فاروق سرور خان
محفلین
پچھلے لوگوں کے بخشش کی بات پہلے بھی ہوچکی ہے کہ ایسی دعا کرنا درست ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اللہ کی طرف سے ظلم کرنے والوں کے بارے میں کیا فرمایا یہ بھی لکھا جاچکا ہے۔ تمام روایات صرف اور صرف اللہ کے بیان کردہ اصول کے مطابق ہی اچھی لگتی ہیں۔ صرف روایات اور فتاوی لوگوں کے رسم و رواج کی نشاندہی تو کرتے ہیں لیکن اللہ کے حکم کی نہیں۔
[ayah]2:256 [/ayah] [arabic]لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ [/arabic] دین میں کوئی زبردستی نہیں، (اختصار کی وجہ سے نصف آیت کی معذرت باقی پڑھ لیجے لنک حاضر ہے)
اس لئے جو کچھ بھی آپ کیجئے جو کہ اسلام کی بنیادی روح یعنی سلامتی کے نفاذ سے نا ٹکراتا ہو تو وہ آپ کے اپنے عقائد و نظریات ہیں۔ آپ کے اپنے اعمال ہیں۔ اور مسلم معاشرہ میں اس کی وجہ سے سختی نہیں بلکہ نرمی اور آسانی اور لچک ہے۔ مسلم معاشرہ میں بنیاد پرستی اور نظریاتی اختلاف کی سزا موت نہیں ۔ تو اگر کوئی ایسا سمجھتا یا کرتا رہے تو جب تک اجتماعی امن و سلامتی میں کوئی فرق نہیں پڑتا، لوگ گوارا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن گوارا کرنے سے ایک سخت اصول کی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔
ان بیانات سے بخشش کی دعا کرنا تو ثابت ہے لیکن اپنے اعمال کا ثواب دوسروں کو پہنچے یہ نہیں ثابت ہے۔ ایک شخصتمام عمر گناہ اور ظلم کرتا رہا۔ اس کے پاس موقع تھا کہ وہ درستگی کرلیتا۔ اب مر گیا ، اس کی اولاد نے اس کے لئے 50 ملا بلائے جنہوں نے 50 قرآن پڑھ کر بخشوا دیا، چلو چھٹی ہوئی۔ ایسا کیسے ممکن ہے ، نہ عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی وعدہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تمہاری اولاد تمہارے گناہ اپنے اعمال و ثواب سے بخشوا سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے واضح فرما دیا ہے کہ وہ رسولوں سے کیا ہوا اپنا وعدہ نہیں توڑیںگے۔ آپ ذرا پیچھ جاکر پورا دھاگہ پڑھ لیجئے۔
دوبارہ عرض ہے کہ بخشش کی دعا کرنا ایک سے زائید آیات سے ثابت ہے۔ لیکن کسی کے اعمال بد کو کو قران پڑھ کر ثواب کی ترسیل سے مٹانے کی آیات پر اب تک میری نظر نہیں رکی۔ اگرکوئی صاحب عنایت فرمائیں تو بہت نوازش ہوگی۔ اور یہ عقدہ بھی حل ہو جائے گا۔ ورنہ تو یہ لگتا ہے کہ بخشش کی دعا کو کھینچ تان کر اتنا پھیلا دیا گیا ہے کہ وہ گناہوں کو بعد والوں کے اعمال کے ثواب سے مٹانے کا نظریہ بن گئی ہیں۔
ایک عرضاور۔
میں کسی شخص کی ذاتی مخالفت نہیں کرتا۔ باذوق سے میری بہت بحث ہوتی ہے۔ اور وہ مجھ پر اور میں ان پر تنقید کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ درست آیات پیش کرتے ہیں تو اس اصول کی تائید میرا فرض ہے۔ اس لئے کہ یہ ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ آپ ان کی پیش کردہ آیات بھی دیکھ لیجئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بھی دیکھ لیجئے۔ محسن کی پیش کردہ آیات بھی دیکھ لیجئے، ان سب آیات سے واضح ہے کہ ہمارے اعمال اور ہمارا ثواب۔
والسلام
[ayah]2:256 [/ayah] [arabic]لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ [/arabic] دین میں کوئی زبردستی نہیں، (اختصار کی وجہ سے نصف آیت کی معذرت باقی پڑھ لیجے لنک حاضر ہے)
اس لئے جو کچھ بھی آپ کیجئے جو کہ اسلام کی بنیادی روح یعنی سلامتی کے نفاذ سے نا ٹکراتا ہو تو وہ آپ کے اپنے عقائد و نظریات ہیں۔ آپ کے اپنے اعمال ہیں۔ اور مسلم معاشرہ میں اس کی وجہ سے سختی نہیں بلکہ نرمی اور آسانی اور لچک ہے۔ مسلم معاشرہ میں بنیاد پرستی اور نظریاتی اختلاف کی سزا موت نہیں ۔ تو اگر کوئی ایسا سمجھتا یا کرتا رہے تو جب تک اجتماعی امن و سلامتی میں کوئی فرق نہیں پڑتا، لوگ گوارا کرتے رہتے ہیں۔ لیکن گوارا کرنے سے ایک سخت اصول کی تعمیر نہیں کی جاسکتی۔
ان بیانات سے بخشش کی دعا کرنا تو ثابت ہے لیکن اپنے اعمال کا ثواب دوسروں کو پہنچے یہ نہیں ثابت ہے۔ ایک شخصتمام عمر گناہ اور ظلم کرتا رہا۔ اس کے پاس موقع تھا کہ وہ درستگی کرلیتا۔ اب مر گیا ، اس کی اولاد نے اس کے لئے 50 ملا بلائے جنہوں نے 50 قرآن پڑھ کر بخشوا دیا، چلو چھٹی ہوئی۔ ایسا کیسے ممکن ہے ، نہ عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی وعدہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ تمہاری اولاد تمہارے گناہ اپنے اعمال و ثواب سے بخشوا سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے واضح فرما دیا ہے کہ وہ رسولوں سے کیا ہوا اپنا وعدہ نہیں توڑیںگے۔ آپ ذرا پیچھ جاکر پورا دھاگہ پڑھ لیجئے۔
دوبارہ عرض ہے کہ بخشش کی دعا کرنا ایک سے زائید آیات سے ثابت ہے۔ لیکن کسی کے اعمال بد کو کو قران پڑھ کر ثواب کی ترسیل سے مٹانے کی آیات پر اب تک میری نظر نہیں رکی۔ اگرکوئی صاحب عنایت فرمائیں تو بہت نوازش ہوگی۔ اور یہ عقدہ بھی حل ہو جائے گا۔ ورنہ تو یہ لگتا ہے کہ بخشش کی دعا کو کھینچ تان کر اتنا پھیلا دیا گیا ہے کہ وہ گناہوں کو بعد والوں کے اعمال کے ثواب سے مٹانے کا نظریہ بن گئی ہیں۔
ایک عرضاور۔
میں کسی شخص کی ذاتی مخالفت نہیں کرتا۔ باذوق سے میری بہت بحث ہوتی ہے۔ اور وہ مجھ پر اور میں ان پر تنقید کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ درست آیات پیش کرتے ہیں تو اس اصول کی تائید میرا فرض ہے۔ اس لئے کہ یہ ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ آپ ان کی پیش کردہ آیات بھی دیکھ لیجئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بھی دیکھ لیجئے۔ محسن کی پیش کردہ آیات بھی دیکھ لیجئے، ان سب آیات سے واضح ہے کہ ہمارے اعمال اور ہمارا ثواب۔
والسلام