاہل ادیب نے پوچھا
 

جیہ

لائبریرین
کیا اتنا کافی ہے؟
روزنامہ "جناح" میں شایع شدہ ایک مضمون

مضمون نگار: مشکور علی​


فنِ تحریر 4 زار سال قبل مسیح میں وجود میں آیا جب کہ دنیا کا پہلا افسانہ مصر کے شاہ خامزی نے 4800 ق م میں لکھا۔ ہندوستان میں بھی کہانی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ وید، اپنشد، پران اور مہا بھارت وغیرہ میں متعدد کہانیاں موجود ہیں۔ ویدک ادب اڑھائ ہزار سال ق م میں شروع ہوا۔ میر امن کی " باغ و بہار" اردو نثر ی ان چند کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جاتیں رہیں گی۔ باغ و بہار انیسویں صدی کی سب سے پہلی نثری تصنیف ہے جو اردو میں لکھی گئ۔

سجاد حیدر یلدرم اردو کے صاحبِ اسلوب اور رجحان ساز ادیب تھے۔ وہ نہ صرف اردو نثر میں انشائے لطیف کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ جدید تحقیق کے مطابق وہ اردو کے پہلے افسانہ نگار بھی ہیں۔ یلدرم نے اردو میں داستان اور ناول سے الگ اور بلند ایک نئ اور مختلف صنفِ ادب کی بنیاد رکھی جس کا شمار آج مختصر افسانے کے نام سے ہماری زبان کے سب سے زیادہ مقبول، زندگی کے سب سے زیادہ قریب اور فن کے اعتبار سے سب زیادہ "پر خطر" صنف ادب میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ 1910 میں خیالستان کے نام سے شایع ہوا تھا۔

افسانے کے محدود کینوس میں طوالت کی کچھ زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ بے جا تفصیل سے تصویر میں حرکت نہیں آتی اور افسانویت باقی نہیں رہتی۔ انگریزی زبان میں افسانے کو "شارٹ سٹوری" یعنی مختصر کہانی کہا جاتا ہے لیکن اس کے با وجود اس کی لمبائ کی کوئ خاص حد مقرر نہیں ہے۔ بعض کہانیاں تو درجنوں صفحات پر محیط ہوتی ہے، تاہم انہیں بھی شارٹ سٹوری کہا جاتا ہے، لانگ سٹوری یا ناول نہیں، لیکن مختصر کہانی کتنی مختصر ہو سکتی ہے؟ 500 الفاظ پر ، 100 الفاظ پر یا 50 الفاظ پر مشتمل ۔۔۔ یہ طے نہیں ہے۔ 1987 میں نیو یارک ٹائمز نے ایک مقابلے کا اعلان کیا جو بعد میں "55 فکشن" کے نام سے مشہور ہوا، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس مقابلے میں دنیا بھر سے مصنفین کو 55 الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ منتخب کہانیوں کو اخبار میں شایع کیا جاتا ہے۔ 2006 میں اخبار کو سات سو کہانیاں موصول ہوئیں جس میں سے 16 معیار پر پوری اتر سکیں۔ ان مختصر کہانیوں کا انتخاب " دنیا کی مختصر ترین کہانیاں" کے نام سے شایع بھی ہو چکا ہے۔

لیکن ایسے ادیب بھی ہیں جنہیں پچپن الفاظ بھی بہت زیادہ لگتے ہیں۔ کم از کم ایک مصنف نے مختصر کہانی کی آخری حد پار کر ڈالی ہے اور اس سے سبقت لے جانا ممکن ہے کیوں کہ اس کہانی میں الفاظ کی تعداد صفر ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کہانی میں ایک لفظ بھی نہ ہو؟

عنوان: " تیسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کی تاریخ"

کہانی: دو سادہ صفحے

سوچیئے تو کیا نہیں ہے اس کہانی میں طنز، سبق آموزی اور تاثیر کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ ظاہر ہے اختصار میں دنیا کا کوئ ادیب اس کہانی سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔ تاہم اس سے قدرے قدرے لمبی کہانیوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ حتیٰ کہ اس صنف میں ڈراؤ نبی کہانیاں بھی لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہانی دیکھیے:

