حسان خان
لائبریرین
کیا اسیری میں کریں شکوہ ترا صیاد ہم
واں بھی کچھ دامِ رگِ گل سے نہ تھے آزاد ہم
دام دودِ نالۂ بے جاں ہے، دانے اشک ہیں
یعنی اِن کافر پریزادوں کے ہیں صیاد ہم
آج کل سے کچھ نہیں اپنی زباں معجز بیاں
نطق عیسیٰ کی طرح رکھتے ہیں مادرزاد ہم
یہ زمیں ہے بے وفا، یہ آسماں بے مہر ہے
جی میں ہے اک اب نیا عالم کریں ایجاد ہم
روک لے اک بات کی بات اپنے دست و تیغ کو
دے لیں اے قاتل رقیبوں کو مبارک باد ہم
اُس نے تلواریں جڑیں فریاد پر جوں جوں ہمیں
ہر دہانِ زخم سے کرنے لگے فریاد ہم
قیدِ ہستی تک ہیں تیرے دامِ گیسو میں اسیر
تن سے سر آزاد ہو جائے تو ہوں آزاد ہم
جب سے دیکھی ہے گلِ رخسارِ جاناں کی بہار
ہو رہے ہیں صورتِ برگِ خزاں برباد ہم
خندہ زن ہوتا نہیں اپنا دہانِ زخم بھی
کوئی دنیا میں نہ ہو گا جیسے ہیں ناشاد ہم
پہلے تیشہ مارتے خسرو کو اے شیریں دہن
جی نہ کھوتے مفت اپنا ہوتے گر فرہاد ہم
پہلے اپنے عہد سے افسوس سوداؔ اٹھ گیا
کس سے مانگیں جا کے ناسخ اس غزل کی داد ہم
(امام بخش ناسخ)