" دنیا کا آخری آدمی کمرے میں بیٹھا تھا، کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئ۔ "

مختصر ترین کہانیوں کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ کی مشہور میگزین " وائرڈ" نے نومبر 2006 کے شمارے میں ایک دلچسپ تجربہ کیا ۔ میگزین کے مدیر نے امریکہ کے چوٹی کے ادیبوں کو صرف 6 الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی۔ میگزین کے پاس بہ طور مثال نوبل انعام یافتہ ادیب "ارنسٹ ہیمنگوئے" کی مختصر کہانی موجود تھی:

"بچگانہ جوتے برائے فروخت، کبھی استعمال نہیں ہوئے"

انگریزی میں یہ کہانی صرف 6 الفاظ پر مشتمل ہے جس میں ادیب نے پوری داستان سمودی ہے۔ جوتے کون بیچ رہا ہے ؟ کسی بچے کے والدین، شاید بچہ پیدا ہوتے ہی مرگیا تھا، مرا ہوا ہی پیدا ہوا تھا۔ والدین نے بڑے ارمانوں اور چاؤ سے اس کے لیے جوتے خریدے ہوں گے لیکن اب وہ اپنی مالی حالات کے ہاتھوں اتنے مجبور ہوگئے کہ مرے ہوئے بجے کے جوتے بیچنے کی نوبت گئ۔ غربت کا عفریت، معاشی نا ہمواری، وسائل کی نا مناسب تقسیم، قدرت کے سامنے انسان کی بے بسی اور ذاتی المیے کیے با وجود زندگی کی گاڑی کا چلتے رہنا سب کچھ اس کہانی میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے ہیمنگوئے نے اس کہانی کو اپنی کیریر کی اعلٰی ترین کہانی قرار دیا تھا۔

وائرڈ میگزین کی درخواست پر امریکہ کے صف اول کے درجنوں مصنفین نے اپنی اپنی کہانیاں بھیجیں۔ مصنفین کی اکثریت کا تعلق سائنس فکشن، فینٹسی اور دہشتناک کہانیاں لکھنے والوں میں سے تھا۔ میگزین کے موصول ہونے کہانیوں کے موضوعات بہت متنوع تھے۔ باہمی تعلقات ، محبت اور سیاست وغیرہ۔ تاہم بہت سی کہانیوں میں " ڈس ٹوپیا" کا تصور بھی نظر آتا ہے یعنی انسان اور دنیا کے مستقبل سے مایوسی۔ یہ کوئ انوکھی بات اس لیے نہیں کیوں کہ ڈسٹوپیا پچھلے سو برس کے ادب کے مرکزی موضوعات میں سے ایک رہا ہے۔ وائرڈ میگزین کے شمارے سے چند منتخب کہانیوں کا ترجمہ نذرِ قارئین ہے، دیکھیے ان میں سے کئی کہانیاں اپنے اعجاز، اختصار اور ایمائیت کی بنا پر شاعری کے درجے تک پہنچ گیے ہیں:

1۔ اس کی حسرت تھی، مل گیا، لعنت
2۔ میں تمہارا مسرقبل ہوں، مت رو بچے
3۔ میں نے خون آلود ہاتھوں سے کہا۔ خدا حافظ
4۔ دن برباد، زندگی برباد، ذرا میٹھا بڑھانا
5۔ کتبہ: بے وقوف انسان، زمین سے بھاگ نہیں سکا
6۔ بہت مہنگا ہے انسان رہنا
7۔ بچے کے خون کا گروپ؟ بالعموم، انسانی
8۔ انسانیت کو بچانے کے لیے اسے دوبارہ مرنا پڑا
9۔ مشین مسرقبل میں پہنچ گئی۔ وہاں کوئ نہیں تھا
10۔ جھوٹ پکڑنے والی عینک کی ایجاد۔ انسانیت منہدم ہوگئ
11۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھ پر گولی نہیں چلائے گی۔
12۔ آسمان ٹوٹ پڑا۔ تفصیل 11 بجے۔
13۔ اس سے شادی مت کرو۔ گھر خرید لو
14۔ کیا اتنا کافی ہے؟ کاہل ادیب نے پوچھا
آجا اوپر
 
Top